Book - حدیث 2033

كِتَابُ الْمَنَاسِكِ بَابُ فِي إِتْيَانِ الْمَدِينَةِ صحیح حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلَى ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ مَسْجِدِ الْحَرَامِ وَمَسْجِدِي هَذَا وَالْمَسْجِدِ الْأَقْصَى

ترجمہ Book - حدیث 2033

کتاب: اعمال حج اور اس کے احکام و مسائل باب: مدینہ منورہ آنے کے احکام و مسائل سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ” پالان نہ کسے ( یعنی سفر نہ کئے ) جائیں مگر تین مساجد کی طرف ، یعنی مسجد الحرام ( بیت اللہ ) میری یہ مسجد ( مسجد نبوی ) اور مسجد الاقصیٰ کی طرف ۔ “
تشریح : مدینہ منورہ اس دنیا میں تمام مسلمانان عالم کا محبوب ترین شہر ہے۔یہ ہمارے آقا ہمارے محبوب حضرت محمد رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کا دارلحجرت اور مستقر ہے۔تمام اہل السنہ والجماعۃ(اہلحدیث) اس مبارک شہر کی زیارت اور اس کے سفر کو اپنی آرزوں کی انتہا اور اپنے عظیم ترین اعمال صالحہ میں شمار کرتے ہیں۔ مذکورہ بالا حدیث کی شرع میں علامہ خطابی کے کلمات بہت ہی جامع ہیں۔خلاصہ یہ ہے کہ ارشاد نبویﷺ کا تعلق نذر سے ہے۔یعنی اگر انسان نے کسی عام مسجد میں نماز پڑھنے کی نذر مانی ہوتو اسے اختیار ہے کہ چاہے تو اس نذر کردہ مسجد میں نماز پڑھے یا کسی اور میں پڑھ لے۔(سبھی برابر ہیں۔)الا یہ کہ ان تین میں سے کسی کی نذر مانی ہو تو اسے یہ اپنی نذر پوری کرنی واجب ہے۔ اور ان کے خاص ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہ تینوں ہمارے انبیاء ؑ کی مساجد ہیں۔جن کی اقتداء کا ہمیں حکمدیا گیا ہے۔ جبکہ بعض اہل علم فرماتے ہیں کہ اعتکاف صرف ان تین مسجدوں میں صحیح ہے۔انتھیٰ اس معنی کی تایئد اس روایت کے ان الفاظ سے بھی ہوتی ہے ۔(لاينبغي للمطي ان يشد رحالها الي مسجد تبتغي فيه الصلاة غير مسجدي هذا والمسجد الحرام والمسجد الاقصي ( نیل الاوطار 110/5) یعنی بغرض نماز کسی مسجدکی طرف سواری پر پالان نہ کسا جائے۔سوائے ان مساجد کے میری یہ مسجد مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ۔ شاہ عبدالعزیز کی توضیح یہ ہے کہ اس حدیث میں مستثنیٰ منہ مخذوف ہے یعنی لاتشد الرحال الي موضع يتقرب به الا الي ثلاثة مساجد ان تين مساجد کے علاوہ بغرض تقرب کہیں کا سفر نہ کیا جائے۔ الفاظ حدیث کا ظاہر سیاق واضح کر رہا ہے کہ ان تین محترم معظم مساجد کے علاوہ کہیں کا سفر نہ کیا جاوے۔(یعنی بغرض عبادت وتقرب(اور اس کی تایئد حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس روایت سے ہوتی ہے۔ کہ انہوں نے بصرہ الغفاری سے پوچھا کہ کہاں سے آرہے ہو؟ کہا کوہ طور سے کہا کہ اگر تمہارے اس سفر سے پہلے میری تم سے ملاقات ہوجاتی تو تم نہ جاتے میں نے رسول اللہ ﷺسے سنا تھا۔کہ (لاتعمل المطي الا الي ثلاة مساجد)(سنن النسائي الجمعة حديث ١٤٣١) تين مساجد كے علاوہ کہیں کا سفر نہ کیا جائے۔ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے حجۃ البالغہ میں لکھا ہے۔ کہ اہل جاہلیت اپنے زعم کے مطابق کئی متبرک مقامات کا سفر کیا کرتے تھے۔جس کا لازمی نتیجہ اللہ کے دین میں بصورت تحریف وفساد نکلتا تھا۔تو نبی کریم ﷺنے اس فساد کا منبع ہی بند کردیا۔تاکہ مشروع اور غیر مشروع مشرکانہ وبدعی شعائر آپس میں خلط ملط نہ ہوں۔ اور غیر اللہ کی عبادت کادروازہ بند ہوجائے۔اور میرے نزدیک انہی میں سے کوئی قبر کسی ولی اللہ کی عبادت گاہ اور کوہ طور سبھی برابر ہیں۔(بحوالہ عون المعبود) شعائر اور عبادت کے علاوہ جہاد ہجرت طلب علم۔عزیز واقارب اور علماء سے ملاقات اور تجارت وغیرہ ایسے امور ہیں جن کے لئے سفر شرعا مطلوب ہے۔کسی نے بھی کبھی ان پر انکار نہیں کیا۔مگر بغرض عبادت اعتکاف اور اجر مذید کی غرض سے کسی جگہ کا سفر بفرمان رسول ﷺ ان تین مساجد ہی سے خاص ہے۔زیارت قبو ر کے لئے سفر کا مسئلہ امام ابن تیمیہرحمۃ اللہ علیہ او ر ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تحریروں میں خوب خوب نکھارا ہے۔اور نہایت قوی او ر واضح براہین اور گہری بصیرت سے ثابت کیا ہے۔ کہ محض زیارت قبور کےلئے سفر کہیں کا بھی ہو جائز نہیں ہے۔ نبی کریم ﷺ کی قبر کی بجائے وہ نیت کی جانی چاہیے جو مشروع ومرغوب فیہ ہو۔یعنی زیارت مسجد نبوی اور اس میں نماز سفر کی یہ نیت اور غرض انتہائی مبارک مشروع اور مرغوب ہے۔ اور متضمن ہے۔ دیگر سب مشروع زیارات کو یعنی رسول اللہ ﷺ کی قبر مبارک مسجد قباء مقابر بقیع اور شہدائے احد۔اور یہ نزاع اور اختلاف صرف ابتدائی نیت کے مسئلے میں ہے۔ مدینہ منورہ پہنچ کر مذکورہ بالا سبھی زیارات حاصل ہوتی ہیں۔اور سب کی زیار ت مستحب ہے۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔لہذا علمائے اہل حدیث ۔۔۔كثر الله سوادهم۔۔۔اس امر کے قائل وفاعل ہیں۔کہ مدینہ منورہ میں اصلا مسجد نبوی کی زیارت کا قصہ کیا جائے۔اور بس۔دیگر زیارات بالتبع حاصل ہوں گی۔ یہ عمل اور سفر پیارے پیغمبر سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ سے محبت کا مظہر ہے۔بشرط یہ کہ عقیدہ صحیح اور دیگر اطوار زندگی بھی شریعت کے مطابق ہوں۔اس سے بے رغبتی انتہائی شقاوت بدبختی۔اور رسول اللہ ﷺ سے محبت نہ ہونے کی دلیل ہے۔ ایک ضروری نکتہ یہ بھی ہے کہ زیارت مسجد نبوی کا اعمال حج سے قطعا ً کوئی تعلق نہیں ہے۔اعمال حج اول تا آخر مکہ مکرمہ میں ہی مکمل ہوجاتے ہیں۔ سفر مدینہ ایک علیحدہ اور مستقل عمل ہے۔اگر کوئی شخص اپنے سفر حج میں مدینہ منورہ نہ جاسکے تو اس کے حج میں کوئی نقص یا عیب نہیں ہوتا۔(اللهم الرزقنا حبك وحب عمل يقربنا الي حبك)اس باب كی مزکورہ بالا صحیح ترین حدیث کے مقابلے میں زیارت قبر نبوی کے سفر کے سلسلے میں پیش کی جانے والی روایات اصول حدیث کے معیار پر پوری نہیں اُترتی ہیں۔ اور دین محض جذبات یا تعصب کا نام نہیں بلکہ اتباع حق کا نام ہے۔ ان ضعیف روایات میں سے اہم روایات کی تخریج اور ان کے ضعف کی صراحت حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے (التلخیص الجبیر 266/2۔حدیث 1075) میں کردی ہے۔مثلاً من زارني بعد موتي فكانما زارني في حياتي )جس نے میری موت کے بعد میری زیارت کی اس نے گویا میری زندگی میں میری زیارت کی۔ (من زارا قبري فله الجنة) جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لئے جنت ہے۔ (من جاءني زائر الا تعمله حاجة الا زيارتي كان حقا علي ان اكون له شفيعا يوم القيامة) جو میری زیارت کے لئے آیا جبکہ اسے سوائے میری زیارت کے اور کوئی غرض نہ ہو تو مجھ پر حق ہے کہ قیامت کے روز اس کے لئے سفارشی بنوں (من حج ولم يزرني فقد جفاني) جس نے حج کیا اور میری زیارت نہیں کی اس نے بلاشبہ مجھ سے بے رخی کی (من زارني بالمدينة محتسبا كنت له شفعيا وشهيدا يوم القيامة) جس نے ثواب کی غرض سے مدینے کی زیارت کی میں ا س کے لئے قیامت کے دن شفیع اور شہید بنوں گا یہ سب روایات ناقابل حجت ہیں۔