Book - حدیث 1813

كِتَابُ الْمَنَاسِكِ بَابُ كَيْفَ التَّلْبِيَةُ صحیح حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا جَعْفَرٌ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ أَهَلَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ التَّلْبِيَةَ مِثْلَ حَدِيثِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ وَالنَّاسُ يَزِيدُونَ ذَا الْمَعَارِجِ وَنَحْوَهُ مِنْ الْكَلَامِ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْمَعُ فَلَا يَقُولُ لَهُمْ شَيْئًا

ترجمہ Book - حدیث 1813

کتاب: اعمال حج اور اس کے احکام و مسائل باب: تلبیہ کیسے کہے؟ سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے احرام باندھا اور تلبیہ پڑھا ۔ اور سیدنا ابن عمر ؓ کی روایت کی مانند تلبیہ کے الفاظ بیان کیے ۔ کہا کہ لوگ «ذا المعارج» اور اس طرح الفاظ زیادہ کرتے تھے ۔ نبی کریم ﷺ انہیں سنتے اور انہیں کچھ نہ کہتے تھے ( «ذا المعارج» یعنی اے اللہ بلندیوں والے اور انعامات کے مالک ! ) ۔
تشریح : (1)حج اور عمرہ میں تلبیہ کہناسنت مؤکدہ ہے اگر کوئی اسے ترک کر دے گا تو سنت کے اجر و ثواب سےمحروم رہے گا ۔جبکہ بعض ائمہ اسے واجب کہتے ہیں ۔اسی لیے اس کے ترک پر ان کےنزدیک دم (قربانی )واجب ہے ۔تاہم یہ دوسرا موقف صحیح نہیں لگتا اس لیے کہ ترک تلبیہ سے کسی رکن کاترک لازم نہیں آتا اس لیے اوکان حج کی ادائیگی تلبیے کے قائم مقام ہو جائے گی ۔تلبیہ کے الفاظ میں افضل یہی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے اپنے الفاظ ہی پر اکتفا واقتصار کیا جائے کیونکہ آپ نے انہی ب‎پر مداو مت اختیار فرمائی ہے ۔ تاہم اگر کوئی (صحیح المعنی الفاظ کا) اضافہ کرے تو بھی مباح ہے کیونکہ نبی ﷺ نے بعض صحابہ کو مختلف الفاظ سے تلبیہ پکارتے سناتو آپ خاموش رہے اور انکار نہیں فرمایا ۔(عون المعبود) (2) یہ جلیل الشان کلمہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کی تمام انواع پر مشتمل ہے ۔یعنی توحید الوہیت توحید ربوبیت اورتوحید اسماء و صفات ۔اور بندہ اس کے تکرار سےاپنی عبدیت کا اظہار کرتا ہے ۔ (1)حج اور عمرہ میں تلبیہ کہناسنت مؤکدہ ہے اگر کوئی اسے ترک کر دے گا تو سنت کے اجر و ثواب سےمحروم رہے گا ۔جبکہ بعض ائمہ اسے واجب کہتے ہیں ۔اسی لیے اس کے ترک پر ان کےنزدیک دم (قربانی )واجب ہے ۔تاہم یہ دوسرا موقف صحیح نہیں لگتا اس لیے کہ ترک تلبیہ سے کسی رکن کاترک لازم نہیں آتا اس لیے اوکان حج کی ادائیگی تلبیے کے قائم مقام ہو جائے گی ۔تلبیہ کے الفاظ میں افضل یہی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے اپنے الفاظ ہی پر اکتفا واقتصار کیا جائے کیونکہ آپ نے انہی ب‎پر مداو مت اختیار فرمائی ہے ۔ تاہم اگر کوئی (صحیح المعنی الفاظ کا) اضافہ کرے تو بھی مباح ہے کیونکہ نبی ﷺ نے بعض صحابہ کو مختلف الفاظ سے تلبیہ پکارتے سناتو آپ خاموش رہے اور انکار نہیں فرمایا ۔(عون المعبود) (2) یہ جلیل الشان کلمہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کی تمام انواع پر مشتمل ہے ۔یعنی توحید الوہیت توحید ربوبیت اورتوحید اسماء و صفات ۔اور بندہ اس کے تکرار سےاپنی عبدیت کا اظہار کرتا ہے ۔