Book - حدیث 1777

كِتَابُ الْمَنَاسِكِ بَابُ فِي إِفْرَادِ الْحَجِّ صحیح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ الْقَعْنَبِيُّ حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَفْرَدَ الْحَجَّ

ترجمہ Book - حدیث 1777

کتاب: اعمال حج اور اس کے احکام و مسائل باب: حج افراد کے احکام و مسائل ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حج افراد کیا تھا ۔
تشریح : (1)حج کے لیے احرم اورنیت کے تین انداز مشروع ہیں :ایک یہ کہ انسان احرام باندھتے ہوئے صرف اور صرف حج کی نیت کرے ۔ اس بصورت میں انسان اعمال حج مکمل ہونے تک احرام ہی میں رہتا ہے ۔اسے حج افراد (ہمزہ کے کسرہ کے ساتھ ) کہتے ہیں یعنی مفرد حج ۔دوسری صورت یہ ہے کہ حج اور عمرہ کی اکٹھی نیت ہو ۔ اس صورت میں حاجی پہلے عمر ہ کرتاہے اس کے بعد احرام کی حالت میں رہتا ہے یہاں تک کہ حج کے اعمال پورے کر لے ۔ اس کو حج قران ( قاف کی کسرہ کے ساتھ ) کہتے ہیں یعنی حج اور عمرے کو ملا کر ادا کیا ۔ تیسری صورت یہ ہے کہ حاجی پہلے عمرہ کی نیت سے احرام باندھے ۔مکہ پہنچ کر عمرہ کےاعمال مکمل کرکے حلال ہوجائے اور پھر 8ذوالحجہ کو دوبارہ حج کے لیے احرام باندھے اور حج کے اعمال پورے کرے ۔ اس نوعیت کو حج تمتع کہتے ہیں یعنی ایک ہی سفر میں حج کے ساتھ عمرے کا فائدہ بھی حاصل کر لیا ۔سب سے افضل حج تمتع ہی ہے ۔اگر قربانی ساتھ لے کر جائے تو قران ہو گا ۔ او رحج افراد بھی ہر طرح سے جائز ہے ۔(قربانی سمیت یا قربانی کے بغیر )رسول اللہﷺ کا حج قران تھا جبکہ صحابہ میں افراج والے بھی تھے اور تمتع والے بھی۔(2)اس معنی کی احادیث میں نبی ﷺ کے ابتدائے عمل کا بیان ہے ۔ قران کی نیت آپ نے بعد میں فرمائی تھی ۔کچھ محدثین اس طرح کہتے ہیں کہ آپ شروع ہی سے قارن تھے ۔مگر چونکہ [قارن ] کو اجازت ہوتی ہے کہ کسی وقت [لبیک بحجة] کسی وقت [لبیک تعمرۃ ] اور کسی وقت [لبیک بحجة و عمرة ] کہے اس لیے صحابہ کرام نے نبیﷺ کی زبان سے جو سنا بیان کیا ۔ اس میں تعارض والی کوئی بات نہیں۔(مرعاۃ المفاتیح –شرح حدیث :2569) (1)حج کے لیے احرم اورنیت کے تین انداز مشروع ہیں :ایک یہ کہ انسان احرام باندھتے ہوئے صرف اور صرف حج کی نیت کرے ۔ اس بصورت میں انسان اعمال حج مکمل ہونے تک احرام ہی میں رہتا ہے ۔اسے حج افراد (ہمزہ کے کسرہ کے ساتھ ) کہتے ہیں یعنی مفرد حج ۔دوسری صورت یہ ہے کہ حج اور عمرہ کی اکٹھی نیت ہو ۔ اس صورت میں حاجی پہلے عمر ہ کرتاہے اس کے بعد احرام کی حالت میں رہتا ہے یہاں تک کہ حج کے اعمال پورے کر لے ۔ اس کو حج قران ( قاف کی کسرہ کے ساتھ ) کہتے ہیں یعنی حج اور عمرے کو ملا کر ادا کیا ۔ تیسری صورت یہ ہے کہ حاجی پہلے عمرہ کی نیت سے احرام باندھے ۔مکہ پہنچ کر عمرہ کےاعمال مکمل کرکے حلال ہوجائے اور پھر 8ذوالحجہ کو دوبارہ حج کے لیے احرام باندھے اور حج کے اعمال پورے کرے ۔ اس نوعیت کو حج تمتع کہتے ہیں یعنی ایک ہی سفر میں حج کے ساتھ عمرے کا فائدہ بھی حاصل کر لیا ۔سب سے افضل حج تمتع ہی ہے ۔اگر قربانی ساتھ لے کر جائے تو قران ہو گا ۔ او رحج افراد بھی ہر طرح سے جائز ہے ۔(قربانی سمیت یا قربانی کے بغیر )رسول اللہﷺ کا حج قران تھا جبکہ صحابہ میں افراج والے بھی تھے اور تمتع والے بھی۔(2)اس معنی کی احادیث میں نبی ﷺ کے ابتدائے عمل کا بیان ہے ۔ قران کی نیت آپ نے بعد میں فرمائی تھی ۔کچھ محدثین اس طرح کہتے ہیں کہ آپ شروع ہی سے قارن تھے ۔مگر چونکہ [قارن ] کو اجازت ہوتی ہے کہ کسی وقت [لبیک بحجة] کسی وقت [لبیک تعمرۃ ] اور کسی وقت [لبیک بحجة و عمرة ] کہے اس لیے صحابہ کرام نے نبیﷺ کی زبان سے جو سنا بیان کیا ۔ اس میں تعارض والی کوئی بات نہیں۔(مرعاۃ المفاتیح –شرح حدیث :2569)