طلبہ علم اور متلاشیان حق پر واجب ہے۔ کہ سنت اور بدعت میں فرق کرنے کےلئے علماء اور راسخین فی الحدیث سے رجوع کریں۔وباللہ التوفیق مدینہ منورہ اس دنیا میں تمام مسلمانان عالم کا محبوب ترین شہر ہے۔یہ ہمارے آقا ہمارے محبوب حضرت محمد رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کا دارلحجرت اور مستقر ہے۔تمام اہل السنہ والجماعۃ(اہلحدیث) اس مبارک شہر کی زیارت اور اس کے سفر کو اپنی آرزوں کی انتہا اور اپنے عظیم ترین اعمال صالحہ میں شمار کرتے ہیں۔ مذکورہ بالا حدیث کی شرع میں علامہ خطابی کے کلمات بہت ہی جامع ہیں۔خلاصہ یہ ہے کہ ارشاد نبویﷺ کا تعلق نذر سے ہے۔یعنی اگر انسان نے کسی عام مسجد میں نماز پڑھنے کی نذر مانی ہوتو اسے اختیار ہے کہ چاہے تو اس نذر کردہ مسجد میں نماز پڑھے یا کسی اور میں پڑھ لے۔(سبھی برابر ہیں۔)الا یہ کہ ان تین میں سے کسی کی نذر مانی ہو تو اسے یہ اپنی نذر پوری کرنی واجب ہے۔ اور ان کے خاص ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہ تینوں ہمارے انبیاء ؑ کی مساجد ہیں۔جن کی اقتداء کا ہمیں حکمدیا گیا ہے۔ جبکہ بعض اہل علم فرماتے ہیں کہ اعتکاف صرف ان تین مسجدوں میں صحیح ہے۔انتھیٰ اس معنی کی تایئد اس روایت کے ان الفاظ سے بھی ہوتی ہے ۔(لاينبغي للمطي ان يشد رحالها الي مسجد تبتغي فيه الصلاة غير مسجدي هذا والمسجد الحرام والمسجد الاقصي ( نیل الاوطار 110/5) یعنی بغرض نماز کسی مسجدکی طرف سواری پر پالان نہ کسا جائے۔سوائے ان مساجد کے میری یہ مسجد مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ۔ شاہ عبدالعزیز کی توضیح یہ ہے کہ اس حدیث میں مستثنیٰ منہ مخذوف ہے یعنی لاتشد الرحال الي موضع يتقرب به الا الي ثلاثة مساجد ان تين مساجد کے علاوہ بغرض تقرب کہیں کا سفر نہ کیا جائے۔ الفاظ حدیث کا ظاہر سیاق واضح کر رہا ہے کہ ان تین محترم معظم مساجد کے علاوہ کہیں کا سفر نہ کیا جاوے۔(یعنی بغرض عبادت وتقرب(اور اس کی تایئد حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس روایت سے ہوتی ہے۔ کہ انہوں نے بصرہ الغفاری سے پوچھا کہ کہاں سے آرہے ہو؟ کہا کوہ طور سے کہا کہ اگر تمہارے اس سفر سے پہلے میری تم سے ملاقات ہوجاتی تو تم نہ جاتے میں نے رسول اللہ ﷺسے سنا تھا۔کہ (لاتعمل المطي الا الي ثلاة مساجد)(سنن النسائي الجمعة حديث ١٤٣١) تين مساجد كے علاوہ کہیں کا سفر نہ کیا جائے۔ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے حجۃ البالغہ میں لکھا ہے۔ کہ اہل جاہلیت اپنے زعم کے مطابق کئی متبرک مقامات کا سفر کیا کرتے تھے۔جس کا لازمی نتیجہ اللہ کے دین میں بصورت تحریف وفساد نکلتا تھا۔تو نبی کریم ﷺنے اس فساد کا منبع ہی بند کردیا۔تاکہ مشروع اور غیر مشروع مشرکانہ وبدعی شعائر آپس میں خلط ملط نہ ہوں۔ اور غیر اللہ کی عبادت کادروازہ بند ہوجائے۔اور میرے نزدیک انہی میں سے کوئی قبر کسی ولی اللہ کی عبادت گاہ اور کوہ طور سبھی برابر ہیں۔(بحوالہ عون المعبود) شعائر اور عبادت کے علاوہ جہاد ہجرت طلب علم۔عزیز واقارب اور علماء سے ملاقات اور تجارت وغیرہ ایسے امور ہیں جن کے لئے سفر شرعا مطلوب ہے۔