كِتَابُ الطَّلَاقِ بَابٌ فِي الْبَتَّةِ ضعیف حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْعَتَكِيُّ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ عَنِ الزُّبَيْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ بْنِ رُكَانَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ الْبَتَّةَ، فَأَتَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَا أَرَدْتَ؟ ، قَالَ: وَاحِدَةً! قَالَ: >آللَّهِ؟<، قَالَ: آللَّهِ، قَالَ: >هُوَ عَلَى مَا أَرَدْتَ. قَالَ أَبو دَاود: وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ جُرَيْجٍ أَنَّ رُكَانَةَ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا لِأَنَّهُمْ أَهْلُ بَيْتِهِ وَهُمْ أَعْلَمُ بِهِ وَحَدِيثُ ابْنِ جُرَيْجٍ رَوَاهُ، عَنْ بَعْضِ بَنِي أَبِي رَافِعٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ.
کتاب: طلاق کے احکام و مسائل
باب: طلاق بتہ کا بیان
عبداللہ بن علی بن یزید بن رکانہ اپنے والد سے وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنی بیوی کو بتہ طلاق دے دی تھی ۔ پھر وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا تو آپ نے پوچھا ” تم نے کیا ارادہ کیا تھا ؟ “ اس نے کہا : ایک کا ۔ آپ نے کہا : ” اللہ کی قسم سے کہتے ہو ؟ “ کہا : اللہ کی قسم سے کہتا ہوں ۔ آپ نے فرمایا ” یہ وہی ہے جو تم نے ارادہ کیا ۔ “ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ یہ روایت ابن جریج کی ( گذشتہ ) روایت ( 2196 ) سے صحیح تر ہے کہ رکانہ نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی تھیں کیونکہ یہ لوگ اس کے اپنے گھر والے ہیں ، اور یہ اس کے متعلق بہتر جانتے ہیں ۔ اور ابن جریج کی روایت ابورافع کے کسی بیٹے نے عکرمہ سے اور اس نے ابن عباس سے روایت کی ہے ۔
تشریح :
اس روایت کی صحت میں اختلاف ہے ۔ہمارے فاضل محقق شیخ زبیر علی زئی اور بعض محقیقین کے نزدیک ضعیف ہے ابوداؤد کا یہ کہنا ہے کہ یہ حدیث ابن جریج کی حدیث سے صحیح تر ہے کا یہ معنی ہے کہ یہ فی الواقع اصطلاحی تعریف کے مطابق صحیح ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ یہ سند دوسری کے مقابلے میں قدرے بہتر ہے۔مگر حقیقتا دونوں ہی میں ضعف ہے۔( دیکھیے ارواءالغلیل:1437)
اس روایت کی صحت میں اختلاف ہے ۔ہمارے فاضل محقق شیخ زبیر علی زئی اور بعض محقیقین کے نزدیک ضعیف ہے ابوداؤد کا یہ کہنا ہے کہ یہ حدیث ابن جریج کی حدیث سے صحیح تر ہے کا یہ معنی ہے کہ یہ فی الواقع اصطلاحی تعریف کے مطابق صحیح ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ یہ سند دوسری کے مقابلے میں قدرے بہتر ہے۔مگر حقیقتا دونوں ہی میں ضعف ہے۔( دیکھیے ارواءالغلیل:1437)