Book - حدیث 2200

كِتَابُ الطَّلَاقِ بَابُ نَسْخِ الْمُرَاجَعَةِ بَعْدَ التَّطْلِيقَاتِ الثَّلَاثِ صحیح حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي ابْنُ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ أَبَا الصَّهْبَاءِ، قَالَ لِابْنِ عَبَّاسٍ: أَتَعْلَمُ أَنَّمَا كَانَتِ الثَّلَاثُ تُجْعَلُ وَاحِدَةً عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِي بَكْرٍ، وَثَلَاثًا مِنْ إِمَارَةِ عُمَرَ؟ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: نَعَمْ.

ترجمہ Book - حدیث 2200

کتاب: طلاق کے احکام و مسائل باب: تین طلاقوں کے بعد بیوی سے رجوع کرنا ابن طاؤس اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ ابو الصہباء نے سیدنا ابن عباس ؓ سے کہا : کیا آپ جانتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے زمانے میں ، ابوبکر ؓ کے عہد اور عمر ؓ کی امارت کے ابتدائی تین سال تک تین طلاقوں کو ایک بنایا ( شمار ) کیا جاتا تھا ؟ تو ابن عباس ؓ نے کہا : ہاں ! ۔
تشریح : امت کے لیےحجت شرعیہ صرف اور صرف نبی ﷺ کا دور ہے۔جبکہ شریعت نازل ہوئی اور مکمل ہوگئی ۔اور امام مالک ؒ کا یہ قول قول فیصل ہے۔(لن يصلح آخر هذه الامة الا ما صلح به اولها) اس امت کا آخری دور اسی سے اصلاح پذیر ہوگا جس ذریعے سے اس کے اول کی اصلاح ہوئی تھی۔ 2۔اس حدیث سے واضح ہے کہ عہد رسالت عہد ابی بکر اور عہد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور میں ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق شمار کیا جاتاتھا۔اس لیے یہ مسلک صحیح ہے۔علاوہ ازیں عوام کی جہالت کا حل بھی یہی ہے؛وہ طلاق کے صحیح طریقے سے بے خبر ہونے کی وجہ سے بیک وقت تین طلاقیں دےدیتے ہیں( حالانکہ ایسا کرنا سخت منع ہے) پھر پچھتاتے ہیں ۔اس کا حل یہی ہے کہ اسے ایک طلاق شمار کیا جائے اور اسے رجوع کا حق دیا جائے ۔آج کل کے متعدد علمائے احناف نے بھی اس موقف کی تائید کی ہے۔جس کی تفصیل ایک مجلس کی تین طلاقیں نامی کتاب میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے ۔اسی طرح یہ مبحث عورتوں کے امتیازی مسائل وقوانین تالیف:حافظ صلاح الدین یوسف مطبوعہ دار السلام میں بھی ضروری حد تک موجود ہے۔ امت کے لیےحجت شرعیہ صرف اور صرف نبی ﷺ کا دور ہے۔جبکہ شریعت نازل ہوئی اور مکمل ہوگئی ۔اور امام مالک ؒ کا یہ قول قول فیصل ہے۔(لن يصلح آخر هذه الامة الا ما صلح به اولها) اس امت کا آخری دور اسی سے اصلاح پذیر ہوگا جس ذریعے سے اس کے اول کی اصلاح ہوئی تھی۔ 2۔اس حدیث سے واضح ہے کہ عہد رسالت عہد ابی بکر اور عہد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور میں ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق شمار کیا جاتاتھا۔اس لیے یہ مسلک صحیح ہے۔علاوہ ازیں عوام کی جہالت کا حل بھی یہی ہے؛وہ طلاق کے صحیح طریقے سے بے خبر ہونے کی وجہ سے بیک وقت تین طلاقیں دےدیتے ہیں( حالانکہ ایسا کرنا سخت منع ہے) پھر پچھتاتے ہیں ۔اس کا حل یہی ہے کہ اسے ایک طلاق شمار کیا جائے اور اسے رجوع کا حق دیا جائے ۔آج کل کے متعدد علمائے احناف نے بھی اس موقف کی تائید کی ہے۔جس کی تفصیل ایک مجلس کی تین طلاقیں نامی کتاب میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے ۔اسی طرح یہ مبحث عورتوں کے امتیازی مسائل وقوانین تالیف:حافظ صلاح الدین یوسف مطبوعہ دار السلام میں بھی ضروری حد تک موجود ہے۔