Book - حدیث 2183

كِتَابُ الطَّلَاقِ بَابٌ فِي طَلَاقِ السُّنَّةِ صحیح حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ أَيُّوبَ عَنِ ابْنِ سِيرِينَ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ جُبَيْرٍ، أَنَّهُ سَأَلَ ابْنَ عُمَرَ، فَقَالَ: كَمْ طَلَّقْتَ امْرَأَتَكَ؟ فَقَالَ: وَاحِدَةً.

ترجمہ Book - حدیث 2183

کتاب: طلاق کے احکام و مسائل باب: طلاق کا سنت طریقہ کیا ہے ؟ یونس بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عمر ؓ سے پوچھا تھا کہ آپ نے اپنی بیوی کو کتنی طلاقیں دی تھیں ؟ انہوں نے کہا : ایک ۔
تشریح : 1۔ یہ احادیث سورۃالطلاق کی پہلی آیت کی تفسیر ہیں۔اللہ تعالی کا ارشاد :(فطلقوهن لعدتهن) (الطلاق:١) انھیں ان کی عدت کے موقع پر طلاق دو یعنی اس طہر کے ایام میں جن کی مباشرت نہ کی گئی ہو ۔ 2۔ایام حیض میں طلاق دینا خلاف سنت اوربدعت ہے۔تاہم اگر کوئی ان ایام میں طلاق دےگا تو وہ واقع ہوجائے گی۔ 3۔ایسی صورت میں صاحب طلاق کو رجوع کا حکم دیا جائے گا (تاہم اگر کوئی ان ایام میں طلاق دےگا تو وہ واقع ہوجائے گی۔ 3۔ایسی صورت میں صاحب طلاق کو رجوع کا حکم دیا جائے گا ( تاہم وہ ایک طلاق شمار ہوگی)اور رجوع کا حق صرف شوہر کو حاصل ہے ولی کو نہیں اور یہ رجوع واجب ہے 4۔حمل کے ایام میں بھی طلاق ہوسکتی ہے۔ 5۔اور طلاق ایک ہی دینی چاہیے ۔اور اس کی آخری روایت میں جواب ہےاس روایت کا جودارقطنی میں آئی ہےکہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے تین طلاقیں دی تھیں مگر وہ بالکل ضعیف ہے۔صحیح یہی ہے کہ انہوں نے ایک طلاق دی تھی ۔ 6۔اور سب کے نزدیک طلاق کا صحیح طریقہ بھی یہی ہے کہ ایک ہی طلاق دی جائے نہ کہ بیک وقت تین طلاقیں۔بہ یک وقت تین طلاقیں دینا سب کے نزدیک سخت ناپسندیدہ اور ناجائز ہے نبی ﷺ نے بھی اس پر سخت ناراضی اور برہمی کا اظہار فرمایا ہے۔اگر طلاق دینے والے یہ طریقہ اختیار کرلیں تو اس مسئلے میں سرے سے اختلاف ہی پیدا ہو نہ حلالہ مروجہ جیسے لعنتی فعل کے اختیار کرنے ہی کی ضرورت پیش آئے۔کیونکہ ایک طلاق کی صورت میں سب کے نزدیک عدت کے اندر رجوع کرنااور عدت گزرنے کے بعد ان کے مابین دوبارہ نکاح کرنا جائز ہے۔دوسری مرتبہ طلاق میں بھی اسی طرح دونوں باتیں جائز ہیں۔اختلاف اس وقت پیدا ہوتا ہے جب طلاق دینے کا غیر شرعی طریقہ اختیار کیا جاتا ہےادر بہیک وقت تین طلاقیں دےدی جاتی ہیں۔اس صورت میں اہلحدیث کیتے ہیں کہ یہ ایک طلاق رجعی ہے کیونکہ ان کو بہ یک وقت نافذ کردینے میںاللہ کی وہ حکمت اورمنشاء فوت ہوجاتی ہےجو اللہ نے(الطلاق مرتان )میں بیان فرمائیہے۔اور دوسرے حضرات تین ہی باور کرکے ہمیشہ کے لئے جدائی کا یا پھر حلالہ مروجہ ملعونہ کا فتوی جاری کردیتے ہیں۔اس لیے اسلامی نظریاتی کونسل کی یہ سفارش بڑی اہم ہےکہ بہ یک وقت تین طلاقوں کو قابل تعزیر جرم قرار دیا جائے۔کاش اس پر عمل کی کوئی صورت پیدا ہو۔فی الحال کم ازکم یہ صورت اختیار کی جاسکتی ہے کہ تحریری طلاق میں خاوند اور طلاق نویس (وکیل وغیرہ)کو مجرم قرار دیا جائے اور اس کی کوئی تعزیری سزا بھی تجویز کی جائے ۔