Book - حدیث 2185

كِتَابُ الطَّلَاقِ بَابٌ فِي طَلَاقِ السُّنَّةِ صحیح حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَيْمَنَ -مَوْلَى عُرْوَةَ-، يَسْأَلُ ابْنَ عُمَرَ، وَأَبُو الزُّبَيْرِ يَسْمَعُ، قَالَ: كَيْفَ تَرَى فِي رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ حَائِضًا؟ قَالَ: طَلَّقَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَ عُمَرُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَرَدَّهَا عَلَيَّ، وَلَمْ يَرَهَا شَيْئًا، وَقَالَ: >إِذَا طَهُرَتْ فَلْيُطَلِّقْ أَوْ لِيُمْسِكْ<، قَالَ ابْنُ عُمَرَ: وَقَرَأَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: {يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ}[الطلاق: 1], فِي قُبُلِ عِدَّتِهِنَّ. قَالَ أَبو دَاود: رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ يُونُسُ بْنُ جُبَيْرٍ وَأَنَسُ بْنُ سِيرِينَ وَسَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ وَزَيْدُ ابْنُ أَسْلَمَ وَأَبُو الزُّبَيْرِ وَمَنْصُورٌ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ مَعْنَاهُمْ كُلُّهُمْ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَهُ أَنْ يُرَاجِعَهَا حَتَّى تَطْهُرَ ثُمَّ إِنْ شَاءَ طَلَّقَ وَإِنْ شَاءَ أَمْسَكَ وَكَذَلِكَ رَوَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ سَالِمٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ وَأَمَّا رِوَايَةُ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ وَنَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَهُ أَنْ يُرَاجِعَهَا حَتَّى تَطْهُرَ ثُمَّ تَحِيضَ ثُمَّ تَطْهُرَ ثُمَّ إِنْ شَاءَ طَلَّقَ وَإِنْ شَاءَ أَمْسَكَ وَرُوِيَ، عَنْ عَطَاءٍ الْخُرَاسَانِيِّ عَنِ الْحَسَنِ عَنِ ابْنِ عُمَرَ نَحْوَ رِوَايَةِ نَافِعٍ وَالزُّهْرِيِّ وَالْأَحَادِيثُ كُلُّهَا عَلَى خِلَافِ مَا قَالَ أَبُو الزُّبَيْرِ.

ترجمہ Book - حدیث 2185

کتاب: طلاق کے احکام و مسائل باب: طلاق کا سنت طریقہ کیا ہے ؟ عبدالرحمٰن بن ایمن مولیٰ عروہ نے سیدنا ابن عمر ؓ سے سوال کیا اور ابوالزبیر سن رہے تھے ، کہا کہ آپ کا اس شخص کے بارے میں کیا خیال ہے جس نے اپنی بیوی کو حیض کے دنوں میں طلاق دی ہو ؟ انہوں نے کہا کہ عبداللہ بن عمر ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں اپنی بیوی کو حیض کے دنوں میں طلاق دے دی تھی ۔ تو عمر ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے کہا کہ عبداللہ بن عمر نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہے حالانکہ وہ حیض سے ہے ۔ تو عبداللہ نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے اس بیوی کو مجھ پر لوٹا دیا اور اسے کچھ نہ سمجھا ۔ اور فرمایا ” جب یہ پاک ہو جائے تو پھر طلاق دے یا روک لے ۔ “ ابن عمر ؓ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ( اس طرح ) پڑھا «يا أيها النبي إذا طلقتم النساء فطلقوهن في قبل عدتهن» ” اے نبی ! جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دینا چاہو تو انہیں ان کی عدت کے شروع میں طلاق دو ۔ “ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ اس روایت کو یونس بن جبیر ، انس بن سیرین ، سعید بن جبیر ، زید بن اسلم ، ابوالزبیر اور منصور بواسطہ ابووائل نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے ۔ اور ان سب کی روایات کا مفہوم ایک ہی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اسے حکم دیا کہ رجوع کر لو حتیٰ کہ وہ پاک ہو جائے ، پھر چاہو تو طلاق دے دو چاہو تو روک لو ۔ امام ابوداؤد ؓ نے کہا : ایسے ہی محمد بن عبدالرحمٰن نے بواسطہ سالم ، ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے ۔ لیکن زہری ( بواسطہ سالم ) اور نافع کی روایات جو ابن عمر ؓ سے ہیں ان میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ان کو رجوع کرنے کا حکم دیا حتیٰ کہ پاک ہو جائے ، پھر حیض آئے پھر پاک ہو ، پھر چاہے تو طلاق دیدے یا رکھ لے ۔ امام ابوداؤد ؓ نے کہا : عطاء خراسانی سے بھی بواسطہ «الحسن ، عن ابن عمر» اسی طرح روایت کی گئی ہے جیسے کہ نافع اور زہری نے روایت کی ہے ۔ اور یہ سب روایات ابوالزبیر کے بیان کے خلاف ہیں ۔
تشریح : 1۔ایام حیض کی طلاق سنت کے صریح خلاف ہے لیکن اگر کوئی دےدے تو اس کے واقع ہونے یانہ ہونےمیں متقدمین ومتاخرین میں ود رائیں رہی ہیں اور دونوں ہی طرف اجلہ علماء فقہاء اور محدثین کی جماعتیں ہیں۔رضي الله عنهم وارضاهم۔ متاخرین میں بالخصوص امام ابن تیمیہ اور ان کے تلمیذ رشید امام ابن قیم ؒ نہایت شدت سے اس طلاق کے باطل ہونے کے قائل ہیں جبکہ جمہور اس کے وقوع کے قائل ہیں۔امام بخاریؒ نے الجامع الصحیح میں باب قائم کیا ہے(اذا طلقتم الحائض تعتد بذلك الطلاق) جب حائضہ کو طلاق دےدی جائے تو اس کی وہ طلاق شمار ہوگی اس موضوع میں لمبی بحثیں ہیںاور ان کا محور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی طلاق کا واقعہ ہے۔وہ کہتے ہیں حسبت علي بتطليقةٍ( صحيح بخاري الطلاق حديث:٥٢٥٣) یہ مجھ پر ایک طلاق شمار کی گئی تھی۔ اور ایک دوسرا جملہ جو ہماری اس روایت میں ہے:( ولم يرها شيئا) اور اسے کچھ نہ سمجھایا کچھ شمار نہ کیا۔ لیکن یہ جملہ عدم شمار کے لئے صریح نص نہیں ہے۔جیسے کہ امام شافعی یادیگر محدثین وفقہا نے اس کو محتمل قرار دیا ہے یعنی اس کا مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ ﷺنے اس عمل کو درست اور صحیح نہ سمجھا۔ یا رجوع سے مانع نہ سمجھا وغیرہ۔محدث عصر علامہ البانی ؒ نے اس موضوع کی مختلف احادیث کے اسانید ومتون میں تقابل میں کرتے ہوئے نتیجہ یہ نکالا ہےکہ ایام حیض کی طلاق واقع ہوجاتی ہے گو اس کے خلاف سنت ہونے میں بھی کوئی شبہ نہیں ہے۔ 2۔جس حیض میں طلاق دی اور پھر رجوع کرلیا اب اس سے متصل مطہر میں طلاق دے یا اس کے بعد والے طہر میں؟ امام ابوداود ؒ نے اس حدیث کے کئی متابعات وشواہد پیش رکے یہ ثابت کیا ہےکہ متصل طہر میں طلاق دی جاسکتی ہے یعنی قبل از مباشرت ۔مگر امام نافع اور زہری کی روایت میں ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کو دوسرے طہر میں طلاق یا امساک کا حکم دیا گیا تھا۔اور یہ زیادت ثقہ ہے جو کہ پہلی صورت کے منافی نہیں اس لیے قابل قبول ہے۔اور اس کی تطویل کی کئی حکمتیں تھیں: (الف) معلوم ہوجائے کہ یہ رجوع محض دوسری طلاق کی خاطر نہ تھا۔ (ب)عورت کے لیے واضح ہوجائے کہ اس کو کس کیفیت میں طلاق ہوئی ہے۔طہر میں یا حمل میں۔ (ج) اگر حمل نمایاں ہوجائےتو شاید شوہر طلاق دینے میں متامل رہے۔ 5۔اور اس تطویلمسے یہ بہی ممکن ہے کہ ذہنوں میں پیدا ہونے والینا ہمواری ہم آہنگی میں بدل جائےاور شوہر اسے باقاعدہ بیوی بنالے۔ 3۔(والاحاديث كلها علي خلاف ماقابل ابوالزبير ) اور تمام روایاتابوالزبیر کے بیان کے خلاف ہیں صاحب عون ؒ نے اس سے مراد (ولم يرها شيئا ) کا جملہ ہے یعنی یہ جملہ روایت کرنے میں ابوالزبیر منفرد ہیں۔ 1۔ایام حیض کی طلاق سنت کے صریح خلاف ہے لیکن اگر کوئی دےدے تو اس کے واقع ہونے یانہ ہونےمیں متقدمین ومتاخرین میں ود رائیں رہی ہیں اور دونوں ہی طرف اجلہ علماء فقہاء اور محدثین کی جماعتیں ہیں۔رضي الله عنهم وارضاهم۔ متاخرین میں بالخصوص امام ابن تیمیہ اور ان کے تلمیذ رشید امام ابن قیم ؒ نہایت شدت سے اس طلاق کے باطل ہونے کے قائل ہیں جبکہ جمہور اس کے وقوع کے قائل ہیں۔امام بخاریؒ نے الجامع الصحیح میں باب قائم کیا ہے(اذا طلقتم الحائض تعتد بذلك الطلاق) جب حائضہ کو طلاق دےدی جائے تو اس کی وہ طلاق شمار ہوگی اس موضوع میں لمبی بحثیں ہیںاور ان کا محور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی طلاق کا واقعہ ہے۔وہ کہتے ہیں حسبت علي بتطليقةٍ( صحيح بخاري الطلاق حديث:٥٢٥٣) یہ مجھ پر ایک طلاق شمار کی گئی تھی۔ اور ایک دوسرا جملہ جو ہماری اس روایت میں ہے:( ولم يرها شيئا) اور اسے کچھ نہ سمجھایا کچھ شمار نہ کیا۔ لیکن یہ جملہ عدم شمار کے لئے صریح نص نہیں ہے۔جیسے کہ امام شافعی یادیگر محدثین وفقہا نے اس کو محتمل قرار دیا ہے یعنی اس کا مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ ﷺنے اس عمل کو درست اور صحیح نہ سمجھا۔ یا رجوع سے مانع نہ سمجھا وغیرہ۔محدث عصر علامہ البانی ؒ نے اس موضوع کی مختلف احادیث کے اسانید ومتون میں تقابل میں کرتے ہوئے نتیجہ یہ نکالا ہےکہ ایام حیض کی طلاق واقع ہوجاتی ہے گو اس کے خلاف سنت ہونے میں بھی کوئی شبہ نہیں ہے۔ 2۔جس حیض میں طلاق دی اور پھر رجوع کرلیا اب اس سے متصل مطہر میں طلاق دے یا اس کے بعد والے طہر میں؟ امام ابوداود ؒ نے اس حدیث کے کئی متابعات وشواہد پیش رکے یہ ثابت کیا ہےکہ متصل طہر میں طلاق دی جاسکتی ہے یعنی قبل از مباشرت ۔مگر امام نافع اور زہری کی روایت میں ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کو دوسرے طہر میں طلاق یا امساک کا حکم دیا گیا تھا۔اور یہ زیادت ثقہ ہے جو کہ پہلی صورت کے منافی نہیں اس لیے قابل قبول ہے۔اور اس کی تطویل کی کئی حکمتیں تھیں: (الف) معلوم ہوجائے کہ یہ رجوع محض دوسری طلاق کی خاطر نہ تھا۔ (ب)عورت کے لیے واضح ہوجائے کہ اس کو کس کیفیت میں طلاق ہوئی ہے۔طہر میں یا حمل میں۔ (ج) اگر حمل نمایاں ہوجائےتو شاید شوہر طلاق دینے میں متامل رہے۔ 5۔اور اس تطویلمسے یہ بہی ممکن ہے کہ ذہنوں میں پیدا ہونے والینا ہمواری ہم آہنگی میں بدل جائےاور شوہر اسے باقاعدہ بیوی بنالے۔ 3۔(والاحاديث كلها علي خلاف ماقابل ابوالزبير ) اور تمام روایاتابوالزبیر کے بیان کے خلاف ہیں صاحب عون ؒ نے اس سے مراد (ولم يرها شيئا ) کا جملہ ہے یعنی یہ جملہ روایت کرنے میں ابوالزبیر منفرد ہیں۔