Book - حدیث 2164

كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ فِي جَامِعِ النِّكَاحِ حسن حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ يَحْيَى أَبُو الْأَصْبَغِ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ أَبَانَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: إِنَّ ابْنَ عُمَرَ -وَاللَّهُ يَغْفِرُ لَهُ- أَوْهَمَ إِنَّمَا كَانَ هَذَا الْحَيُّ مِنَ الْأَنْصَارِ، وَهُمْ أَهْلُ وَثَنٍ مَعَ هَذَا الْحَيِّ مِنْ يَهُودَ، وَهُمْ أَهْلُ كِتَابٍ، وَكَانُوا يَرَوْنَ لَهُمْ فَضْلًا عَلَيْهِمْ فِي الْعِلْمِ، فَكَانُوا يَقْتَدُونَ بِكَثِيرٍ مِنْ فِعْلِهِمْ، وَكَانَ مِنْ أَمْرِ أَهْلِ الْكِتَابِ أَنْ لَا يَأْتُوا النِّسَاءَ إِلَّا عَلَى حَرْفٍ وَذَلِكَ أَسْتَرُ مَا تَكُونُ الْمَرْأَةُ، فَكَانَ هَذَا الْحَيُّ مِنَ الْأَنْصَارِ قَدْ أَخَذُوا بِذَلِكَ مِنْ فِعْلِهِمْ، وَكَانَ هَذَا الْحَيُّ مِنْ قُرَيْشٍ يَشْرَحُونَ النِّسَاءَ شَرْحًا مُنْكَرًا، وَيَتَلَذَّذُونَ مِنْهُنَّ مُقْبِلَاتٍ وَمُدْبِرَاتٍ وَمُسْتَلْقِيَاتٍ، فَلَمَّا قَدِمَ الْمُهَاجِرُونَ الْمَدِينَةَ, تَزَوَّجَ رَجُلٌ مِنْهُمُ امْرَأَةً مِنَ الْأَنْصَارِ، فَذَهَبَ يَصْنَعُ بِهَا ذَلِكَ، فَأَنْكَرَتْهُ عَلَيْهِ، وَقَالَتْ: إِنَّمَا كُنَّا نُؤْتَى عَلَى حَرْفٍ! فَاصْنَعْ ذَلِكَ، وَإِلَّا، فَاجْتَنِبْنِي، حَتَّى شَرِيَ أَمْرُهُمَا، فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: {نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ}[البقرة: 223], أَيْ: مُقْبِلَاتٍ وَمُدْبِرَاتٍ وَمُسْتَلْقِيَاتٍ -يَعْنِي بِذَلِكَ: مَوْضِعَ الْوَلَدِ-.

