Book - حدیث 2086

كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ فِي الْوَلِيِّ صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ، أَنَّهَا كَانَتْ عِنْدَ ابْنِ جَحْشٍ، فَهَلَكَ عَنْهَا، وَكَانَ فِيمَنْ هَاجَرَ إِلَى أَرْضِ الْحَبَشَةِ، فَزَوَّجَهَا النَّجَاشِيُّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ, وَهِيَ عِنْدَهُمْ.

ترجمہ Book - حدیث 2086

کتاب: نکاح کے احکام و مسائل باب: ولی کا بیان ( ولی کے بغیر کسی عورت کا نکاح صحیح نہیں ) جناب عروہ بن زبیر ؓ ام المؤمنین سیدہ ام حبیبہ ؓا کے متعلق بتاتے ہیں کہ یہ پہلے ابن حجش کی زوجیت میں تھیں ، وہ فوت ہو گیا اور وہ ان لوگوں میں سے تھا جو حبشہ کی جانب ہجرت کر کے گئے تھے ، تو نجاشی نے ان کا نکاح رسول اللہ ﷺ سے کر دیا جبکہ یہ ان کے ہاں ( حبشہ ہی میں ) تھیں ۔
تشریح : 1 :عورت ازخو اپنا نکاح نہیں کر سکتی ۔ ولی کا ہو نا صحت نکاح کے لئے لازمی شرط ہےایسی تمام آیات واحادیث جن میں نکاح کی نسبت عورتوں کی طرف ہے وہ ان صحیح احادیث کی روشنی میں ولی کے ساتھ مخصوص ہیں ۔ یہ ضرور ہے کہ زندگی کے اس اہم فیصلے میں ان پر جبر نہیں کیا جا سکتا ۔ ان کی رضامندی بلکہ بیوہ سے بالوضاحت مشورہ از بس ضروری ہے ۔ 2 :ام حبیبہ رضی اللہ کا پہلا خاوند ( عبیداللہ بن حجش ) مسلمان ہو کر حبشہ ہجرت کر گیا تھا مگر وہاں جا کر مرتد ہو گیا اور نصرانی بن گیا تھا۔ ام حبیبہ رضی اللہ کے معتلق آتا ہے کہ انہوں نے خواب میں دیکھا کہ ایک آنے والا اور اس نے ان کو ام المومنین کہہ کر مخاطب کیا اور کہتی ہیں کہ میں گھبراسی گئی اور اس خواب کی تعبیر یہ کی کہ ان شا ء اللہ رسول اللہ ﷺمجھ سے نکاح کریں گے ۔ چنانچہ جب میری عدت ختم ہو گی تو اچانک نجاشی کا پیغامبر دووازے پر آیا ۔ دیکھا تو وہ اس کی خادمہ تھی جس کا نام ابر ہہ تھا جو بادشاہ کے لباس اور عطریات کا اہتمام کرتی تھی ۔ اس نے کہا کہ بادشاہ نے کہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اسے لکھا ہے کہ وہ تمہارا نکاح رسول ﷺسے کر دے ۔ میں نے کہا : اللہ تمہیں جزائے خیر دے،کہنے لگی کہ اپنا وکیل بنا دیں ۔ چنانچہ میں نے خالد بن سعید بن العاص کو اپنا وکیل بنایا ۔ سیرت یعمری میں ہے کہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ ان کے وکیل تھے ۔چنانچہ نجاشیؒ حق مہر ادا کیا اور چار سومشقال سونا اور بعدازاں ولیمہ بھی کھلایا ۔ بعدازاں حضرت شرجیل بن حسنہ کی معیت میں ان کو مدینے بھیج دیا گیا ۔ (بذل المہود ) اس قصے میں نجاشی ؒ رسول اللہ ﷺکی طرف سے وکیل تھے اور خالد بن سعید یا عثمان رضی اللہ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ کے ولی اور وکیل بنے ۔ نجاشی ؒ جو سلطان وقت تھے ان کو بھی ولی سمجھاکا سکتا ہے ۔ حضرت عثمان کا ذکر صحیح نہیں لگتا کیو نکہ وہ اس وقت حبشہ میں نہ تھے بلکہ پہلی ہجرت حبشہ کے بعد جلد ہی واپس آگئےتھے ۔ 1 :عورت ازخو اپنا نکاح نہیں کر سکتی ۔ ولی کا ہو نا صحت نکاح کے لئے لازمی شرط ہےایسی تمام آیات واحادیث جن میں نکاح کی نسبت عورتوں کی طرف ہے وہ ان صحیح احادیث کی روشنی میں ولی کے ساتھ مخصوص ہیں ۔ یہ ضرور ہے کہ زندگی کے اس اہم فیصلے میں ان پر جبر نہیں کیا جا سکتا ۔ ان کی رضامندی بلکہ بیوہ سے بالوضاحت مشورہ از بس ضروری ہے ۔ 2 :ام حبیبہ رضی اللہ کا پہلا خاوند ( عبیداللہ بن حجش ) مسلمان ہو کر حبشہ ہجرت کر گیا تھا مگر وہاں جا کر مرتد ہو گیا اور نصرانی بن گیا تھا۔ ام حبیبہ رضی اللہ کے معتلق آتا ہے کہ انہوں نے خواب میں دیکھا کہ ایک آنے والا اور اس نے ان کو ام المومنین کہہ کر مخاطب کیا اور کہتی ہیں کہ میں گھبراسی گئی اور اس خواب کی تعبیر یہ کی کہ ان شا ء اللہ رسول اللہ ﷺمجھ سے نکاح کریں گے ۔ چنانچہ جب میری عدت ختم ہو گی تو اچانک نجاشی کا پیغامبر دووازے پر آیا ۔ دیکھا تو وہ اس کی خادمہ تھی جس کا نام ابر ہہ تھا جو بادشاہ کے لباس اور عطریات کا اہتمام کرتی تھی ۔ اس نے کہا کہ بادشاہ نے کہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اسے لکھا ہے کہ وہ تمہارا نکاح رسول ﷺسے کر دے ۔ میں نے کہا : اللہ تمہیں جزائے خیر دے،کہنے لگی کہ اپنا وکیل بنا دیں ۔ چنانچہ میں نے خالد بن سعید بن العاص کو اپنا وکیل بنایا ۔ سیرت یعمری میں ہے کہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ ان کے وکیل تھے ۔چنانچہ نجاشیؒ حق مہر ادا کیا اور چار سومشقال سونا اور بعدازاں ولیمہ بھی کھلایا ۔ بعدازاں حضرت شرجیل بن حسنہ کی معیت میں ان کو مدینے بھیج دیا گیا ۔ (بذل المہود ) اس قصے میں نجاشی ؒ رسول اللہ ﷺکی طرف سے وکیل تھے اور خالد بن سعید یا عثمان رضی اللہ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ کے ولی اور وکیل بنے ۔ نجاشی ؒ جو سلطان وقت تھے ان کو بھی ولی سمجھاکا سکتا ہے ۔ حضرت عثمان کا ذکر صحیح نہیں لگتا کیو نکہ وہ اس وقت حبشہ میں نہ تھے بلکہ پہلی ہجرت حبشہ کے بعد جلد ہی واپس آگئےتھے ۔