کسی نے بھی کبھی ان پر انکار نہیں کیا۔مگر بغرض عبادت اعتکاف اور اجر مذید کی غرض سے کسی جگہ کا سفر بفرمان رسول ﷺ ان تین مساجد ہی سے خاص ہے۔زیارت قبو ر کے لئے سفر کا مسئلہ امام ابن تیمیہرحمۃ اللہ علیہ او ر ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تحریروں میں خوب خوب نکھارا ہے۔اور نہایت قوی او ر واضح براہین اور گہری بصیرت سے ثابت کیا ہے۔ کہ محض زیارت قبور کےلئے سفر کہیں کا بھی ہو جائز نہیں ہے۔ نبی کریم ﷺ کی قبر کی بجائے وہ نیت کی جانی چاہیے جو مشروع ومرغوب فیہ ہو۔یعنی زیارت مسجد نبوی اور اس میں نماز سفر کی یہ نیت اور غرض انتہائی مبارک مشروع اور مرغوب ہے۔ اور متضمن ہے۔ دیگر سب مشروع زیارات کو یعنی رسول اللہ ﷺ کی قبر مبارک مسجد قباء مقابر بقیع اور شہدائے احد۔اور یہ نزاع اور اختلاف صرف ابتدائی نیت کے مسئلے میں ہے۔ مدینہ منورہ پہنچ کر مذکورہ بالا سبھی زیارات حاصل ہوتی ہیں۔اور سب کی زیار ت مستحب ہے۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔لہذا علمائے اہل حدیث ۔۔۔كثر الله سوادهم۔۔۔اس امر کے قائل وفاعل ہیں۔کہ مدینہ منورہ میں اصلا مسجد نبوی کی زیارت کا قصہ کیا جائے۔اور بس۔دیگر زیارات بالتبع حاصل ہوں گی۔ یہ عمل اور سفر پیارے پیغمبر سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ سے محبت کا مظہر ہے۔بشرط یہ کہ عقیدہ صحیح اور دیگر اطوار زندگی بھی شریعت کے مطابق ہوں۔اس سے بے رغبتی انتہائی شقاوت بدبختی۔اور رسول اللہ ﷺ سے محبت نہ ہونے کی دلیل ہے۔ ایک ضروری نکتہ یہ بھی ہے کہ زیارت مسجد نبوی کا اعمال حج سے قطعا ً کوئی تعلق نہیں ہے۔اعمال حج اول تا آخر مکہ مکرمہ میں ہی مکمل ہوجاتے ہیں۔ سفر مدینہ ایک علیحدہ اور مستقل عمل ہے۔اگر کوئی شخص اپنے سفر حج میں مدینہ منورہ نہ جاسکے تو اس کے حج میں کوئی نقص یا عیب نہیں ہوتا۔(اللهم الرزقنا حبك وحب عمل يقربنا الي حبك)اس باب كی مزکورہ بالا صحیح ترین حدیث کے مقابلے میں زیارت قبر نبوی کے سفر کے سلسلے میں پیش کی جانے والی روایات اصول حدیث کے معیار پر پوری نہیں اُترتی ہیں۔ اور دین محض جذبات یا تعصب کا نام نہیں بلکہ اتباع حق کا نام ہے۔ ان ضعیف روایات میں سے اہم روایات کی تخریج اور ان کے ضعف کی صراحت حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے (التلخیص الجبیر 266/2۔حدیث 1075) میں کردی ہے۔مثلاً من زارني بعد موتي فكانما زارني في حياتي )جس نے میری موت کے بعد میری زیارت کی اس نے گویا میری زندگی میں میری زیارت کی۔ (من زارا قبري فله الجنة) جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لئے جنت ہے۔ (من جاءني زائر الا تعمله حاجة الا زيارتي كان حقا علي ان اكون له شفيعا يوم القيامة) جو میری زیارت کے لئے آیا جبکہ اسے سوائے میری زیارت کے اور کوئی غرض نہ ہو تو مجھ پر حق ہے کہ قیامت کے روز اس کے لئے سفارشی بنوں (من حج ولم يزرني فقد جفاني) جس نے حج کیا اور میری زیارت نہیں کی اس نے بلاشبہ مجھ سے بے رخی کی (من زارني بالمدينة محتسبا كنت له شفعيا وشهيدا يوم القيامة) جس نے ثواب کی غرض سے مدینے کی زیارت کی میں ا س کے لئے قیامت کے دن شفیع اور شہید بنوں گا یہ سب روایات ناقابل حجت ہیں۔طلبہ علم اور متلاشیان حق پر واجب ہے۔ کہ سنت اور بدعت میں فرق کرنے کےلئے علماء اور راسخین فی الحدیث سے رجوع کریں۔وباللہ التوفیق