Book - حدیث 2068

كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ مَا يُكْرَهُ أَنْ يُجْمَعَ بَيْنَهُنَّ مِنْ النِّسَاءِ صحیح حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ الْمِصْرِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ, عَنِ ابْنِ شِهَابٍ, قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ ابْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ}[النساء: 3]؟ قَالَتْ: يَا ابْنَ أُخْتِي! هِيَ الْيَتِيمَةُ تَكُونُ فِي حِجْرِ وَلِيِّهَا، فَتُشَارِكُهُ فِي مَالِهِ، فَيُعْجِبُهُ مَالُهَا وَجَمَالُهَا، فَيُرِيدُ وَلِيُّهَا أَنْ يَتَزَوَّجَهَا بِغَيْرِ أَنْ يُقْسِطَ فِي صَدَاقِهَا، فَيُعْطِيَهَا مِثْلَ مَا يُعْطِيهَا غَيْرُهُ، فَنُهُوا أَنْ يَنْكِحُوهُنَّ إِلَّا أَنْ يُقْسِطُوا لَهُنَّ وَيَبْلُغُوا بِهِنَّ أَعْلَى سُنَّتِهِنَّ مِنَ الصَّدَاقِ، وَأُمِرُوا أَنْ يَنْكِحُوا مَا طَابَ لَهُمْ مِنَ النِّسَاءِ سِوَاهُنَّ. قَالَ عُرْوَةُ: قَالَتْ عَائِشَةُ: ثُمَّ إِنَّ النَّاسَ اسْتَفْتَوْا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ هَذِهِ الْآيَةِ فِيهِنَّ؟ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: {وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّسَاءِ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ وَمَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ فِي يَتَامَى النِّسَاءِ اللَّاتِي لَا تُؤْتُونَهُنَّ مَا كُتِبَ لَهُنَّ وَتَرْغَبُونَ أَنْ تَنْكِحُوهُنَّ}[النساء: 127]، قَالَتْ: وَالَّذِي ذَكَرَ اللَّهُ أَنَّهُ يُتْلَى عَلَيْهِمْ فِي الْكِتَابِ: الْآيَةُ الْأُولَى، الَّتِي قَالَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ فِيهَا: {وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ}[النساء: 3]، قَالَتْ عَائِشَةُ: وَقَوْلُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فِي الْآيَةِ الْآخِرَةِ: {وَتَرْغَبُونَ أَنْ تَنْكِحُوهُنَّ}[النساء: 127], هِيَ رَغْبَةُ أَحَدِكُمْ عَنْ يَتِيمَتِهِ الَّتِي تَكُونُ فِي حِجْرِهِ، حِينَ تَكُونُ قَلِيلَةَ الْمَالِ وَالْجَمَالِ، فَنُهُوا أَنْ يَنْكِحُوا مَا رَغِبُوا فِي مَالِهَا وَجَمَالِهَا مِنْ يَتَامَى النِّسَاءِ إِلَّا بِالْقِسْطِ, مِنْ أَجْلِ رَغْبَتِهِمْ عَنْهُنَّ. قَالَ يُونُسُ وَقَالَ رَبِيعَةُ فِي قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: {وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى}[النساء: 3]، قَالَ: يَقُولُ: اتْرُكُوهُنَّ إِنْ خِفْتُمْ، فَقَدْ أَحْلَلْتُ لَكُمْ أَرْبَعًا.

