كِتَابُ الطَّهَارَةِ بَابُ الِاسْتِبْرَاءِ مِنْ الْبَوْلِ صحیح حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ وَهَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ قَالَا حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ قَالَ سَمِعْتُ مُجَاهِدًا يُحَدِّثُ عَنْ طَاوُسٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قَبْرَيْنِ فَقَالَ إِنَّهُمَا يُعَذَّبَانِ وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي كَبِيرٍ أَمَّا هَذَا فَكَانَ لَا يَسْتَنْزِهُ مِنْ الْبَوْلِ وَأَمَّا هَذَا فَكَانَ يَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ ثُمَّ دَعَا بِعَسِيبٍ رَطْبٍ فَشَقَّهُ بِاثْنَيْنِ ثُمَّ غَرَسَ عَلَى هَذَا وَاحِدًا وَعَلَى هَذَا وَاحِدًا وَقَالَ لَعَلَّهُ يُخَفَّفُ عَنْهُمَا مَا لَمْ يَيْبَسَا قَالَ هَنَّادٌ يَسْتَتِرُ مَكَانَ يَسْتَنْزِهُ
کتاب: طہارت کے مسائل
باب: پیشاب سے خوب اچھی طرح پاک ہونے کابیان
سیدنا ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہنبی کریم ﷺ دو قبروں کے پاس سے گزرے تو آپ ﷺ نے فرمایا ” انہیں عذاب دیا جا رہا ہے اور انہیں کسی بہت بڑی بات میں عذاب نہیں دیا جا رہا ہے ۔ رہا یہ شخص ! تو یہ پیشاب سے نہیں بچتا تھا اور یہ ( دوسرا ) تو یہ چغل خوری کیا کرتا تھا “ پھر آپ ﷺ نے کھجور کی ایک تازہ ٹہنی منگوائی اسے دو حصوں میں چیرا اور ہر دو قبروں پر ایک ایک کو گاڑ دیا اور فرمایا ” امید ہے کہ ان کے خشک ہونے تک ان کے عذاب میں تخفیف رہے گی ۔“ هناد کے الفاظ «يستنزه» ” پیشاب سے نہیں بچتا تھا ۔“ کی بجائے «يستتر» ” پروہ نہ کرتا تھا “ ہیں ۔
تشریح :
فوائد ومسائل: (1) رسول اللہ ﷺ اللہ عزوجل ہی کے بتانے سے ایسی خبریں دیا کرتے تھے ۔ فرمایا : (وَما يَنطِقُ عَنِ الهَوىٰ ﴿٣﴾ إِن هُوَ إِلّا وَحىٌ يوحىٰ)(النجم : 4۔3)’’ وہ اپنی خواہش سے کچھ نہیں کہتے ۔ جو کہتے ہیں وحی ہوتی ہے ان پر نازل کردہ۔‘‘ [ اس حدیث سے بعض لوگ یہ مسئلہ اخذ کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ غیب جانتے تھے ، حالانکہ امور غیب کے بارے میں اصل بات یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا خاصہ ہیں ، انہیں اللہ تعالیٰٰ ہی جانتا ہے ، ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔ (وَعِندَهُ مَفاتِحُ الغَيبِ لا يَعلَمُها إِلّا هُوَ ۚ وَيَعلَمُ ما فِى البَرِّ وَالبَحرِ ۚ وَما تَسقُطُ مِن وَرَقَةٍ إِلّا يَعلَمُها وَلا حَبَّةٍ فى ظُلُمـٰتِ الأَرضِ وَلا رَطبٍ وَلا يابِسٍ إِلّا فى كِتـٰبٍ مُبينٍ)(الانعام : 59) ’’ اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہین جن کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا اور اسے جنگلوں اور دریاؤں کی سب چیزوں کا علم ہے اور کوئی پتا نہیں جھڑتا مگر وہ اس کو جانتا ہے اور زمین کے اندھیروں میں کوئی دانہ اور کوئی ہری یا سوکھی چیز نہیں مگر کتاب روشن میں (لکھی ہوئی) ہے ۔‘‘ اور فرمایا: (قُل لا يَعلَمُ مَن فِى السَّمـٰوٰتِ وَالأَرضِ الغَيبَ إِلَّا اللَّهُ ۚ وَما يَشعُرونَ أَيّانَ يُبعَثونَ)(النمل : 27۔65) ’’ اے پیغمبر ! کہہ دیجیے کہ جو لوگ آسمانوں اور زمین میں ہیں اللہ کے سوا غیب کی باتیں نہیں جانتے اور وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ کب (زندہ کرکے) اٹھائے جائیں گے ۔