Book - حدیث 1789

كِتَابُ الْمَنَاسِكِ بَابُ فِي إِفْرَادِ الْحَجِّ صحیح حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ حَدَّثَنَا حَبِيبٌ يَعْنِي الْمُعَلِّمَ عَنْ عَطَاءٍ حَدَّثَنِي جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَهَلَّ هُوَ وَأَصْحَابُهُ بِالْحَجِّ وَلَيْسَ مَعَ أَحَدٍ مِنْهُمْ يَوْمَئِذٍ هَدْيٌ إِلَّا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَطَلْحَةَ وَكَانَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَدِمَ مِنْ الْيَمَنِ وَمَعَهُ الْهَدْيُ فَقَالَ أَهْلَلْتُ بِمَا أَهَلَّ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ أَصْحَابَهُ أَنْ يَجْعَلُوهَا عُمْرَةً يَطُوفُوا ثُمَّ يُقَصِّرُوا وَيُحِلُّوا إِلَّا مَنْ كَانَ مَعَهُ الْهَدْيُ فَقَالُوا أَنَنْطَلِقُ إِلَى مِنًى وَذُكُورُنَا تَقْطُرُ فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَوْ أَنِّي اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِي مَا اسْتَدْبَرْتُ مَا أَهْدَيْتُ وَلَوْلَا أَنَّ مَعِي الْهَدْيَ لَأَحْلَلْتُ

ترجمہ Book - حدیث 1789

کتاب: اعمال حج اور اس کے احکام و مسائل باب: حج افراد کے احکام و مسائل سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ نے حج کا احرام باندھا ۔ اس دن نبی ﷺ اور طلحہ ؓ کے علاوہ کسی کے پاس قربانی نہ تھی ۔ اور علی ؓ یمن سے آئے تھے اور وہ اپنے ساتھ قربانیاں لائے تھے ۔ پس انہوں نے اس طرح نیت کی تھی : میں اسی طرح احرام باندھتا ہوں جیسے کہ رسول اللہ ﷺ نے احرام باندھا ہے ۔ اور آپ نے اپنے صحابہ ؓم کو حکم دیا تھا کہ اپنے احرام کو عمرہ کا احرام بنا لیں ‘ طواف کریں ( صفا مروہ کی سعی بھی کریں ) پھر بال کٹوا کر حلال ہو جائیں ‘ سوائے اس کے جس کے ساتھ قربانی ہو ۔ کچھ لوگوں نے کہا : تو کیا ہم منیٰ کو اس حالت میں جائیں گے کہ ہمارے اعضائے تناسل منی ٹپکا رہے ہوں گے ؟ رسول اللہ ﷺ کو یہ بات پہنچی تو آپ نے فرمایا ” اگر مجھے یہ بات پہلے معلوم ہوتی جو بعد میں معلوم ہوئی تو میں قربانی ساتھ نہ لاتا اور اگر میرے ساتھ قربانی نہ ہوتی تو میں ( بھی ) حلال ہو جاتا ۔ “
تشریح : (1)صحابہ کرام خوب سمجھتے تھے کہ دین و شریعت رسول اللہ ﷺ کی اطاعت ا ور پیروی کانام ہے ۔ اسی لیے حضرت علی نے احرام کی نیت میں یہ کہا کہ میرا احرام اور میری نیت وہی ہے جو رسول اللہ ﷺ کی ہے ۔ (2)اور دوسری بات (کہ ہم منی کو اس حالت میں جائیں ......)کہنے کی وجہ یہ تھی کہ عبادت چونکہ انسان سے زہد و رغبت الی اللہ کا تقاضا کرتی ہے اور اعمال حج شروع ہونےمیں دو دن باقی تھے تو انہیں کامل حلت کچھ عجیب سی لگی ۔ نیز رسول اللہ ﷺ خود بھی تو حلال نہیں ہوئے تھے ۔ او روہ رسول اللہ ﷺ کی پیروی کے شائق تھے ۔ لیکن رسول اللہ ﷺ نے اپنی مجبوری کی وضاحت کرکے صحابہ کرام کا اشکال دور فرما دیا ۔ (1)صحابہ کرام خوب سمجھتے تھے کہ دین و شریعت رسول اللہ ﷺ کی اطاعت ا ور پیروی کانام ہے ۔ اسی لیے حضرت علی نے احرام کی نیت میں یہ کہا کہ میرا احرام اور میری نیت وہی ہے جو رسول اللہ ﷺ کی ہے ۔ (2)اور دوسری بات (کہ ہم منی کو اس حالت میں جائیں ......)کہنے کی وجہ یہ تھی کہ عبادت چونکہ انسان سے زہد و رغبت الی اللہ کا تقاضا کرتی ہے اور اعمال حج شروع ہونےمیں دو دن باقی تھے تو انہیں کامل حلت کچھ عجیب سی لگی ۔ نیز رسول اللہ ﷺ خود بھی تو حلال نہیں ہوئے تھے ۔ او روہ رسول اللہ ﷺ کی پیروی کے شائق تھے ۔ لیکن رسول اللہ ﷺ نے اپنی مجبوری کی وضاحت کرکے صحابہ کرام کا اشکال دور فرما دیا ۔