Book - حدیث 2203

كِتَابُ الطَّلَاقِ بَابٌ فِي الْخِيَارِ صحیح حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: خَيَّرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاخْتَرْنَاهُ، فَلَمْ يَعُدَّ ذَلِكَ شَيْئًا.

ترجمہ Book - حدیث 2203

کتاب: طلاق کے احکام و مسائل باب: بیوی کو اختیار دینے کا مسئلہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم کو اختیار دیا تو ہم نے آپ ﷺ ہی کو اختیار کیا تھا ، چنانچہ اس کو کچھ بھی شمار نہ کیا گیا ۔
تشریح : 1۔اگر شوہر بیوی سے کہے مجھے اختیار کرلو یا اپنے آپ کو یا تمہیں اختیار ہے وغیرہ۔اور نیت طلاق کی ہو۔۔۔۔۔پھر اگر بیوی نے اپنے آپ کو اختیار کرلیا تو طلاق ہو جائے گی۔اور اگر شوہر کو اختیار کرلے تو نہیں ہوگی۔ 2۔فتوحات کے نتیجے میں جب مسلمانوں کی مالی حالت پہلے کی نسبت کچھ بہتر ہوگئی تو انصا رومہاجرین کی عورتوں کو دیکھ کر ازواج مطہرات نے بھی نان و نفقہ میں اضافہ کا مطالبہ کردیا۔نبیﷺ چونکہ نہایت سادگی پسند تھے اس لیے ازواج مطہرات کے اس مطالبے پر سخت کبیدہ خاطر ہوئےاور بیویوں سے علیحدگی اختیار کرلی جو ایک مہینے تک جاری رہی۔بالآخر اللہ تعالی نےیہ آیت نازل فرمائی:(ياايها النبي قل لازواجك ان كنتن تردن الحيوة الدنيا وزينتها فتعالين امتعكن واسرحكن سراحا جميلاّ وان كنتن تردن الله ورسوله والدارالآخرة فان الله اعد للمحسنت منكن اجرا عظيما) (الاحزاب)٢٨ّ٢٩) اس کے بعد نبی ﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کو یہ آیت سنا کر انہیں اختیار دیا۔تاہم انہیں کہا کہ اپنے طور پر فیصلہ کرنے کےکی بجائے اپنے والدین سے مشورے کے بعد کوئی اقدام کرنا۔حضرت عائشہ نے کہا :یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں آپ کے بارے میں مشورہ کروں۔بلکہ میں اللہ اور اس کے رسول کو اختیار کرتی ہوں۔یہی بات دیگر ازواج مطہرات نے بھی کہی اور کسی نے بھی رسول اللہﷺ کو چھوڑ کردنیا کے عیش وآرام کو ترجیح نہیں دی ۔(صحیح بخاری تفسیر سورہ احزاب۔ماخوذ از تفسیراحسن البیان) 1۔اگر شوہر بیوی سے کہے مجھے اختیار کرلو یا اپنے آپ کو یا تمہیں اختیار ہے وغیرہ۔اور نیت طلاق کی ہو۔۔۔۔۔پھر اگر بیوی نے اپنے آپ کو اختیار کرلیا تو طلاق ہو جائے گی۔اور اگر شوہر کو اختیار کرلے تو نہیں ہوگی۔ 2۔فتوحات کے نتیجے میں جب مسلمانوں کی مالی حالت پہلے کی نسبت کچھ بہتر ہوگئی تو انصا رومہاجرین کی عورتوں کو دیکھ کر ازواج مطہرات نے بھی نان و نفقہ میں اضافہ کا مطالبہ کردیا۔نبیﷺ چونکہ نہایت سادگی پسند تھے اس لیے ازواج مطہرات کے اس مطالبے پر سخت کبیدہ خاطر ہوئےاور بیویوں سے علیحدگی اختیار کرلی جو ایک مہینے تک جاری رہی۔بالآخر اللہ تعالی نےیہ آیت نازل فرمائی:(ياايها النبي قل لازواجك ان كنتن تردن الحيوة الدنيا وزينتها فتعالين امتعكن واسرحكن سراحا جميلاّ وان كنتن تردن الله ورسوله والدارالآخرة فان الله اعد للمحسنت منكن اجرا عظيما) (الاحزاب)٢٨ّ٢٩) اس کے بعد نبی ﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کو یہ آیت سنا کر انہیں اختیار دیا۔تاہم انہیں کہا کہ اپنے طور پر فیصلہ کرنے کےکی بجائے اپنے والدین سے مشورے کے بعد کوئی اقدام کرنا۔حضرت عائشہ نے کہا :یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں آپ کے بارے میں مشورہ کروں۔بلکہ میں اللہ اور اس کے رسول کو اختیار کرتی ہوں۔یہی بات دیگر ازواج مطہرات نے بھی کہی اور کسی نے بھی رسول اللہﷺ کو چھوڑ کردنیا کے عیش وآرام کو ترجیح نہیں دی ۔(صحیح بخاری تفسیر سورہ احزاب۔ماخوذ از تفسیراحسن البیان)