ترجمہ Book - حدیث 2068

کتاب: نکاح کے احکام و مسائل باب: وہ عورتیں جن کو ( ایک وقت میں ) جمع کرنا حرام ہے جناب عروہ بن زبیر ؓ سے مروی ہے ، وہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓا سے آیت کریمہ «وإن خفتم ألا تقسطوا في اليتامى فانكحوا طاب لكم من النساء سورة النساء» کی تفسیر دریافت کی ۔ تو انہوں نے کہا ، بھانجے میرے ! یہ اس یتیم لڑکی کے متعلق ہے جو اپنے کسی ولی کی سرپرستی میں ہو اور ( مالدار غنیہ ہونے کی وجہ سے ) اپنے ولی کے مال میں حصہ دار بن گئی ہو ۔ پھر اس ولی کو اس لڑکی کا مال و جمال پسند آ جائے اور اس کی خواہش ہو کہ اس سے نکاح کر لے مگر حق مہر میں انصاف نہ کرے اور اس قدر نہ دینا چاہے جو کوئی غیر اسے دے ، تو ( ایسی صورت میں ) ان لوگوں کو ان کے ساتھ نکاح سے منع کر دیا گیا الا یہ کہ ان سے عدل کریں اور مہر ان کے اعلیٰ معیار کے مطابق دیں ( تو جائز ہے ) انہیں یہ حکم دیا گیا کہ ( اگر یہ اندیشہ ہو تو ) ان کے علاوہ دیگر عورتوں سے نکاح کر لو جو تمہیں پسند آئیں ۔ عروہ نے کہا : عائشہ ؓا نے بیان کیا کہ پھر لوگوں نے اس آیت کے بعد جو ان کے بارے میں اتری تھی ، رسول اللہ ﷺ سے سوالات کیے ( اور رخصت چاہی ) تو اللہ تعالیٰ نے یہ نازل فرمایا «ويستفتونك في النساء قل الله يفتيكم فيهن و يتلى عليكم في الكتاب في يتامى النساء اللاتي لا تؤتونهن كتب لهن وترغبون أن تنكحوهن» ” اے پیغمبر ! لوگ آپ سے ( یتیم ) عورتوں کے بارے میں فتویٰ طلب کرتے ہیں ۔ آپ ان سے کہیں کہ ان کے بارے میں اللہ تمہیں فتویٰ دیتا ہے اور قرآن کی وہ آیتیں بھی ( وضاحت کرتی ہیں ) جو تم پر ان یتیم عورتوں ( لڑکیوں ) کے بارے میں پڑھی جاتی ہیں جن کے مقررہ حقوق ( میراث وغیرہ ) تم دیتے نہیں اور ان سے نکاح کرنے کی رغبت رکھتے ہو ۔ “ سیدہ عائشہ ؓا نے بیان کیا کہ یہ جو اللہ نے ذکر کیا ہے کہ وہ تم پر کتاب میں پڑھی جاتی ہے ، اس سے مراد وہ پہلے والی آیت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے «وإن خفتم ألا تقسطوا في اليتامى فانكحوا طاب لكم من النساء» عائشہ ؓا نے کہا کہ دوسری آیت میں جو آیا ہے «وترغبون أن تنكحوهن» اس سے مراد ” اعراض “ ہے ۔ یہ اعراض آدمی اپنی زیر سر پرستی یتیم لڑکی سے کرتا تھا جب کہ وہ قلیل المال ہوتی اور حسن و جمال میں بھی معیاری نہ ہوتی ۔ تو انہیں منع کیا گیا ہے کہ یتیم لڑکیوں کے مال و جمال کے حریص بن کر ان سے نکاح مت کرو الا یہ کہ عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرو ( اور یہ تفصیل نازل ہونے کی وجہ یہی ہے کہ لوگ ان سے اعراض کرنے لگے تھے ) یونس سے بیان کیا کہ جناب ربیعہ الرای نے «وإن خفتم ألا تقسطوا في اليتامى» کی توضیح میں کہا کہ اللہ فرماتا ہے ” ظلم کا اندیشہ ہو تو انہیں چھوڑ دو ، میں نے تمہارے لیے چار عورتیں حلال کی ہوئی ہیں ۔ “
تشریح : 1 : حدیث کا باب سے تعلق یہ ہے کہ اگر انسان اپنی زیر تولیت کسی یتیم بچی سے شرعی عدل وانصاف کے معیار پر پورا نہ اتر سکتا ہو تو اس سے نکاح نہ کرے خواہ پہلا ہو یا کسی دوسری بیوی کے ہوتے ہوئے ہو۔ اس میں تو اور بھی اندیشہ ہے کہ یتیم بچی ہونے کی وجہ سے اسے گھر کی لونڈی اور خادمہ ہی بنا لیا جائے۔ 2 :فہم قرآن کے لئے شان نزول کی ایک خاص اہمیت ہے بشرطیکہ صحیح سند سے ثابت ہو ۔ اسی طرح ہر آیت کے لئےشان نزول تلاش کرنا بھی تکلف بارد ہے ۔ 1 : حدیث کا باب سے تعلق یہ ہے کہ اگر انسان اپنی زیر تولیت کسی یتیم بچی سے شرعی عدل وانصاف کے معیار پر پورا نہ اتر سکتا ہو تو اس سے نکاح نہ کرے خواہ پہلا ہو یا کسی دوسری بیوی کے ہوتے ہوئے ہو۔ اس میں تو اور بھی اندیشہ ہے کہ یتیم بچی ہونے کی وجہ سے اسے گھر کی لونڈی اور خادمہ ہی بنا لیا جائے۔ 2 :فہم قرآن کے لئے شان نزول کی ایک خاص اہمیت ہے بشرطیکہ صحیح سند سے ثابت ہو ۔ اسی طرح ہر آیت کے لئےشان نزول تلاش کرنا بھی تکلف بارد ہے ۔