Book - حدیث 2213

كِتَابُ الطَّلَاقِ بَابٌ فِي الظِّهَارِ حسن حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ الْمَعْنَى، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ مُحَمَّدِ ابْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ، قَالَ ابْنُ الْعَلَاءِ: ابْنِ عَلْقَمَةَ بْنِ عَيَّاشٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ صَخْرٍ، قَالَ ابْنُ الْعَلَاءِ الْبَيَاضِيُّ: قَالَ: كُنْتُ امْرَأً أُصِيبُ مِنَ النِّسَاءِ مَا لَا يُصِيبُ غَيْرِي، فَلَمَّا دَخَلَ شَهْرُ رَمَضَانَ خِفْتُ أَنْ أُصِيبَ مِنِ امْرَأَتِي شَيْئًا يُتَابَعُ بِي حَتَّى أُصْبِحَ، فَظَاهَرْتُ مِنْهَا حَتَّى يَنْسَلِخَ شَهْرُ رَمَضَانَ، فَبَيْنَا هِيَ تَخْدُمُنِي ذَاتَ لَيْلَةٍ, إِذْ تَكَشَّفَ لِي مِنْهَا شَيْءٌ، فَلَمْ أَلْبَثْ أَنْ نَزَوْتُ عَلَيْهَا، فَلَمَّا أَصْبَحْتُ, خَرَجْتُ إِلَى قَوْمِي، فَأَخْبَرْتُهُمُ الْخَبَرَ، وَقُلْتُ: امْشُوا مَعِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالُوا: لَا وَاللَّهِ، فَانْطَلَقْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ: >أَنْتَ بِذَاكَ يَا سَلَمَةُ؟!<، قُلْتُ: أَنَا بِذَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ! مَرَّتَيْنِ، وَأَنَا صَابِرٌ لِأَمْرِ اللَّهِ، فَاحْكُمْ فِيَّ مَا أَرَاكَ اللَّهُ، قَالَ: >حَرِّرْ رَقَبَةً<، قُلْتُ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا أَمْلِكُ رَقَبَةً غَيْرَهَا -وَضَرَبْتُ صَفْحَةَ رَقَبَتِي-، قَالَ: >فَصُمْ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ<، قَالَ: وَهَلْ أَصَبْتُ الَّذِي أَصَبْتُ إِلَّا مِنَ الصِّيَامِ؟ قَالَ: >فَأَطْعِمْ وَسْقًا مِنْ تَمْرٍ بَيْنَ سِتِّينَ مِسْكِينًا<، قُلْتُ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَقَدْ بِتْنَا وَحْشَيْنِ مَا لَنَا طَعَامٌ، قَالَ: >فَانْطَلِقْ إِلَى صَاحِبِ صَدَقَةِ بَنِي زُرَيْقٍ، فَلْيَدْفَعْهَا إِلَيْكَ، فَأَطْعِمْ سِتِّينَ مِسْكِينًا وَسْقًا مِنْ تَمْرٍ، وَكُلْ أَنْتَ وَعِيَالُكَ بَقِيَّتَهَا<. فَرَجَعْتُ إِلَى قَوْمِي، فَقُلْتُ: وَجَدْتُ عِنْدَكُمُ الضِّيقَ، وَسُوءَ الرَّأْيِ، وَوَجَدْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ السَّعَةَ وَحُسْنَ الرَّأْيِ، وَقَدْ أَمَرَنِي -أَوْ أَمَرَ لِي- بِصَدَقَتِكُمْ. زَادَ ابْنُ الْعَلَاءِ، قَالَ ابْنُ إِدْرِيسَ: بَيَاضَةُ: بَطْنٌ مِنْ بَنِي زُرَيْقٍ

