Book - حدیث 2212

كِتَابُ الطَّلَاقِ بَابٌ فِي الرَّجُلِ يَقُولُ لِامْرَأَتِهِ يَا أُخْتِي صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، >أَنَّ إِبْرَاهِيمَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكْذِبْ قَطُّ إِلَّا ثَلَاثًا, ثِنْتَانِ فِي ذَاتِ اللَّهِ تَعَالَى: قَوْلُهُ: {إِنِّي سَقِيمٌ}[الأنبياء: 63]، وَقَوْلُهُ: {بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَذَا}[الصافات: 89]، وَبَيْنَمَا هُوَ يَسِيرُ فِي أَرْضِ جَبَّارٍ مِنَ الْجَبَابِرَةِ، إِذْ نَزَلَ مَنْزِلًا فَأُتِيَ الْجَبَّارُ فَقِيلَ لَهُ: إِنَّهُ نَزَلَ هَاهُنَا رَجُلٌ مَعَهُ امْرَأَةٌ هِيَ أَحْسَنُ النَّاسِ، قَالَ: فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ، فَسَأَلَهُ عَنْهَا؟ فَقَالَ: إِنَّهَا أُخْتِي، فَلَمَّا رَجَعَ إِلَيْهَا, قَالَ: إِنَّ هَذَا سَأَلَنِي عَنْكِ، فَأَنْبَأْتُهُ أَنَّكِ أُخْتِي، وَإِنَّهُ لَيْسَ الْيَوْمَ مُسْلِمٌ غَيْرِي وَغَيْرُكِ، وَإِنَّكِ أُخْتِي فِي كِتَابِ اللَّهِ، فَلَا تُكَذِّبِينِي عِنْدَهُ..., وَسَاقَ الْحَدِيثَ. قَالَ أَبو دَاود: رَوَى هَذَا الْخَبَرَ شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ.

ترجمہ Book - حدیث 2212

کتاب: طلاق کے احکام و مسائل باب: شوہر اپنی بیوی کو بہن کہہ دے تو؟ سیدنا ابوہریرہ ؓ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ ” بلاشبہ ابراہیم علیہ السلام نے کبھی جھوٹ نہیں بولا مگر تین مواقع پر ۔ دو بار اللہ عزوجل کے بارے میں ۔ جبکہ آپ نے ( قوم سے ) کہا : تھا «إني سقيم» ” میں بیمار ہوں ، یا میری طبیعت ناساز ہے ۔ “ دوسری بار آپ نے کہا : تھا «بل فعله كبيرهم هذا» ” یہ تو ان کے اس بڑے نے کیا ہے ۔ “ اور تیسری بار جب کہ وہ ایک جابر بادشاہ کے علاقے میں سے جا رہے تھے کہ ایک جگہ پڑاؤ کیا تو اس ظالم بادشاہ کو خبر دی گئی اور کہا گیا کہ یہاں ایک شخص اترا ہے اور اس کے ساتھ ایک عورت ہے انتہائی حسین و جمیل ! تو اس نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو بلا بھیجا اور خاتون کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا : ” یہ میری بہن ہے ۔ اور جب وہ اپنی اہلیہ کے پاس لوٹے تو اسے بتایا کہ اس نے مجھ سے تمہارے متعلق پوچھا ہے اور میں نے اس کو بتایا ہے کہ تو میری بہن ہے اور حقیقت یہ ہے کہ آج تیرے اور میرے علاوہ کوئی مسلمان نہیں ہے اور اللہ کی کتاب میں تو میری بہن ہے تو مجھے اس کے ہاں مت جھٹلانا ۔ “ اور حدیث بیان کی ۔ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ اس حدیث کو شعیب بن ابی حمزہ نے ابو الزناد سے ، انہوں نے اعرج سے ، انہوں نے سیدنا ابوہریرہ سے ، انہوں نے نبی کریم ﷺ سے اسی کی مانند روایت کیا ہے ۔
تشریح : بیوی کو عادتایا محبت واکرام میں بہن کہنا کسی ظرح روا نہیں لیکن کہیں کسی واقعی شرعی ضرورت سے تو ریہ کے طور پر کہئ تو مباح ہے۔جیسے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے معروف قصے میں وارد ہوا ہے۔ 2۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق اس حدیث کو بعض متجدد ناقابل تسلیم کہتے ہیں۔بلکہ تمام ذخیرہ احادیث کو مشکوک عجمی سازش اور نہ معلوم کس کس لقب سے یاد کرتے ہیںان کا انداز تحریر وگفتگو کچھ یوں ہوتا ہے کہ قرآن مجید کے مقابلے میں اھادیچ کے راویوں کو یوں جھٹلاوینااور ضعیف کہنا زیادہ بہتر اور آسان ہےکجا یہ کہ قرآن مجید کی تغلیط کی جائے۔قرآن مجید نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں بصراحت کہا ہےکہ (انه كان صديقا نبيا) (مريم:٤١) بلاشبہ وہ انتہائی سچے نبی تھے اس فکر کے حامل لوگوں کو ذرا غور کرنا چاہیے کہ قرآن مجید بھی تو ہمارے پاس ان راویوں کے ذریعے سے پہنچا ہے جن کے ذریعے سے احادیث پہنچی ہیں۔