Book - حدیث 2151

كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ مَا يُؤْمَرُ بِهِ مِنْ غَضِّ الْبَصَرِ صحیح حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى امْرَأَةً، فَدَخَلَ عَلَى زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ، فَقَضَى حَاجَتَهُ مِنْهَا، ثُمَّ خَرَجَ إِلَى أَصْحَابِهِ، فَقَالَ لَهُمْ: >إِنَّ الْمَرْأَةَ تُقْبِلُ فِي صُورَةِ شَيْطَانٍ, فَمَنْ وَجَدَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا, فَلْيَأْتِ أَهْلَهُ, فَإِنَّهُ يُضْمِرُ مَا فِي نَفْسِهِ.

ترجمہ Book - حدیث 2151

کتاب: نکاح کے احکام و مسائل باب: نظر نیچی رکھنے کا حکم سیدنا جابر ؓ کی روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے کوئی عورت دیکھی پھر ( اپنے گھر ) سیدہ زینب بنت جحش ؓا کے ہاں آئے اور ان سے اپنی حاجت پوری کی ۔ پھر اپنے اصحاب کے پاس گئے اور ان سے فرمایا ” عورت شیطان کی صورت میں سامنے آتی ہے ، جو شخص اس طرح کی کوئی کیفیت محسوس کرے تو اسے چاہیئے کہ اپنی بیوی کے پاس چلا جائے ، بلاشبہ ( بیوی کے پاس جانا ) اس کے نفس میں آنے والے وسوسے اور خیال کو نکال دے گا ۔ “
تشریح : 1 : بعض قلیل الحیا ء لوگ اس صحیح حدیث کے الفاظ سے ترجمعہ میں یہ رنگ بھرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ نعوذبااللہ ،رسول ﷺ مغلوب الشہوت قسم کے انسان تھے اور کچھ دوسرے ہیں کہ احادیث کی حجیت کو مشکوک باور کراتے ہیں اور یہ دونوں ہی باتیں علم وذہانت کے منافی ہیں ۔ رسول ﷺتو اس قدر باحیا تھے کہ پردے میں بیٹھی ہوئی دو شیزہ کی حیا بھی آپ کی حیا کے سامنے ماند تھی ، ایسا تر جمعہ کرنے والے مقام رسالت سے آگاہ نہیں آپ نے اپنی حاجت یا ضرورت پوری کی کا ترجمعہ عربی زبان وادب میں سوائے مباشرت کے اور ہے ہی نہیں ؟آپ نے صحابہ کی مجلس میں جا کر ایک باقاعدہ کی بات بتائی کہ عورت مرد کے لئے شیطان کی طرح وسوسے پیدا کرتی اور فتنے کا باعث بنتی ہے ۔ اس کا بہترین علاج انسان کی اپنی بیوی ہے ۔ اس نصیحت کو پچھلے جملوں سے جوڑ کر ایک ایسا مفہوم پیدا کرنا جو ایک عام باوقار شخصیت کے لئے بھی زیب نہ دیتا ہو ۔ رسول ﷺکے لئے بیان کرنا از حد نا مناسب ہے ۔ 2 : عورت کو ایسی کسی صورت میں باہر نہیں نکلنا چاہیے کہ شیطان صفت کہلائی جانے لگے ۔ 3 : صنفی جذبات پورے کرنے کے لئے پاک اور حلال مقام انسان کا اپنا گھر ہے ۔ 4 : عورت کو بھی شوہرکا مطیع ہونا چاہیے تاکہ شوہر پاک اور چادر وصمت بے داغ رہے ۔ 1 : بعض قلیل الحیا ء لوگ اس صحیح حدیث کے الفاظ سے ترجمعہ میں یہ رنگ بھرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ نعوذبااللہ ،رسول ﷺ مغلوب الشہوت قسم کے انسان تھے اور کچھ دوسرے ہیں کہ احادیث کی حجیت کو مشکوک باور کراتے ہیں اور یہ دونوں ہی باتیں علم وذہانت کے منافی ہیں ۔ رسول ﷺتو اس قدر باحیا تھے کہ پردے میں بیٹھی ہوئی دو شیزہ کی حیا بھی آپ کی حیا کے سامنے ماند تھی ، ایسا تر جمعہ کرنے والے مقام رسالت سے آگاہ نہیں آپ نے اپنی حاجت یا ضرورت پوری کی کا ترجمعہ عربی زبان وادب میں سوائے مباشرت کے اور ہے ہی نہیں ؟آپ نے صحابہ کی مجلس میں جا کر ایک باقاعدہ کی بات بتائی کہ عورت مرد کے لئے شیطان کی طرح وسوسے پیدا کرتی اور فتنے کا باعث بنتی ہے ۔ اس کا بہترین علاج انسان کی اپنی بیوی ہے ۔ اس نصیحت کو پچھلے جملوں سے جوڑ کر ایک ایسا مفہوم پیدا کرنا جو ایک عام باوقار شخصیت کے لئے بھی زیب نہ دیتا ہو ۔ رسول ﷺکے لئے بیان کرنا از حد نا مناسب ہے ۔ 2 : عورت کو ایسی کسی صورت میں باہر نہیں نکلنا چاہیے کہ شیطان صفت کہلائی جانے لگے ۔ 3 : صنفی جذبات پورے کرنے کے لئے پاک اور حلال مقام انسان کا اپنا گھر ہے ۔ 4 : عورت کو بھی شوہرکا مطیع ہونا چاہیے تاکہ شوہر پاک اور چادر وصمت بے داغ رہے ۔