كِتَابُ الطَّهَارَةِ بَابُ الْوُضُوءِ مِنْ الدَّمِ حسن حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبَةَ الرَّبِيعُ بْنُ نَافِعٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي صَدَقَةُ بْنُ يَسَارٍ، عَنْ عَقِيلِ بْنِ جَابِرٍ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- يَعْنِي: فِي غَزْوَةِ ذَاتِ الرِّقَاعِ- فَأَصَابَ رَجُلٌ امْرَأَةَ رَجُلٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ، فَحَلَفَ, أَنْ لَا أَنْتَهِيَ حَتَّى أُهَرِيقَ دَمًا فِي أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ، فَخَرَجَ يَتْبَعُ أَثَرَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَزَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْزِلًا، فَقَالَ: >مَنْ رَجُلٌ يَكْلَؤُنَا؟<، فَانْتَدَبَ رَجُلٌ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ، وَرَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَقَالَ: >كُونَا بِفَمِ الشِّعْبِ<. قَالَ: فَلَمَّا خَرَجَ الرَّجُلَانِ إِلَى فَمِ الشِّعْبِ اضْطَجَعَ الْمُهَاجِرِيُّ، وَقَامَ الْأَنْصَارِيُّ يُصَلِّ، وَأَتَى الرَّجُلُ، فَلَمَّا رَأَى شَخْصَهُ عَرِفَ أَنَّهُ رَبِيئَةٌ لِلْقَوْمِ، فَرَمَاهُ بِسَهْمٍ فَوَضَعَهُ فِيهِ، فَنَزَعَهُ، حَتَّى رَمَاهُ بِثَلَاثَةِ أَسْهُمٍ، ثُمَّ رَكَعَ وَسَجَدَ، ثُمَّ انْتَبَهَ صَاحِبُهُ، فَلَمَّا عَرِفَ أَنَّهُمْ قَدْ نَذِرُوا بِهِ هَرَبَ، وَلَمَّا رَأَى الْمُهَاجِرِيُّ مَا بِالْأَنْصَارِيِّ مِنَ الدَّمِ, قَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ! أَلَا أَنْبَهْتَنِي أَوَّلَ مَا رَمَى؟! قَالَ: كُنْتَ فِي سُورَةٍ أَقْرَؤُهَا، فَلَمْ أُحِبَّ أَنْ أَقْطَعَهَا.
کتاب: طہارت کے مسائل
باب: خون نکلنے سے وضو کا مسئلہ...؟
سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی معیت میں نکلے یعنی غزوہ ذات الرقاع میں تو کسی مسلمان نے مشرکین میں سے کسی کی بیوی کو قتل کر دیا ، تو اس مشرک نے قسم کھائی کہ میں اصحاب محمد میں خون بہا کر رہوں گا ۔ چنانچہ وہ نبی کریم ﷺ کے قدموں کے نشانات کی پیروی کرنے لگا ۔ ادھر نبی کریم ﷺ نے ایک منزل پر پڑاؤ کیا اور فرمایا ” کون ہمارا پہرہ دے گا ؟ “ تو اس کام کے لیے ایک مہاجر اور ایک انصاری اٹھے ۔ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا ” تم دونوں اس گھاٹی کے دہانے پر کھڑے رہو ۔ “ جب وہ دونوں اس کے دہانے کی طرف نکلے ( تو انہوں نے طے کیا کہ باری باری پہرہ دیں گے ) چنانچہ مہاجر لیٹ گیا اور انصاری کھڑا ہو کر نماز پڑھنے لگا ( اور پہرہ بھی دیتا رہا ۔ ) ادھر سے وہ مشرک بھی آ گیا ۔ جب اس نے ان کا سراپا دیکھا تو سمجھ گیا کہ یہ اس قوم کا پہریدار ہے چنانچہ اس نے ایک تیر مارا اور اس کے اندر تول دیا ۔ اس ( انصاری ) نے وہ تیر ( اپنے جسم سے ) نکال دیا ( اور نماز میں مشغول رہا ) حتیٰ کہ اس نے تین تیر مارے ۔ پھر اس نے رکوع اور سجدہ کیا ۔ ادھر اس کا ( مہاجر ) ساتھی بھی جاگ گیا ۔ اس ( مشرک ) کو جب محسوس ہوا کہ ان لوگوں نے اس کو جان لیا ہے ، تو بھاگ نکلا ۔ مہاجر نے جب انصاری کو دیکھا کہ وہ لہولہان ہو رہا ہے تو اس نے کہا : «سبحان الله» ! تم نے مجھے پہلے تیر ہی پر کیوں نہ جگا دیا ؟ اس نے جواب دیا ” میں ایک سورت پڑھ رہا تھا ، میرا دل نہ چاہا کہ اسے ادھوری چھوڑوں ۔ “