حق وصداقت اور دیانت کے اعلٰی ترین معیار کے عدیم المثال اصول قرآن مجید اور احادیث نبویہ کی نقل وروایت کے سلسلے میں ایک ہی ہیں۔جہاں جو فرق ہے وہ بصیرت اہل علم سے مخفی نہیں اور اس وجہ سے احادیث کو کئی درجات میں تقسیم کرکے ان کے حکم بھی الگ الگ بتائے گئے ہیں۔ اس حدیث کو قرآن مجید کے واقعتا خلاف کہنادیانت علمی کے خلاف ہے۔تفسیر احسن البیان (از حافظ صلاح الدین یوسف ؒ)میں سے درج ذیل اقتباس پیش کردینا مناسب ہے۔حافظ صاحب موصوف سورۃالانبیاء کی آیت 63(قال بل فعله كبيرهم هذادسئلوهم ان كانوا ينطقون) کے ذیل میں لکھتے ہیں ( حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ان اقوال کو) یقینا حقیقت کے اعتبار سے جھوٹ نہیں کہا جاسکتا۔گویہ کذب اللہ کے ہاں قابل مواخذہ نہیں ہے کیونکہ وہ اللہ ہی کے لیے بولے گئے ہیں۔درآں حالیکہ کوئی گناہ کا کام نہیں ہوسکتا ۔اور یہ تب ہی ہوسکتا ہے کہ ظاہری طور پر کذب ہونے کے باوجود وہ حقیقتا کذب نہ ہو۔لیکن (چونکہ ان کا صدر وابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام جیسے جلیل القدر جلیل القدر اور عظیم انسان سے ہوا لہذا)انہیں کذب سے تعبیر کردیا گیا ہے جیسے حضرت آدم علیہ السلام کے لیے عصي اور غوي کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔حالانکہ خود قرآن ہی میں ان کے فعل اکل شجر کو نسیان اور ارادے کی کمزوری کا نتیجہ بھی بتلایا گیا ہے۔جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ کسی کام کے دو پہلو بھی ہوسکتے ہیں۔من وجہ اس میں استحسان اور من وجہ ٰظاہری قباحت کا پہلو ہو ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کایہ قول اس پہلو سے ظاہری طور پر کذب ہی ہے کہ واقعے کے خلاف تھا۔بتوں کو انہوں نے خود توڑا تھا۔لیکن ان کا انتساب بڑے بت کی طرف کیا۔مگر چونکہ مقصد ان کا تعریفیں اور اثبات توحید تھا اس لیے حقیقت کے اعتبار سے ہم اسے جھوٹ کے بجائے اتمام حجت کا ایک طریق اور مشرکین کی بے عقلی کے اثبات واظہار کا ایک انداز کہیں گے۔علاوہ ازیں حدیث میں ان کذبات کا ذکر جس ضمن میں آیا ہے وہ بھی قابل غور ہےاور وہ میدان حشر میں اللہ کے روبروجاکر سفارش کرنے سے اس لیے گریز کرنا کہ ان سے دنیا میں تین موقعوں پر لغزش کا صدور ہوا ہے۔درآں حالیکہ وہ لغزشیں نہیں ہیں یعنی حقیقت اور مقصد کے اعتبار سے وہ جھوٹ نہیں ہے۔مگر وہ اللہ کی عظمت وجلال کی وجہ سے اتنے خوف زدہ ہونگے کہ یہ باتیں جھوٹ کے ساتھ ظاہری مماثلت کی وجہ سے قابل گرفت نظر آئیں گی۔گویا حدیث کا مقصد حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جھوٹا ثابت کرنا ہرگز نہیں ہے بلکہ اس کیفیت کا اظہار ہے جوقیامت والے دن خشیت الہی کی وجہ سے ان پر طاری ہوگی۔ پھر لطف یہ ہے کہ ان تینوں باتوں میں سے دو تو خود قرآن میں مذکور ہیں حدیث میں تو صرف ان کا حوالہ ہے ۔تیسری بات البتہ صرف حدیث میں مذکور ہے مگر جن حالات میں وہ بات کہی گئی ہےان حالات میں خود قرآن نے اظہار کفر تک اجازت دی ہے۔پس اگر حدیث پر اعتاب اتارناہے تو پہلے یہ حضرات قرآن پر اعتاب اتاریں۔اور اس سے اپنی براءت کا اظہار کریں۔ بیوی کو عادتایا محبت واکرام میں بہن کہنا کسی ظرح روا نہیں لیکن کہیں کسی واقعی شرعی ضرورت سے تو ریہ کے طور پر کہئ تو مباح ہے۔جیسے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے معروف قصے میں وارد ہوا ہے۔ 2۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق اس حدیث کو بعض متجدد ناقابل تسلیم کہتے ہیں۔