Book - حدیث 2113

كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ فِي التَّزْوِيجِ عَلَى الْعَمَلِ يَعْمَلُ ضعیف حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ، عَنْ مَكْحُولٍ نَحْوَ خَبَرِ سَهْلٍ, قَالَ: وَكَانَ مَكْحُولٌ يَقُولُ: لَيْسَ ذَلِكَ لِأَحَدٍ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

ترجمہ Book - حدیث 2113

کتاب: نکاح کے احکام و مسائل باب: کسی کام اور محنت کو حق مہر ٹھہرانا محمد بن راشد نے مکحول سے سیدنا سہل بن سعد ؓ کی روایت کی مانند بیان کیا ، مکحول کہا کرتے تھے کہ یہ عمل رسول اللہ ﷺ کے بعد کسی اور کے لیے روا نہیں ہے ۔
تشریح : 1 : پہلی حدیث (2111 ) میں اس محترمہ خاتون کا اپنے آپ کو رسول ﷺکے لئے بطور ہبہ پیش کرنا ایک عظیم ترین شرف حاصل کرنے کی کوشش تھی جو کامیاب نہ ہو سکی مگر رسول ﷺ از خواس کے لئے ولی بن گئے اور ایک صاحب قرآن سے اس کا نکاح کر دیا اور مسئلہ ہبہ صرف اور صرف رسول ﷺکے لئے محضوص ہے ،کسی اور کے لئے نہیں ۔ سورۃ احزاب میں ہے (وامراۃ مومنتہ ان وھبت نفسا اللنبی ان ارداالنبی ان یستنکحھا خالصۃ لگ من دون المومینین ) (الاحزاب: 50 ) اور ایمان دا ر عورت جو اپنا نفس نبی کو ہیبہ کر دے ،اس صورت میں کہ نبی بھی اس سے نکاح کرنا چاہے ،یہ خاص طور پر صرف آپ کے لئے ہے اور مومنوں کے لئے نہیں ۔ 2 : حق مہر مال کی صورت میں ہونا ہی اولی ہے ، کم سے کم مقدار بھی اس مقصد کو پورا کر دیتی ہے اور ایسی تمام روایات جو پانچ یا دس درہم وغیرہ کو متعین کرنے کے بارے میں آئی ہیں تا قابل حجت ہیں۔ 3 : اس میں یہ بھی ہے کہ ازحد فقیر کنگال کا بھی نکاح کیا جا سکتا ہے ۔ 4 : اور تعلیم کو بھی حق مہر بنایا جا سکتا ہے ،امام شافعی ،امام احمد ؒ اور ان کے اصحاب اسی کے قائل ہیں ،متحدہ ہندوستان میں تحریک جہاد کے مو سسین نے اس سنت کو زندہ کیا تھا ۔ مولانا ولایت علی ؒ نے جنہوں نے شاہ اسماعیل شہید ؒ کے بعد تحریک جہاد کی قیادت سنبھالی اور اس راہ میں بے مثال قربانی اور عزیمت کا نمونہ پیش کیا ،متحدہ ہند میں احیائے سنت کے سلسلے میں بھی بڑے سرگرم رہے ۔ نکاح بیوگان کے سلسلہ میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ ایک شخص عبد الغنی انگر نہسوی (جو زمرہ مساکین میں سے تھے )کا عقد ایک بیوہ عورت سے تعلم قرآن مہر قراردے کر کر دیا ۔ (ہندوستان کی پہلی اسلامی تحریک ) امام ابو حنیفہ اور امام مالک ؒ اس کے قائل نہیں ہیں ،جیسے کہ آخری اثر میں جنات مکحول ؒ سے منقول ہوا ہے مگر یہ قول مرجوع ہے ۔ 5 : کوئی خاتوناپنئ نکاح کے سلسلے میں جنبانی کرے تو کوئی عیب کی بات نہیں ہے ایسے ہی کوئی ولی اپنی زیر تولیت لڑکی کے لئے رشتے آنے کا انتظار کرنے کی بجائے از خو دکسی سے بات کرے تو یہ بھی عیب والی بات نہیں ۔ 1 : پہلی حدیث (2111 ) میں اس محترمہ خاتون کا اپنے آپ کو رسول ﷺکے لئے بطور ہبہ پیش کرنا ایک عظیم ترین شرف حاصل کرنے کی کوشش تھی جو کامیاب نہ ہو سکی مگر رسول ﷺ از خواس کے لئے ولی بن گئے اور ایک صاحب قرآن سے اس کا نکاح کر دیا اور مسئلہ ہبہ صرف اور صرف رسول ﷺکے لئے محضوص ہے ،کسی اور کے لئے نہیں ۔ سورۃ احزاب میں ہے (وامراۃ مومنتہ ان وھبت نفسا اللنبی ان ارداالنبی ان یستنکحھا خالصۃ لگ من دون المومینین ) (الاحزاب: 50 ) اور ایمان دا ر عورت جو اپنا نفس نبی کو ہیبہ کر دے ،اس صورت میں کہ نبی بھی اس سے نکاح کرنا چاہے ،یہ خاص طور پر صرف آپ کے لئے ہے اور مومنوں کے لئے نہیں ۔ 2 : حق مہر مال کی صورت میں ہونا ہی اولی ہے ، کم سے کم مقدار بھی اس مقصد کو پورا کر دیتی ہے اور ایسی تمام روایات جو پانچ یا دس درہم وغیرہ کو متعین کرنے کے بارے میں آئی ہیں تا قابل حجت ہیں۔ 3 : اس میں یہ بھی ہے کہ ازحد فقیر کنگال کا بھی نکاح کیا جا سکتا ہے ۔ 4 : اور تعلیم کو بھی حق مہر بنایا جا سکتا ہے ،امام شافعی ،امام احمد ؒ اور ان کے اصحاب اسی کے قائل ہیں ،متحدہ ہندوستان میں تحریک جہاد کے مو سسین نے اس سنت کو زندہ کیا تھا ۔ مولانا ولایت علی ؒ نے جنہوں نے شاہ اسماعیل شہید ؒ کے بعد تحریک جہاد کی قیادت سنبھالی اور اس راہ میں بے مثال قربانی اور عزیمت کا نمونہ پیش کیا ،متحدہ ہند میں احیائے سنت کے سلسلے میں بھی بڑے سرگرم رہے ۔ نکاح بیوگان کے سلسلہ میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ ایک شخص عبد الغنی انگر نہسوی (جو زمرہ مساکین میں سے تھے )کا عقد ایک بیوہ عورت سے تعلم قرآن مہر قراردے کر کر دیا ۔ (ہندوستان کی پہلی اسلامی تحریک ) امام ابو حنیفہ اور امام مالک ؒ اس کے قائل نہیں ہیں ،جیسے کہ آخری اثر میں جنات مکحول ؒ سے منقول ہوا ہے مگر یہ قول مرجوع ہے ۔ 5 : کوئی خاتوناپنئ نکاح کے سلسلے میں جنبانی کرے تو کوئی عیب کی بات نہیں ہے ایسے ہی کوئی ولی اپنی زیر تولیت لڑکی کے لئے رشتے آنے کا انتظار کرنے کی بجائے از خو دکسی سے بات کرے تو یہ بھی عیب والی بات نہیں ۔