Book - حدیث 2196

كِتَابُ الطَّلَاقِ بَابُ نَسْخِ الْمُرَاجَعَةِ بَعْدَ التَّطْلِيقَاتِ الثَّلَاثِ حسن حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي بَعْضُ بَنِي أَبِي رَافِعٍ مَوْلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ عِكْرِمَةَ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: طَلَّقَ عَبْدُ يَزِيدَ أَبُو رُكَانَةَ وَإِخْوَتِهِ أُمَّ رُكَانَةَ، وَنَكَحَ امْرَأَةً مِنْ مُزَيْنَةَ، فَجَاءَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: مَا يُغْنِي عَنِّي إِلَّا كَمَا تُغْنِي هَذِهِ الشَّعْرَةُ -لِشَعْرَةٍ أَخَذَتْهَا مِنْ رَأْسِهَا-، فَفَرِّقْ بَيْنِي وَبَيْنَهُ، فَأَخَذَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَمِيَّةٌ، فَدَعَا بِرُكَانَةَ وَإِخْوَتِهِ، ثُمَّ قَالَ لَجُلَسَائِهِ: >أَتَرَوْنَ فُلَانًا يُشْبِهُ مِنْهُ كَذَا وَكَذَا مِنْ عَبْدِ يَزِيدَ، وَفُلَانًا يُشْبِهُ مِنْهُ كَذَا وَكَذَا؟<، قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَبْدِ يَزِيدَ: >طَلِّقْهَا<، فَفَعَلَ، ثُمَّ قَالَ: >رَاجِعِ امْرَأَتَكَ أُمَّ رُكَانَةَ وَإِخْوَتِهِ<، قَالَ: إِنِّي طَلَّقْتُهَا ثَلَاثًا يَا رَسُولَ اللَّهِ! قَالَ: >قَدْ عَلِمْتُ، رَاجِعْهَا<، وَتَلَا: {يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ}[الطلاق: 1]. قَالَ أَبو دَاود: وَحَدِيثُ نَافِعِ بْنِ عُجَيْرٍ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ بْنِ رُكَانَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ رُكَانَةَ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ الْبَتَّةَ، فَرَدَّهَا إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصَحُّ لِأَنَّ وَلَدَ الرَّجُلِ وَأَهْلَهُ أَعْلَمُ بِهِ، إِنَّ رُكَانَةَ إِنَّمَا طَلَّقَ امْرَأَتَهُ الْبَتَّةَ، فَجَعَلَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاحِدَةً.

ترجمہ Book - حدیث 2196

کتاب: طلاق کے احکام و مسائل باب: تین طلاقوں کے بعد بیوی سے رجوع کرنا سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہعبد یزید جو رکانہ اور اس کے بھائیوں کا والد تھا ۔ اس نے ام رکانہ کو طلاق دے دی اور قبیلہ مزینہ کی ایک عورت سے نکاح کر لیا ۔ پھر یہ ( مزنی عورت ) نبی کریم ﷺ کے پاس آئی اور کہا : یہ میرے کام کا نہیں ، جیسے یہ بال ، اور اس نے اپنے سر سے بال پکڑ کر اشارہ کیا ( یعنی نامرد ہے ) ، آپ ﷺ میرے اور اس کے درمیان علیحدگی کرا دیں ۔ اس پر نبی کریم ﷺ کو غصہ آیا اور پھر رکانہ اور اس کے بھائیوں کو بلوایا ، اور حاضرین سے کہا : ” کیا دیکھتے ہو کہ فلاں بچہ اس سے کس قدر مشابہ ہے ۔ “ یعنی عبد یزید کے ساتھ ” اور فلاں اس سے کتنا مشابہ ہے ۔ “ سب نے کہا کہ جی ہاں ( یعنی جب پہلے اس کی اولاد موجود ہے تو اس عورت کا دعوہ کس طرح صحیح ہو سکتا ہے ) تو نبی کریم ﷺ نے عبد یزید سے فرمایا ” اس کو طلاق دے دو ۔ “ چنانچہ اس نے ( طلاق ) دے دی ۔ اور فرمایا ” اپنی ( پہلی ) بیوی سے جو رکانہ اور اس کے بھائیوں کی ماں ہے ، رجوع کر لو ۔ “ وہ کہنے لگا : اے اللہ کے رسول ! میں نے اسے تین طلاقیں دی ہیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ” مجھے معلوم ہے ، اس لے رجوع کر لو ۔ “ اور یہ آیت تلاوت فرمائی «يأيها النبي إذا طلقتم النساء فطلقوهن لعدتهن» ” اے نبی ! جب تم عورتوں کو طلاق دینا چاہو تو عدت کے وقت طلاق دیا کرو ۔ “ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں کہ نافع بن عجیر اور عبداللہ بن علی بن یزید بن رکانہ کی روایت ہے کہ رکانہ نے اپنی بیوی کو طلاق بتہ دی تھی تو نبی کریم ﷺ نے اس کی بیوی کو اس پر لوٹا دیا تھا ، یہ روایت زیادہ صحیح ہے ، کیونکہ یہ اس آدمی کی اولاد ہیں اور گھر والے اس کے متعلق زیادہ باخبر ہو سکتے ہیں ، یعنی رکانہ نے اپنی بیوی کو طلاق بتہ دی اور رسول اللہ ﷺ نے اس کو ایک بنا دیا ۔
تشریح : 1۔ یہ حدیث ضعیف ہے۔تاہم بعض محقیقین کے نزدیک یہ حسن درجہ کی ہے۔(اس کی بحث کے لیے دیکھے ارواء الغلیل 1447اوما قبلہ) اور محولہ احادیث آگے آرہی ہیں۔2208۔2206) 2۔طلاق بتہ: یعنی ایسی طلاق جس میں رجوع کا حق کٹ جائے۔بت يبت بتاً یعنی کاٹ دینا ؛ٹکرے ٹکرے کردینا۔ 3۔عہد رسالت میں طلاق بتہ کا لفظ ایک ہی مرتبہ تین طلاقیں دینے کے مفہوم میں استعمال ہوتا تھا۔اعتبار سے بیک وقت تین طلاقیں یا طلاق بتہ دونوں کا مطلب ایک ہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس حدیث میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس( طلاق بتہ )کو ایک بنادیا ۔ورنہ بعد میں طلاق بتہ کا جو مفہوم رائج ہوا اس کی رو سے تو اسے کسی صورت بہی ایک طلاق نہیں بنایا جاسکتا تھا۔ 1۔ یہ حدیث ضعیف ہے۔تاہم بعض محقیقین کے نزدیک یہ حسن درجہ کی ہے۔(اس کی بحث کے لیے دیکھے ارواء الغلیل 1447اوما قبلہ) اور محولہ احادیث آگے آرہی ہیں۔2208۔2206) 2۔طلاق بتہ: یعنی ایسی طلاق جس میں رجوع کا حق کٹ جائے۔بت يبت بتاً یعنی کاٹ دینا ؛ٹکرے ٹکرے کردینا۔ 3۔عہد رسالت میں طلاق بتہ کا لفظ ایک ہی مرتبہ تین طلاقیں دینے کے مفہوم میں استعمال ہوتا تھا۔اعتبار سے بیک وقت تین طلاقیں یا طلاق بتہ دونوں کا مطلب ایک ہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس حدیث میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس( طلاق بتہ )کو ایک بنادیا ۔ورنہ بعد میں طلاق بتہ کا جو مفہوم رائج ہوا اس کی رو سے تو اسے کسی صورت بہی ایک طلاق نہیں بنایا جاسکتا تھا۔