Book - حدیث 2027

كِتَابُ الْمَنَاسِكِ بَابُ الصَّلَاةِ فِي الْكَعْبَةِ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ أَبِي الْحَجَّاجِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا قَدِمَ مَكَّةَ أَبَى أَنْ يَدْخُلَ الْبَيْتَ وَفِيهِ الْآلِهَةُ فَأَمَرَ بِهَا فَأُخْرِجَتْ قَالَ فَأُخْرِجَ صُورَةُ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَعِيلَ وَفِي أَيْدِيهِمَا الْأَزْلَامُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَاتَلَهُمْ اللَّهُ وَاللَّهِ لَقَدْ عَلِمُوا مَا اسْتَقْسَمَا بِهَا قَطُّ قَالَ ثُمَّ دَخَلَ الْبَيْتَ فَكَبَّرَ فِي نَوَاحِيهِ وَفِي زَوَايَاهُ ثُمَّ خَرَجَ وَلَمْ يُصَلِّ فِيهِ

ترجمہ Book - حدیث 2027

کتاب: اعمال حج اور اس کے احکام و مسائل باب: کعبہ کے اندر نماز کا بیان سیدنا ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ جب مکہ میں تشریف لائے تو کعبہ کے اندر جانے سے انکار فر دیا کیونکہ اس کے اندر بت رکھے ہوئے تھے ۔ چنانچہ آپ ﷺ نے حکم دیا اور انہیں باہر نکال دیا گیا ۔ ان میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور سیدنا اسمعیل علیہ السلام کی تصویریں بھی تھیں جن کے ہاتھوں میں پانسے ( قسمت معلوم کرنے کے تیر ) دکھلائے گئے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” اللہ ان پر لعنت کرے ، قسم اللہ کی ! انہیں خوب علم تھا کہ ان حضرات نے کبھی بھی ان سے پانسے نہیں ڈالے تھے ۔ “ چنانچہ اس کے بعد آپ ﷺ کعبہ میں داخل ہوئے اور اس کے اطراف اور کونوں میں تکبیریں کہیں ۔ پھر آپ ﷺ نکل آئے اور اندر نماز نہیں پڑھی ۔
تشریح : 1۔ پانسے کے تیر یوں تھے کہ لکڑیاں سی ہوتیں۔اور ان میں سے کچھ پر لکھا ہوتا تھا۔(افعل)کام کرلو۔اور کچھ پر لکھا ہوا تھا۔(لاتفعل)مت کرو۔اورکچھ خالی ہوتی تھیں۔ لوگ کسی اہم سفر یا کام کے موقع پر مجاور کعبہ کے پاس آتے۔اور اس سے اپناکام نہ کرنے یا کرنے کے متعلق پوچھتے تو وہ ان لکڑیوں کوڈبے میں ڈال کرہلاتا اور کوئی ایک نکال کر جواب دیتا۔کہ کرو یا نہ کرو۔اگر خالی تیر نکلتا تودوباہ کرتا حتیٰ کہ کوئی جواب نکل آتا۔سورۃ المائدہ میں ہے۔ ( وَأَن تَسْتَقْسِمُوا بِالْأَزْلَا)(المائدہ۔3) یہ بھی حرام ہے۔کہ پانسوں سے قسمت معلوم کرو۔دوسری جگہ فرمایا۔ ( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ)(المائدہ۔90) اے ایمان والو! شراب ۔جوا۔بت ۔پانسے یہ سب ناپاک شیطانی عمل ہیں۔ سو ان سے بچتے رہنا تاکہ نجات پائو 2۔کعبہ کے اندر نماز پڑھنا حضر ت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیان سے ثابت ہے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریمﷺ کےساتھ نہیں تھے۔حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک روایت کی بھی نفی ہے۔مگرحضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیان میں اثبات ہے۔ اور حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نفی کی توجیہ یہ ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو دعا تکبیر میں دیکھا تو خود بھی ایک طرف اسی عمل میں لگ گئے۔ جبکہ رسول اللہ ﷺ نماز پڑھنے لگے۔اور انہوں نے دھیان نہیں کیا۔جبکہ بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریمﷺ کے تمام اعمال کا جائزہ لیتے رہے نیز کمرے میں دروازہ بند ہونے کی وجہ سے اندھیرا بھی تھا تو اس لئے بھی صورت حال مخفی رہی ۔واللہ اعلم۔ 1۔ پانسے کے تیر یوں تھے کہ لکڑیاں سی ہوتیں۔اور ان میں سے کچھ پر لکھا ہوتا تھا۔(افعل)کام کرلو۔اور کچھ پر لکھا ہوا تھا۔(لاتفعل)مت کرو۔اورکچھ خالی ہوتی تھیں۔ لوگ کسی اہم سفر یا کام کے موقع پر مجاور کعبہ کے پاس آتے۔اور اس سے اپناکام نہ کرنے یا کرنے کے متعلق پوچھتے تو وہ ان لکڑیوں کوڈبے میں ڈال کرہلاتا اور کوئی ایک نکال کر جواب دیتا۔کہ کرو یا نہ کرو۔اگر خالی تیر نکلتا تودوباہ کرتا حتیٰ کہ کوئی جواب نکل آتا۔سورۃ المائدہ میں ہے۔ ( وَأَن تَسْتَقْسِمُوا بِالْأَزْلَا)(المائدہ۔3) یہ بھی حرام ہے۔کہ پانسوں سے قسمت معلوم کرو۔دوسری جگہ فرمایا۔ ( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ)(المائدہ۔90) اے ایمان والو! شراب ۔جوا۔بت ۔پانسے یہ سب ناپاک شیطانی عمل ہیں۔ سو ان سے بچتے رہنا تاکہ نجات پائو 2۔کعبہ کے اندر نماز پڑھنا حضر ت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیان سے ثابت ہے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریمﷺ کےساتھ نہیں تھے۔حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک روایت کی بھی نفی ہے۔مگرحضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیان میں اثبات ہے۔ اور حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نفی کی توجیہ یہ ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو دعا تکبیر میں دیکھا تو خود بھی ایک طرف اسی عمل میں لگ گئے۔ جبکہ رسول اللہ ﷺ نماز پڑھنے لگے۔اور انہوں نے دھیان نہیں کیا۔جبکہ بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریمﷺ کے تمام اعمال کا جائزہ لیتے رہے نیز کمرے میں دروازہ بند ہونے کی وجہ سے اندھیرا بھی تھا تو اس لئے بھی صورت حال مخفی رہی ۔واللہ اعلم۔