ترجمہ Book - حدیث 2213

کتاب: طلاق کے احکام و مسائل باب: ظہار کے احکام و مسائل سیدنا سلمہ بن صخر بیاضی ؓ کہتے ہیں کہ میں ایسا شخص تھا جو عورتوں کو اس قدر آتا تھا کہ کوئی اور کیا آتا ہو گا ۔ ( بڑی جنسی قوت والا تھا ۔ ) جب رمضان کا مہینہ آیا تو مجھے اندیشہ ہوا کہ بیوی کے ساتھ کچھ کر نہ بیٹھوں کہ صبح تک الگ ہی نہ ہو سکوں ۔ سو میں نے اس سے ظہار کر لیا حتیٰ کہ رمضان گزر جائے ۔ اتفاق سے ایک رات وہ میری خدمت کر رہی تھی کہ اس کے جسم کا کچھ حصہ میرے سامنے ظاہر ہوا تو میں ضبط نہ کر سکا اور اس کے اوپر چڑھ گیا ۔ جب صبح ہوئی تو میں اپنی قوم کے پاس گیا اور انہیں اپنا قصہ بتایا اور انہیں کہا : میرے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے پاس چلو ، وہ کہنے لگے نہیں ، قسم اللہ کی ! ( ہم تو نہیں جاتے ) تو میں خود ہی نبی کریم ﷺ کے پاس حاضر ہو گیا اور آپ کو خبر دی ۔ آپ نے کہا : ” سلمہ ! ارے تو نے ؟ “ میں نے عرض کیا : ہاں اے اللہ کے رسول ! میں نے ، دو بار کہا : اور میں اللہ کے حکم پر صابر ( راضی ) ہوں ، میرے بارے میں جو اللہ آپ کو سجھائے فیصلہ فر دیجئیے ۔ آپ نے فرمایا ” ایک گردن آزاد کر دو ۔ “ میں نے کہا : قسم اللہ کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے ! میں تو بس اسی کا مالک ہوں اور میں نے اپنی گردن کی ایک جانب پر ہاتھ مارا ۔ آپ نے فرمایا ” تو پھر دو مہینے متواتر روزے رکھو ۔ “ میں نے کہا کہ اور یہ جو کچھ میرے ساتھ ہوا ہے ، روزوں ہی کی وجہ سے تو ہوا ہے ۔ آپ نے فرمایا ” تو ایک وسق ( ساٹھ صاع ) کھجور ساٹھ مسکینوں میں تقسیم کر دو ۔ “ میں نے کہا : قسم اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے ! ہم نے تو بھوکے پیٹوں رات گزاری ہے ، ہمارے پاس کھانے کو کچھ نہ تھا ۔ آپ نے فرمایا ” تو بنی زریق کے صدقہ کرنے والے کے پاس چلے جاؤ ، وہ تمہیں کچھ دے گا ۔ تو اس میں سے ایک وسق کھجور ساٹھ مسکینوں کو کھلا دینا اور باقی تم اور تمہارا عیال کھا لے ۔ “ چنانچہ میں اپنی قوم کے پاس واپس آیا اور انہیں کہا کہ میں نے تمہارے پاس تنگی اور بری رائے پائی ، جبکہ نبی کریم ﷺ کے پاس سے وسعت اور بہترین رائے ملی ہے ۔ آپ نے مجھے تمہارے صدقے ( لینے ) کا حکم فرمایا ہے ۔ ابن العلاء نے کہا : ابن ادریس نے وضاحت کی کہ بیاضہ ، بنی زریق کی ایک برادری کا نام ہے ۔
تشریح : 1۔ایمان جب دل میں جاگزیں ہوجاتا ہے تومومن اللہ کی نافرمانی سے خائف رہتا ہے۔اور اگر کوئی خطا ہوجائے تو فورا اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے۔اور یہی تفسیر ہے اس قول کی کہ ایمان خوف اور رجا(امید)کے درمیان ہے اور یہ واقعہ اس کی شاندار مثال ہے۔ 2۔ایک وسق میں ساٹھ صاع ہوتے ہیں اور ایک صاع میں چار مد اس حساب سے ایک صاع کا وزن تقریبا ڈھائی کلو اور ایک وسق کا وزن تین من اور تیس کلو اور بعض علماء کے نزدیک تین من اور چھ کلو ہوگا۔ 1۔ایمان جب دل میں جاگزیں ہوجاتا ہے تومومن اللہ کی نافرمانی سے خائف رہتا ہے۔اور اگر کوئی خطا ہوجائے تو فورا اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے۔اور یہی تفسیر ہے اس قول کی کہ ایمان خوف اور رجا(امید)کے درمیان ہے اور یہ واقعہ اس کی شاندار مثال ہے۔ 2۔ایک وسق میں ساٹھ صاع ہوتے ہیں اور ایک صاع میں چار مد اس حساب سے ایک صاع کا وزن تقریبا ڈھائی کلو اور ایک وسق کا وزن تین من اور تیس کلو اور بعض علماء کے نزدیک تین من اور چھ کلو ہوگا۔