Book - حدیث 1705

كِتَابُ اللُّقَطَةِ بَابُ التَّعْرِيفِ بِاللُّقَطَةِ صحیح حَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِي مَالِكٌ بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ زَادَ سِقَاؤُهَا تَرِدُ الْمَاءَ وَتَأْكُلُ الشَّجَرَ وَلَمْ يَقُلْ خُذْهَا فِي ضَالَّةِ الشَّاءِ وَقَالَ فِي اللُّقَطَةِ عَرِّفْهَا سَنَةً فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا وَإِلَّا فَشَأْنُكَ بِهَا وَلَمْ يَذْكُرْ اسْتَنْفِقْ قَالَ أَبُو دَاوُد رَوَاهُ الثَّوْرِيُّ وَسُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ وَحَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ رَبِيعَةَ مِثْلَهُ لَمْ يَقُولُوا خُذْهَا

ترجمہ Book - حدیث 1705

کتاب: گری پڑی گمشدہ چیزوں سے متعلق مسائل باب: گری پڑی چیز اٹھائے تو اس کا اعلان کرنے کا حکم جناب مالک نے اس حدیث کو اسی سند سے اسی کے ہم معنی روایت کیا ۔ اور مزید کہا : ” ( اس کے ساتھ ) اس کا مشکیزہ ہے ، وہ پانی پر پہنچ کر پانی پی لے گا اور جھاڑیاں کھا کر گزارہ کر لے گا ۔ “ اور گمشدہ بکری کے سلسلے میں «خذها» ” اسے لے لو “ کے لفظ روایت نہیں کیے اور گری پڑی چیز «لقطة» کے بارے میں فرمایا ” ایک سال تک اس کا اعلان کرو ۔ پھر اگر اس کا مالک آ جائے ( تو بہتر ) ورنہ تم جانو ( یعنی اس کے مالک بن جاؤ ) “ اور ” خرچ کر لینے “ کا ذکر نہیں کیا ۔ امام ابوداؤد ؓ نے کہا : اسے ثوری ، سلیمان بن بلال اور حماد بن سلمہ نے ربیعہ سے اسی کے مثل روایت کیا اور انہوں نے «خذها» کا لفظ نہیں کہا ۔
تشریح : (1)بکری جیسا ضعیف جانور جو زیادہ بھوک پیاس برداشت نہیں کر سکتا اور درندوں وغیرہ سے دفاع نہیں کر سکتا اگر اسے قبضے میں نہ لیا جائے تو ضائع ہو جائے گا لہذا یہ کسی طرح مناسب نہیں کہ اسے چھوڑا جائے مگر اونٹ کامعاملہ اس سے مختلف ہے اس لیے جائز نہیں کہ انسان اس کو اپنے قبضے میں لے لے ۔الایہ کہ اندیشہ ہو کہ فاسق یا چور ڈاکو وغیرہ اڑالے جائیں گے یا یہ از خود دشمنوں کے علاقے میں چلا جائے گا تو محفوظ کر لینا زیادہ بہتر ہے ۔بشرطیکہ ظن غالب یہ ہو کہ یہ جانور کسی مسلمان ہی کا ہے۔والله اعلم .(2)اس روایت میں راویوں نے [خذها] اسے لے لو اور [استنفق ] اس سے فائدہ اٹھاؤ کے الفاظ بیان نہیں کیے جبکہ یہ الفاظ صحیح بخاری میں موجود ہیں۔دیکھیے (صحیح البخاری اللقطة باب ضالة الغنم حدیث :2428) (1)بکری جیسا ضعیف جانور جو زیادہ بھوک پیاس برداشت نہیں کر سکتا اور درندوں وغیرہ سے دفاع نہیں کر سکتا اگر اسے قبضے میں نہ لیا جائے تو ضائع ہو جائے گا لہذا یہ کسی طرح مناسب نہیں کہ اسے چھوڑا جائے مگر اونٹ کامعاملہ اس سے مختلف ہے اس لیے جائز نہیں کہ انسان اس کو اپنے قبضے میں لے لے ۔الایہ کہ اندیشہ ہو کہ فاسق یا چور ڈاکو وغیرہ اڑالے جائیں گے یا یہ از خود دشمنوں کے علاقے میں چلا جائے گا تو محفوظ کر لینا زیادہ بہتر ہے ۔بشرطیکہ ظن غالب یہ ہو کہ یہ جانور کسی مسلمان ہی کا ہے۔والله اعلم .(2)اس روایت میں راویوں نے [خذها] اسے لے لو اور [استنفق ] اس سے فائدہ اٹھاؤ کے الفاظ بیان نہیں کیے جبکہ یہ الفاظ صحیح بخاری میں موجود ہیں۔دیکھیے (صحیح البخاری اللقطة باب ضالة الغنم حدیث :2428)