‘‘ البتہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہتا ہے ، غیب کی بات پر چاہتا ہے مطلع فرما دیتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : (عـٰلِمُ الغَيبِ فَلا يُظهِرُ عَلىٰ غَيبِهِ أَحَدًا ﴿26 ﴾ إِلّا مَنِ ارتَضىٰ مِن رَسولٍ فَإِنَّهُ يَسلُكُ مِن بَينِ يَدَيهِ وَمِن خَلفِهِ رَصَدًا)( الجن: 72۔ 26،27) ’’ (وہی) غیب کی بات جاننے والا ہے اور کسی پر اپنے غیب کو ظاہر نہیں کرتا ، ہاں جس پیغمبر کو پسند فرمائے تو اس کو غیب کی باتیں بتا دیتا ہے اور اس کے آگے اور پیچھے نگہبان مقرر کردیتا ہے ۔‘‘ اور فرمایا : (قُل ما كُنتُ بِدعًا مِنَ الرُّسُلِ وَما أَدرى ما يُفعَلُ بى وَلا بِكُم ۖ إِن أَتَّبِعُ إِلّا ما يوحىٰ إِلَىَّ وَما أَنا۠ إِلّا نَذيرٌ مُبينٌ)(الاحقاف : 46،9) ’’ کہہ دیجیے کہ میں کوئی انوکھا رسول نہیں آیا اور میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا اور تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا؟ میں تو اسی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر وحی آتی ہے اور میرا کام تو صاف صاف (کھلم کھلا) ڈرانا ہے ۔‘‘ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سےمروی مشہور حدیث میں ہے کہ جب حضرت جبریل نے نبی علیہ السلام سے قیامت کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا : [ما المسؤل عنہا باعلم من السائل](صحیح البخاری الایمان ، باب سؤال جبریل النبی ﷺ عن الایمان.......حدیث :50 ، صحیح مسلم ، الایمان، حدیث :8) ’’ اس کے بارے میں مسؤل کو سائل سے زیادہ علم نہیں ہے ۔‘‘ پھر آپ نے جبریل علیہ السلام کو قیامت کی چند نشانیوں کے بارے میں ضرور بتلایا اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ نبی ﷺ کو بس اتنا علم غیب تھا جتنا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو معلوم کروا دیا تھا ، اسی کے بارے میں آپ نے بوقت ضرورت بتایا، غیب کے باقی امور جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو نہیں بتایا، ان کے بارے میں آپ ﷺ کو علم نہ تھا]
پیشاب سے طہارت حاصل نہ کرنا، یا اس کے چھینٹوں سے نہ بچنا ، یا پردہ نہ کرنا یعنی برسرعام پیشاب پاخانہ کرنے کے لیے بیٹھ جانا عذاب قبر کا باعث ہے ۔(3) چغل خوری کو بھی عام سی بات نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ یہ بھی بہت بڑا گناہ اور عذاب قبر کا باعث ہے۔(4) رسول اللہ ﷺ کا قبروں اور چھریاں رکھنے کا عمل آپ ہی سے مخصوص ہے ۔ آپ کے بعد صحابہ میں سے کسی نے بھی یہ عمل نہیں کیا، اب جو لوگ کرتے ہیں ایک بدعت کے مرتکب ہوتے ہیں۔
فوائد ومسائل: (1) رسول اللہ ﷺ اللہ عزوجل ہی کے بتانے سے ایسی خبریں دیا کرتے تھے ۔ فرمایا : (وَما يَنطِقُ عَنِ الهَوىٰ ﴿٣﴾ إِن هُوَ إِلّا وَحىٌ يوحىٰ)(النجم : 4۔3)’’ وہ اپنی خواہش سے کچھ نہیں کہتے ۔ جو کہتے ہیں وحی ہوتی ہے ان پر نازل کردہ۔‘‘ [ اس حدیث سے بعض لوگ یہ مسئلہ اخذ کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ غیب جانتے تھے ، حالانکہ امور غیب کے بارے میں اصل بات یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا خاصہ ہیں ، انہیں اللہ تعالیٰٰ ہی جانتا ہے ، ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔ (وَعِندَهُ مَفاتِحُ الغَيبِ لا يَعلَمُها إِلّا هُوَ ۚ وَيَعلَمُ ما فِى البَرِّ وَالبَحرِ ۚ وَما تَسقُطُ مِن وَرَقَةٍ إِلّا يَعلَمُها وَلا حَبَّةٍ فى ظُلُمـٰتِ الأَرضِ وَلا رَطبٍ وَلا يابِسٍ إِلّا فى كِتـٰبٍ مُبينٍ)(الانعام : 59) ’’ اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہین جن کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا اور اسے جنگلوں اور دریاؤں کی سب چیزوں کا علم ہے اور کوئی پتا نہیں جھڑتا مگر وہ اس کو جانتا ہے اور زمین کے اندھیروں میں کوئی دانہ اور کوئی ہری یا سوکھی چیز نہیں مگر کتاب روشن میں (لکھی ہوئی) ہے ۔