ترجمہ Book - حدیث 2164

کتاب: نکاح کے احکام و مسائل باب: نکاح کے متفرق مسائل سیدنا ابن عباس ؓ سے منقول ہے انہوں نے کہا کہ ابن عمر ؓ کی اللہ مغفرت فرمائے ۔ انہیں وہم ہوا ہے ۔ دراصل قبیلہ انصار بت پرست لوگ تھے ، اس یہودی قبیلے کے ساتھ رہتے تھے جو کہ اہل کتاب تھے ۔ اور انصار علم کی وجہ سے ان کی فضیلت کے معترف تھے اور اپنے اکثر کاموں میں ان کی پیروی کیا کرتے تھے ۔ اہل کتاب کا معاملہ یہ تھا کہ یہ لوگ اپنی بیویوں سے ایک ہی انداز میں چت لٹا کر ( یا پہلو کے بل سے ) مجامعت کیا کرتے تھے ۔ اس طرح عورت بہت زیادہ پردے میں رہتی ہے ۔ ان انصاریوں نے بھی ان جیسا یہ عمل اختیار کیا ہوا تھا ۔ لیکن قبیلہ قریش والے اپنی عورتوں کو بری طرح پھیلاتے تھے اور طرح طرح سے متلذذ ہوتے تھے ۔ آگے سے ، پیچھے سے اور چت لٹا کر ۔ جب مہاجرین مدینے میں آئے اور ان کے ایک آدمی نے انصار کی ایک عورت سے شادی کی تو اس کے ساتھ اپنے اسی انداز میں صحبت کرنے لگا تو عورت نے بہت برا جانا اور کہنے لگی ہم سے ایک ہی انداز میں ( چت لٹا کر یا پہلو کے بل سے ) صحبت کی جاتی تھی ، سو تم بھی اسی طرح کرو ورنہ مجھ سے الگ رہو حتیٰ کہ ان کا معاملہ بہت بڑھ گیا اور رسول اللہ ﷺ تک جا پہنچا ۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ نازل فرمایا «نساؤكم حرث لكم فأتوا حرثكم أنى شئتم» تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں ، تو اپنی کھیتی میں جس طرح سے جی چاہے آؤ ۔ “ آگے سے ، پیچھے سے یا چت لٹا کر ، لیکن جگہ وہی بچے والی ہو ۔
تشریح : 1:بیوی سے پاخانہ کی جگہ میں مباشرت کرنا حرا م اور لعنت کا کام ہے کیونکہ رسول ﷺ نے فرمایا وہ شخص ملعون ہے جو اپنی بیوی کی دبر میں مباشرت کرے ۔ اسی کی بابت ایک جگہ پر یوں فرمایا : اللہ تعالی اس شخص کی طرف نہیں دیکھے گا جو کسی مرد یا عورت کی دبر میں جنسی عمل کرے ۔ ان فرامین کی روشنی میں مر دکو اس قبیح عمل سے اجتناب کرنا چاہیے اور عورت کو چاہیے کہ اس منکر عظیم کے بارے میں اپنے شوہر کی بات نہ مانے اگر وہ ایسا کرنے کے لئے کہے تو انکار کردے ۔ 2 : شروع حدیث میں جو حضرت ابن عمررضی اللہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ وہ آیت مذکورہ تفسیر کی بابت کچھ اختلاف ہے ،گویہ یہ بات صحیح نہیں لیکن حضرت ابن عباس کو اسی طرح خبر دی گئی تھی ۔حالانکہ حضرت ابن عمررضی اللہ کے قائل نہیں تھے،جیسے کہ علامہ ابن قیم رضی اللہ نے اس کی وضاحت فرمادی ہے ۔(حواشی عون المعبود) 1:بیوی سے پاخانہ کی جگہ میں مباشرت کرنا حرا م اور لعنت کا کام ہے کیونکہ رسول ﷺ نے فرمایا وہ شخص ملعون ہے جو اپنی بیوی کی دبر میں مباشرت کرے ۔ اسی کی بابت ایک جگہ پر یوں فرمایا : اللہ تعالی اس شخص کی طرف نہیں دیکھے گا جو کسی مرد یا عورت کی دبر میں جنسی عمل کرے ۔ ان فرامین کی روشنی میں مر دکو اس قبیح عمل سے اجتناب کرنا چاہیے اور عورت کو چاہیے کہ اس منکر عظیم کے بارے میں اپنے شوہر کی بات نہ مانے اگر وہ ایسا کرنے کے لئے کہے تو انکار کردے ۔ 2 : شروع حدیث میں جو حضرت ابن عمررضی اللہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ وہ آیت مذکورہ تفسیر کی بابت کچھ اختلاف ہے ،گویہ یہ بات صحیح نہیں لیکن حضرت ابن عباس کو اسی طرح خبر دی گئی تھی ۔حالانکہ حضرت ابن عمررضی اللہ کے قائل نہیں تھے،جیسے کہ علامہ ابن قیم رضی اللہ نے اس کی وضاحت فرمادی ہے ۔(حواشی عون المعبود)