Book - حدیث 1960

كِتَابُ الْمَنَاسِكِ بَابُ الصَّلَاةِ بِمِنًى صحيح دون حديث معاوية بن قرة حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ أَنَّ أَبَا مُعَاوِيَةَ وَحَفْصَ بْنَ غِيَاثٍ حَدَّثَاهُ وَحَدِيثُ أَبِي مُعَاوِيَةَ أَتَمُّ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ صَلَّى عُثْمَانُ بِمِنًى أَرْبَعًا فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَتَيْنِ وَمَعَ أَبِي بَكْرٍ رَكْعَتَيْنِ وَمَعَ عُمَرَ رَكْعَتَيْنِ زَادَ عَنْ حَفْصٍ وَمَعَ عُثْمَانَ صَدْرًا مِنْ إِمَارَتِهِ ثُمَّ أَتَمَّهَا زَادَ مِنْ هَا هُنَا عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ ثُمَّ تَفَرَّقَتْ بِكُمْ الطُّرُقُ فَلَوَدِدْتُ أَنْ لِي مِنْ أَرْبَعِ رَكَعَاتٍ رَكْعَتَيْنِ مُتَقَبَّلَتَيْنِ قَالَ الْأَعْمَشُ فَحَدَّثَنِي مُعَاوِيَةَ بْنُ قُرَّةَ عَنْ أَشْيَاخِهِ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ صَلَّى أَرْبَعًا قَالَ فَقِيلَ لَهُ عِبْتَ عَلَى عُثْمَانَ ثُمَّ صَلَّيْتُ أَرْبَعًا قَالَ الْخِلَافُ شَرٌّ

ترجمہ Book - حدیث 1960

کتاب: اعمال حج اور اس کے احکام و مسائل باب: منیٰ میں نمازیں ( قصر یا اتمام ) جناب عبدالرحمٰن بن یزید نے بیان کیا کہ سیدنا عثمان ؓ نے منیٰ میں چار رکعتیں پڑھیں تو عبداللہ بن مسعود ؓ نے کہا : میں نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ ابوبکر ؓ کے ساتھ اور عمر ؓ کے ساتھ دو دو رکعتیں ( قصر ) پڑھی ہیں ۔ ( مسدد نے ) حفص بن غیاث سے مزید یہ بھی کہا : اور عثمان ؓ کے ساتھ بھی ، کہ وہ ابتدائی دور خلافت میں ( قصر کرتے رہے ) پھر آخر میں وہ پوری پڑھنے لگے تھے ۔ ( مسدد نے ) یہاں سے ابومعاویہ سے یہ اضافہ کیا کہ ( ابن مسعود ؓ نے کہا ) پھر تمہاری راہیں مختلف ہو گئیں اور مجھے دو رکعتیں جو ( اﷲ کے ہاں ) قبول ہو جائیں چار رکعتوں سے بہتر معلوم ہوتی ہیں ۔ اعمش نے کہا : مجھے معاویہ بن قرہ نے اپنے بزرگوں ( اساتذہ ) سے بیان کیا کہ عبداللہ بن مسعود ؓ نے بھی چار رکعتیں پڑھیں تو ان سے کہا گیا کہ آپ عثمان ؓ پر عیب لگاتے ہیں پھر بھی چار پڑھتے ہیں ؟ کہنے لگے اختلاف کرنا برا کام ہے ۔
تشریح : اس روایت میں حضرت عثمان کا یہ عمل منقول ہے کہ انہوں نے اپنی خلافت میں ( ابتدائی چھ سال کے بعد) منی ٰ میں قصر کی بجائے پوری چار رکعت پڑھنی شروع کر دی تھیں ۔ اس کی مختلف وجوہات بیان کی گئی ہیں ، لیکن اصل بات یہ ہے کہ انہوں نے محض جواز کی بنیاد پر پوری نماز پڑھی تھی ، اسی لیے پہلے چھ سال تک وہ قصر ہی کرتے رہے تھے ۔ اور اسی جواز ہی کی وجہ سے حضرت عبد اللہ بن مسعود نے بھی حضرت عثمان کی متابعت میں پوری نماز پڑھ لی ، اور اس میں اختلاف کرنے کو پسند نہیں کیا ۔ حالانکہ وہ خود بیان کر رہے ہیں کہ اس سے قبل وہ قصر کرتے رہے ۔ اگر پوری نماز پڑھنے کا جواز نہ ہوتا تو یقیناً اس سے اختلاف کرتے اور اختلاف کو برا کام نہ کہتے کیونکہ جس چیز کا جواز ہی نہ ہو اس سے تواختلاف کرنا ضروری ہے اس اختلاف کو تو کسی صورت میں برا کام نہیں کہا جا سکتا ۔ تاہم مسافر کے لیے قصر اور اتمام دونوں باتوں کے جائز سمجھنے کے باوجود وہ ڈر تے تھے کہ حضرت عثمان کی متابعت میں انہوں نے جو چار رکعتیں پڑھی ہیں کہیں وہ عند اللہ نامقبول نہ ہوں اس لیے اللہ کی طرف سے اگر دورکعتیں بھی مقبول ہو جائیں تو بڑی بات ہے بے شک چاروں رکعتیں مقبول نہ ہوں ۔ ان کی یہ بات خشیت الہی اور جذبہ اتباع سنت کی مظہر ہے جن سے صحابہ کرام متصف تھے ۔ اس روایت میں حضرت عثمان کا یہ عمل منقول ہے کہ انہوں نے اپنی خلافت میں ( ابتدائی چھ سال کے بعد) منی ٰ میں قصر کی بجائے پوری چار رکعت پڑھنی شروع کر دی تھیں ۔ اس کی مختلف وجوہات بیان کی گئی ہیں ، لیکن اصل بات یہ ہے کہ انہوں نے محض جواز کی بنیاد پر پوری نماز پڑھی تھی ، اسی لیے پہلے چھ سال تک وہ قصر ہی کرتے رہے تھے ۔ اور اسی جواز ہی کی وجہ سے حضرت عبد اللہ بن مسعود نے بھی حضرت عثمان کی متابعت میں پوری نماز پڑھ لی ، اور اس میں اختلاف کرنے کو پسند نہیں کیا ۔ حالانکہ وہ خود بیان کر رہے ہیں کہ اس سے قبل وہ قصر کرتے رہے ۔ اگر پوری نماز پڑھنے کا جواز نہ ہوتا تو یقیناً اس سے اختلاف کرتے اور اختلاف کو برا کام نہ کہتے کیونکہ جس چیز کا جواز ہی نہ ہو اس سے تواختلاف کرنا ضروری ہے اس اختلاف کو تو کسی صورت میں برا کام نہیں کہا جا سکتا ۔ تاہم مسافر کے لیے قصر اور اتمام دونوں باتوں کے جائز سمجھنے کے باوجود وہ ڈر تے تھے کہ حضرت عثمان کی متابعت میں انہوں نے جو چار رکعتیں پڑھی ہیں کہیں وہ عند اللہ نامقبول نہ ہوں اس لیے اللہ کی طرف سے اگر دورکعتیں بھی مقبول ہو جائیں تو بڑی بات ہے بے شک چاروں رکعتیں مقبول نہ ہوں ۔ ان کی یہ بات خشیت الہی اور جذبہ اتباع سنت کی مظہر ہے جن سے صحابہ کرام متصف تھے ۔