یہ ایک قابل عمل صورت ہے اس کے اختیار کرنے سے امید ہے کہ آہستہ آہستہ لوگ گلط طریقہ طلاق سے باز آجائیں گے۔اللہ تعالی کسی حکومت کو اس اہم مسئلے کو اس طریقے سے حل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔ 1۔ یہ احادیث سورۃالطلاق کی پہلی آیت کی تفسیر ہیں۔اللہ تعالی کا ارشاد :(فطلقوهن لعدتهن) (الطلاق:١) انھیں ان کی عدت کے موقع پر طلاق دو یعنی اس طہر کے ایام میں جن کی مباشرت نہ کی گئی ہو ۔ 2۔ایام حیض میں طلاق دینا خلاف سنت اوربدعت ہے۔تاہم اگر کوئی ان ایام میں طلاق دےگا تو وہ واقع ہوجائے گی۔ 3۔ایسی صورت میں صاحب طلاق کو رجوع کا حکم دیا جائے گا (تاہم اگر کوئی ان ایام میں طلاق دےگا تو وہ واقع ہوجائے گی۔ 3۔ایسی صورت میں صاحب طلاق کو رجوع کا حکم دیا جائے گا ( تاہم وہ ایک طلاق شمار ہوگی)اور رجوع کا حق صرف شوہر کو حاصل ہے ولی کو نہیں اور یہ رجوع واجب ہے 4۔حمل کے ایام میں بھی طلاق ہوسکتی ہے۔ 5۔اور طلاق ایک ہی دینی چاہیے ۔اور اس کی آخری روایت میں جواب ہےاس روایت کا جودارقطنی میں آئی ہےکہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے تین طلاقیں دی تھیں مگر وہ بالکل ضعیف ہے۔صحیح یہی ہے کہ انہوں نے ایک طلاق دی تھی ۔ 6۔اور سب کے نزدیک طلاق کا صحیح طریقہ بھی یہی ہے کہ ایک ہی طلاق دی جائے نہ کہ بیک وقت تین طلاقیں۔بہ یک وقت تین طلاقیں دینا سب کے نزدیک سخت ناپسندیدہ اور ناجائز ہے نبی ﷺ نے بھی اس پر سخت ناراضی اور برہمی کا اظہار فرمایا ہے۔اگر طلاق دینے والے یہ طریقہ اختیار کرلیں تو اس مسئلے میں سرے سے اختلاف ہی پیدا ہو نہ حلالہ مروجہ جیسے لعنتی فعل کے اختیار کرنے ہی کی ضرورت پیش آئے۔کیونکہ ایک طلاق کی صورت میں سب کے نزدیک عدت کے اندر رجوع کرنااور عدت گزرنے کے بعد ان کے مابین دوبارہ نکاح کرنا جائز ہے۔دوسری مرتبہ طلاق میں بھی اسی طرح دونوں باتیں جائز ہیں۔اختلاف اس وقت پیدا ہوتا ہے جب طلاق دینے کا غیر شرعی طریقہ اختیار کیا جاتا ہےادر بہیک وقت تین طلاقیں دےدی جاتی ہیں۔اس صورت میں اہلحدیث کیتے ہیں کہ یہ ایک طلاق رجعی ہے کیونکہ ان کو بہ یک وقت نافذ کردینے میںاللہ کی وہ حکمت اورمنشاء فوت ہوجاتی ہےجو اللہ نے(الطلاق مرتان )میں بیان فرمائیہے۔اور دوسرے حضرات تین ہی باور کرکے ہمیشہ کے لئے جدائی کا یا پھر حلالہ مروجہ ملعونہ کا فتوی جاری کردیتے ہیں۔اس لیے اسلامی نظریاتی کونسل کی یہ سفارش بڑی اہم ہےکہ بہ یک وقت تین طلاقوں کو قابل تعزیر جرم قرار دیا جائے۔کاش اس پر عمل کی کوئی صورت پیدا ہو۔فی الحال کم ازکم یہ صورت اختیار کی جاسکتی ہے کہ تحریری طلاق میں خاوند اور طلاق نویس (وکیل وغیرہ)کو مجرم قرار دیا جائے اور اس کی کوئی تعزیری سزا بھی تجویز کی جائے ۔یہ ایک قابل عمل صورت ہے اس کے اختیار کرنے سے امید ہے کہ آہستہ آہستہ لوگ گلط طریقہ طلاق سے باز آجائیں گے۔اللہ تعالی کسی حکومت کو اس اہم مسئلے کو اس طریقے سے حل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