تشریح :
1۔ اس حدیث سےمعلوم ہواکہ زخم سےخون بہےتواس سےوضونہیں ٹوٹتااورنہ نماز فاسدہوتی ہے۔ جولوگ کی بہنےسےوضو کےٹوٹ جانےکےقائل ہیں‘وہ ایک توحیض اوراستحاضے کےخون سےاورنکسیرکی بابت روایات سےاستدلال کرتےہیں جن میں نکسیرپھوٹنےکوبھی ناقض وضوبتلایاگیاہے۔ حالانکہ حیض یا استحاضےکےخون کی حثییت عا م زخم سےبہنےوالےخون سےیکسرمختلف ہے۔ اس لیے کہ ان کےتواحکام ہی مختلف ہیں۔ علاوہ ازیں وہ خون[سبیلین]’’شرم گاہوں‘‘سےنکلتاہےجوبالاتفاق ناقض وضوہے۔ جب کہ زخموں سےنکلنےوالےخون کی یہ حثییت نہیں۔ اس لیے صحابہ کرامﷺجنگوں میں زخمی ہوتےرہےاوراسی حالت میں وہ نمازیں بھی پڑھتےرہے،لیکن رسول اللہ ﷺنےزخمی صحابہ کونماز پڑھنےسےمنع نہیں فرمایا۔ جواس بات کی دلیل ہےکہ عام زخموں سےنکلنےخون ناقض وضونہیں ہے۔علاوہ ازیں نکسیرسےوضوکرنےوالی روایات سےبھی استدلال کیاجاتاہےجوکہ سب کی سب ضعیف اورناقابل حجت ہیں۔(تفصیل کےلیےدیکھیں :عون المعبود)
2۔ غزوہ ذات الرقاع امام بخاری کی ترتیب کےمطابق خیبرکےبعدہواتھا۔
3۔اس کی وجہ تسمیہ ایک تویہ ہےکہ اس موقع پرمجاہدین نےاپنےپاؤں زخمی ہونےکےباعث پٹیاں باندھی تھیں۔ علاوہ ازیں بھی کچھ وجوہ بیان کی جاتی ہیں۔
4۔ جہاد میں بالخصوص اوردیگرمواقع پربالعموم پہریداری کاانتظام توکل کےخلاف نہیں بلکہ مسنون اورحکمت جنگ کاایک لازمی حصہ ہے۔
5۔ مجاہدین اسلام دوران جہادمیں بھی اپنےوقت کوقیمتی اعمال میں صرف کرتےتھےجیسےکہ اس انصاری نےپہریداری کےدوران نماز اورتلاوت قرآن شروع کردی اوروہ سورت‘جویہ مجاہدپڑھ رہاتھا‘سورہ کہف تھی۔
6۔ نمازاورقرآن سےمحبت ہی صحابہ کرام کاامتیازوشرف تھا۔
1۔ اس حدیث سےمعلوم ہواکہ زخم سےخون بہےتواس سےوضونہیں ٹوٹتااورنہ نماز فاسدہوتی ہے۔ جولوگ کی بہنےسےوضو کےٹوٹ جانےکےقائل ہیں‘وہ ایک توحیض اوراستحاضے کےخون سےاورنکسیرکی بابت روایات سےاستدلال کرتےہیں جن میں نکسیرپھوٹنےکوبھی ناقض وضوبتلایاگیاہے۔ حالانکہ حیض یا استحاضےکےخون کی حثییت عا م زخم سےبہنےوالےخون سےیکسرمختلف ہے۔ اس لیے کہ ان کےتواحکام ہی مختلف ہیں۔ علاوہ ازیں وہ خون[سبیلین]’’شرم گاہوں‘‘سےنکلتاہےجوبالاتفاق ناقض وضوہے۔ جب کہ زخموں سےنکلنےوالےخون کی یہ حثییت نہیں۔ اس لیے صحابہ کرامﷺجنگوں میں زخمی ہوتےرہےاوراسی حالت میں وہ نمازیں بھی پڑھتےرہے،لیکن رسول اللہ ﷺنےزخمی صحابہ کونماز پڑھنےسےمنع نہیں فرمایا۔ جواس بات کی دلیل ہےکہ عام زخموں سےنکلنےخون ناقض وضونہیں ہے۔علاوہ ازیں نکسیرسےوضوکرنےوالی روایات سےبھی استدلال کیاجاتاہےجوکہ سب کی سب ضعیف اورناقابل حجت ہیں۔(تفصیل کےلیےدیکھیں :عون المعبود)
2۔ غزوہ ذات الرقاع امام بخاری کی ترتیب کےمطابق خیبرکےبعدہواتھا۔
3۔اس کی وجہ تسمیہ ایک تویہ ہےکہ اس موقع پرمجاہدین نےاپنےپاؤں زخمی ہونےکےباعث پٹیاں باندھی تھیں۔ علاوہ ازیں بھی کچھ وجوہ بیان کی جاتی ہیں۔
4۔ جہاد میں بالخصوص اوردیگرمواقع پربالعموم پہریداری کاانتظام توکل کےخلاف نہیں بلکہ مسنون اورحکمت جنگ کاایک لازمی حصہ ہے۔
5۔ مجاہدین اسلام دوران جہادمیں بھی اپنےوقت کوقیمتی اعمال میں صرف کرتےتھےجیسےکہ اس انصاری نےپہریداری کےدوران نماز اورتلاوت قرآن شروع کردی اوروہ سورت‘جویہ مجاہدپڑھ رہاتھا‘سورہ کہف تھی۔
6۔ نمازاورقرآن سےمحبت ہی صحابہ کرام کاامتیازوشرف تھا۔