بلکہ تمام ذخیرہ احادیث کو مشکوک عجمی سازش اور نہ معلوم کس کس لقب سے یاد کرتے ہیںان کا انداز تحریر وگفتگو کچھ یوں ہوتا ہے کہ قرآن مجید کے مقابلے میں اھادیچ کے راویوں کو یوں جھٹلاوینااور ضعیف کہنا زیادہ بہتر اور آسان ہےکجا یہ کہ قرآن مجید کی تغلیط کی جائے۔قرآن مجید نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں بصراحت کہا ہےکہ (انه كان صديقا نبيا) (مريم:٤١) بلاشبہ وہ انتہائی سچے نبی تھے اس فکر کے حامل لوگوں کو ذرا غور کرنا چاہیے کہ قرآن مجید بھی تو ہمارے پاس ان راویوں کے ذریعے سے پہنچا ہے جن کے ذریعے سے احادیث پہنچی ہیں۔حق وصداقت اور دیانت کے اعلٰی ترین معیار کے عدیم المثال اصول قرآن مجید اور احادیث نبویہ کی نقل وروایت کے سلسلے میں ایک ہی ہیں۔جہاں جو فرق ہے وہ بصیرت اہل علم سے مخفی نہیں اور اس وجہ سے احادیث کو کئی درجات میں تقسیم کرکے ان کے حکم بھی الگ الگ بتائے گئے ہیں۔ اس حدیث کو قرآن مجید کے واقعتا خلاف کہنادیانت علمی کے خلاف ہے۔تفسیر احسن البیان (از حافظ صلاح الدین یوسف ؒ)میں سے درج ذیل اقتباس پیش کردینا مناسب ہے۔حافظ صاحب موصوف سورۃالانبیاء کی آیت 63(قال بل فعله كبيرهم هذادسئلوهم ان كانوا ينطقون) کے ذیل میں لکھتے ہیں ( حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ان اقوال کو) یقینا حقیقت کے اعتبار سے جھوٹ نہیں کہا جاسکتا۔گویہ کذب اللہ کے ہاں قابل مواخذہ نہیں ہے کیونکہ وہ اللہ ہی کے لیے بولے گئے ہیں۔درآں حالیکہ کوئی گناہ کا کام نہیں ہوسکتا ۔اور یہ تب ہی ہوسکتا ہے کہ ظاہری طور پر کذب ہونے کے باوجود وہ حقیقتا کذب نہ ہو۔لیکن (چونکہ ان کا صدر وابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام جیسے جلیل القدر جلیل القدر اور عظیم انسان سے ہوا لہذا)انہیں کذب سے تعبیر کردیا گیا ہے جیسے حضرت آدم علیہ السلام کے لیے عصي اور غوي کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔حالانکہ خود قرآن ہی میں ان کے فعل اکل شجر کو نسیان اور ارادے کی کمزوری کا نتیجہ بھی بتلایا گیا ہے۔جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ کسی کام کے دو پہلو بھی ہوسکتے ہیں۔من وجہ اس میں استحسان اور من وجہ ٰظاہری قباحت کا پہلو ہو ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کایہ قول اس پہلو سے ظاہری طور پر کذب ہی ہے کہ واقعے کے خلاف تھا۔بتوں کو انہوں نے خود توڑا تھا۔لیکن ان کا انتساب بڑے بت کی طرف کیا۔مگر چونکہ مقصد ان کا تعریفیں اور اثبات توحید تھا اس لیے حقیقت کے اعتبار سے ہم اسے جھوٹ کے بجائے اتمام حجت کا ایک طریق اور مشرکین کی بے عقلی کے اثبات واظہار کا ایک انداز کہیں گے۔علاوہ ازیں حدیث میں ان کذبات کا ذکر جس ضمن میں آیا ہے وہ بھی قابل غور ہےاور وہ میدان حشر میں اللہ کے روبروجاکر سفارش کرنے سے اس لیے گریز کرنا کہ ان سے دنیا میں تین موقعوں پر لغزش کا صدور ہوا ہے۔درآں حالیکہ وہ لغزشیں نہیں ہیں یعنی حقیقت اور مقصد کے اعتبار سے وہ جھوٹ نہیں ہے۔مگر وہ اللہ کی عظمت وجلال کی وجہ سے اتنے خوف زدہ ہونگے کہ یہ باتیں جھوٹ کے ساتھ ظاہری مماثلت کی وجہ سے قابل گرفت نظر آئیں گی۔گویا حدیث کا مقصد حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جھوٹا ثابت کرنا ہرگز نہیں ہے بلکہ اس کیفیت کا اظہار ہے جوقیامت والے دن خشیت الہی کی وجہ سے ان پر طاری ہوگی۔ پھر لطف یہ ہے کہ ان تینوں باتوں میں سے دو تو خود قرآن میں مذکور ہیں حدیث میں تو صرف ان کا حوالہ ہے ۔تیسری بات البتہ صرف حدیث میں مذکور ہے مگر جن حالات میں وہ بات کہی گئی ہےان حالات میں خود قرآن نے اظہار کفر تک اجازت دی ہے۔پس اگر حدیث پر اعتاب اتارناہے تو پہلے یہ حضرات قرآن پر اعتاب اتاریں۔اور اس سے اپنی براءت کا اظہار کریں۔