كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ مَا جَاءَ فِي الْعَزْلِ صحیح حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ عَنِ ابْنِ مُحَيْرِيزٍ، قَالَ: دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ فَرَأَيْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ، فَجَلَسْتُ إِلَيْهِ، فَسَأَلْتُهُ عَنِ الْعَزْلِ؟ فَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ بَنِي الْمُصْطَلِقِ، فَأَصَبْنَا سَبْيًا مِنْ سَبْيِ الْعَرَبِ، فَاشْتَهَيْنَا النِّسَاءَ، وَاشْتَدَّتْ عَلَيْنَا الْعُزْبَةُ، وَأَحْبَبْنَا الْفِدَاءَ، فَأَرَدْنَا أَنْ نَعْزِلَ، ثُمَّ قُلْنَا: نَعْزِلُ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَظْهُرِنَا، قَبْلَ أَنْ نَسْأَلَهُ عَنْ ذَلِكَ! فَسَأَلْنَاهُ، عَنْ ذَلِكَ؟ فَقَالَ: >مَا عَلَيْكُمْ أَنْ لَا تَفْعَلُوا؟ مَا مِنْ نَسَمَةٍ كَائِنَةٍ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ, إِلَّا وَهِيَ كَائِنَةٌ.
کتاب: نکاح کے احکام و مسائل
باب: عزل کا بیان
ابن محیریز کہتے ہیں کہ میں مسجد میں داخل ہوا اور سیدنا ابو سعید خدری ؓ کو دیکھا تو ان کے پاس بیٹھ گیا ۔ میں نے ان سے عزل کے بارے میں پوچھا ، تو انہوں نے کہا : ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوہ بنی مصطلق میں گئے اور ہمیں اس غزوے میں لونڈیاں ہاتھ آئیں ، عرب عورتیں ، ہمیں عورتوں کی بہت خواہش تھی ، اور عورتوں کے بغیر ( مجرد ) رہنا ہمیں بہت مشکل ہو رہا تھا ۔ اور ہم ان لونڈیوں کو بیچنا بھی چاہتے تھے ( اس لیے چاہتے تھے کہ حاملہ نہ ہوں ) تو ہم نے عزل کا ارادہ کیا ۔ پھر ہم نے سوچا کہ رسول اللہ ﷺ ہم میں موجود ہیں ، ان سے پوچھے بغیر ہم یہ کام کریں ( کسی طرح جائز نہیں ۔) چنانچہ ہم نے آپ سے اس بارے میں پوچھا ، تو آپ نے فرمایا ” اگر نہ کرو تو تم پر کوئی حرج نہیں ، قیامت تک جو جان بھی پیدا ہونے والی ہے ، وہ پیدا ہو کر رہے گی ۔ “
تشریح :
1۔ عزل ایک ناپسندیدہ عمل ہے مگر مباح ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔نبیﷺ کا فرمان قابل توجہ ہے۔آپ نے فرمایا: اگر نہ کرو تو تم پر کوئی حرج نہیں ۔ یہ نہیں فرمایا کہ اگر کرو تو تم پر کوئی حرج نہیں۔یعنی کراہت کے ساتھ اس کا جواز باقی رکھا تاکہ ناگزیر قسم کی صورت میں اسے اختیار کرنے کی گنجائش باقی رہے۔عزل کی یہ صورت عہد رسالت و عہد صحابہ میں رائج تھی جسے کراہت کے ساتھ جائز رکھاگیا۔لیکن آج کل اس کے متبادل کئی صورتیں نکل آئی ہیں۔جیسے ساتھی (کنڈومز) کا استعمال
2۔بعض دوائیں یا انجکشن جن کے استعمال سے کچھ مدت تک حمل قرار نہیں پاتا
3۔عورتوں کے رحم کا آپریشن جس کے بعد عورت حاملہ نہیں ہوتی۔
4۔نس بندی جس میں مرد کے آلہ تناسل کا آپریشن کرکے اسے بارآور کرنے کی صلاحیت سے محروم کردیا جاتا ہے۔
پہلی دو صورتیں عارضی ہیں(عزل حمل سے بچنے کا ایک طریقہ ہے) اس لیے یہ دونوں طریقے حسب ضرورت جائز ہوں گے۔جیسے عورت کی صحت کمزور ہو اور مزید ولادت اس کی جان کے لیے خطرے کا باعث ہو ۔اس قسم کی صورت میں دونوں طریقوں میں سے کوئی سا طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہے۔لیکن اس کا مقصد عورت کے حسن وجمال کی حفاظت ہو یا بچوں کو کھلانے پلانے اور ان کی تعلیم و تربیت کا خوف ہوتو اس قسم کے مقاصد کے لیے ان دونوں عارضی طریقوں کا بھی اختیار کرنا ناجائز ہوگا۔
اور تیسرا اور چوتھا طریقہ جس میں مستقل طور پر حاملہ ہونے یا حاملہ کرنے کا سد باب کردیا جاتا ہے یکسر ھرام ناجائز اور اللہ کی تخلیق کو بدلنا ہے۔اس کا جواز کسی بھی صورت میں نہیں ہے۔
1۔ عزل ایک ناپسندیدہ عمل ہے مگر مباح ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔نبیﷺ کا فرمان قابل توجہ ہے۔آپ نے فرمایا: اگر نہ کرو تو تم پر کوئی حرج نہیں ۔ یہ نہیں فرمایا کہ اگر کرو تو تم پر کوئی حرج نہیں۔یعنی کراہت کے ساتھ اس کا جواز باقی رکھا تاکہ ناگزیر قسم کی صورت میں اسے اختیار کرنے کی گنجائش باقی رہے۔عزل کی یہ صورت عہد رسالت و عہد صحابہ میں رائج تھی جسے کراہت کے ساتھ جائز رکھاگیا۔لیکن آج کل اس کے متبادل کئی صورتیں نکل آئی ہیں۔جیسے ساتھی (کنڈومز) کا استعمال
2۔بعض دوائیں یا انجکشن جن کے استعمال سے کچھ مدت تک حمل قرار نہیں پاتا
3۔عورتوں کے رحم کا آپریشن جس کے بعد عورت حاملہ نہیں ہوتی۔
4۔نس بندی جس میں مرد کے آلہ تناسل کا آپریشن کرکے اسے بارآور کرنے کی صلاحیت سے محروم کردیا جاتا ہے۔
پہلی دو صورتیں عارضی ہیں(عزل حمل سے بچنے کا ایک طریقہ ہے) اس لیے یہ دونوں طریقے حسب ضرورت جائز ہوں گے۔جیسے عورت کی صحت کمزور ہو اور مزید ولادت اس کی جان کے لیے خطرے کا باعث ہو ۔اس قسم کی صورت میں دونوں طریقوں میں سے کوئی سا طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہے۔لیکن اس کا مقصد عورت کے حسن وجمال کی حفاظت ہو یا بچوں کو کھلانے پلانے اور ان کی تعلیم و تربیت کا خوف ہوتو اس قسم کے مقاصد کے لیے ان دونوں عارضی طریقوں کا بھی اختیار کرنا ناجائز ہوگا۔
اور تیسرا اور چوتھا طریقہ جس میں مستقل طور پر حاملہ ہونے یا حاملہ کرنے کا سد باب کردیا جاتا ہے یکسر ھرام ناجائز اور اللہ کی تخلیق کو بدلنا ہے۔اس کا جواز کسی بھی صورت میں نہیں ہے۔