‘‘ اور فرمایا: (قُل لا يَعلَمُ مَن فِى السَّمـٰوٰتِ وَالأَرضِ الغَيبَ إِلَّا اللَّهُ ۚ وَما يَشعُرونَ أَيّانَ يُبعَثونَ)(النمل : 27۔65) ’’ اے پیغمبر ! کہہ دیجیے کہ جو لوگ آسمانوں اور زمین میں ہیں اللہ کے سوا غیب کی باتیں نہیں جانتے اور وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ کب (زندہ کرکے) اٹھائے جائیں گے ۔‘‘ البتہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہتا ہے ، غیب کی بات پر چاہتا ہے مطلع فرما دیتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : (عـٰلِمُ الغَيبِ فَلا يُظهِرُ عَلىٰ غَيبِهِ أَحَدًا ﴿26 ﴾ إِلّا مَنِ ارتَضىٰ مِن رَسولٍ فَإِنَّهُ يَسلُكُ مِن بَينِ يَدَيهِ وَمِن خَلفِهِ رَصَدًا)( الجن: 72۔ 26،27) ’’ (وہی) غیب کی بات جاننے والا ہے اور کسی پر اپنے غیب کو ظاہر نہیں کرتا ، ہاں جس پیغمبر کو پسند فرمائے تو اس کو غیب کی باتیں بتا دیتا ہے اور اس کے آگے اور پیچھے نگہبان مقرر کردیتا ہے ۔‘‘ اور فرمایا : (قُل ما كُنتُ بِدعًا مِنَ الرُّسُلِ وَما أَدرى ما يُفعَلُ بى وَلا بِكُم ۖ إِن أَتَّبِعُ إِلّا ما يوحىٰ إِلَىَّ وَما أَنا۠ إِلّا نَذيرٌ مُبينٌ)(الاحقاف : 46،9) ’’ کہہ دیجیے کہ میں کوئی انوکھا رسول نہیں آیا اور میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا اور تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا؟ میں تو اسی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر وحی آتی ہے اور میرا کام تو صاف صاف (کھلم کھلا) ڈرانا ہے ۔‘‘ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سےمروی مشہور حدیث میں ہے کہ جب حضرت جبریل نے نبی علیہ السلام سے قیامت کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا : [ما المسؤل عنہا باعلم من السائل](صحیح البخاری الایمان ، باب سؤال جبریل النبی ﷺ عن الایمان.......حدیث :50 ، صحیح مسلم ، الایمان، حدیث :8) ’’ اس کے بارے میں مسؤل کو سائل سے زیادہ علم نہیں ہے ۔‘‘ پھر آپ نے جبریل علیہ السلام کو قیامت کی چند نشانیوں کے بارے میں ضرور بتلایا اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ نبی ﷺ کو بس اتنا علم غیب تھا جتنا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو معلوم کروا دیا تھا ، اسی کے بارے میں آپ نے بوقت ضرورت بتایا، غیب کے باقی امور جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو نہیں بتایا، ان کے بارے میں آپ ﷺ کو علم نہ تھا]
پیشاب سے طہارت حاصل نہ کرنا، یا اس کے چھینٹوں سے نہ بچنا ، یا پردہ نہ کرنا یعنی برسرعام پیشاب پاخانہ کرنے کے لیے بیٹھ جانا عذاب قبر کا باعث ہے ۔(3) چغل خوری کو بھی عام سی بات نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ یہ بھی بہت بڑا گناہ اور عذاب قبر کا باعث ہے۔(4) رسول اللہ ﷺ کا قبروں اور چھریاں رکھنے کا عمل آپ ہی سے مخصوص ہے ۔ آپ کے بعد صحابہ میں سے کسی نے بھی یہ عمل نہیں کیا، اب جو لوگ کرتے ہیں ایک بدعت کے مرتکب ہوتے ہیں۔