Book - حدیث 1692

كِتَابُ الزَّكَاةِ بَابُ فِي صِلَةِ الرَّحِمِ حسن حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَقَ عَنْ وَهْبِ بْنِ جَابِرٍ الْخَيْوَانِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَفَى بِالْمَرْءِ إِثْمًا أَنْ يُضَيِّعَ مَنْ يَقُوتُ

ترجمہ Book - حدیث 1692

کتاب: زکوۃ کے احکام و مسائل باب: رشتے ناتے والوں کے ساتھ میل جول اور حسن سلوک سیدنا عبداللہ بن عمرو ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” انسان کے گناہ گار ہونے کے لیے یہ ( عمل ) کافی ہے کہ جن کے رزق و اخراجات کا یہ ذمہ دار ہو ، انہیں ضائع کر دے ۔“
تشریح : یعنی اپنے بیوی بچے جن کے اخراجات اس کے زمے ہیں یا وہ افراد جو اس کے زیر کفالت ہوں ۔مثلاً والدین یادیگر عزیز یا نوکر خادم اور اس کے زیر انتظام ادارے کے ملازمین جنھیں یہ تنخواہ دیتا ہو۔اس قسم کے متعلقین کو ان کے مالی حقوق نہ دینا یا کم دینا یا بلاوجہ تاخیر کر کے دینایا ان کو چھوڑ کر دوسروں پر صدقہ کرتے پھرنا اور ان کا خیال نہ رکھنا انہیں ضائع کرنے کے مترادف ہے۔اور گناہ ہے۔انسانوں کے علاوہ زیر ملکیت جانوروں اور پرندوں کے حقوق مارنے پر بھی یہی وعید ہے۔اس معنی ومفہوم کے ساتھ ساتھ اس سے مراد یہ بھی ہوسکتا ہے۔کہ انسان جس کی طرف سے اس کو رزق وخرچ مل رہا ہو اس کو ضائع کردے۔۔۔یعنی اگر وہ خدمت کا حقداار ہے۔تو اس کی خدمت نہ کرے۔مثلا ً بیوی کے لئے شوہر اور اولاد کےلئے باپ۔۔۔یا اس کا احسان مند نہ ہو۔ مثلا بھائی کے لئے بھائی یا خوامخواہ اس میں عیب جوئی کرتے رہنا۔کوئی تقصیر ہوجائے تو درگزر نہ کرنا وغیرہ کہ ان اسباب سے انسان کا وسیلہ رزق ختم ہوجائے یا الفت ومودت اور صلہ رحمی کےروابط ختم ہوجایئں۔ اور اسے ضائع کر بیٹھے تو یہ گناہ کی بات ہے۔رسول اللہ ﷺفدا امی وابی کے اس قسم کے ارشادات آپ کے صاحب جوامع الکلم ہونے کی دلیل ہیں۔ (اللهم صل وبارك وسلم عليه ) یعنی اپنے بیوی بچے جن کے اخراجات اس کے زمے ہیں یا وہ افراد جو اس کے زیر کفالت ہوں ۔مثلاً والدین یادیگر عزیز یا نوکر خادم اور اس کے زیر انتظام ادارے کے ملازمین جنھیں یہ تنخواہ دیتا ہو۔اس قسم کے متعلقین کو ان کے مالی حقوق نہ دینا یا کم دینا یا بلاوجہ تاخیر کر کے دینایا ان کو چھوڑ کر دوسروں پر صدقہ کرتے پھرنا اور ان کا خیال نہ رکھنا انہیں ضائع کرنے کے مترادف ہے۔اور گناہ ہے۔انسانوں کے علاوہ زیر ملکیت جانوروں اور پرندوں کے حقوق مارنے پر بھی یہی وعید ہے۔اس معنی ومفہوم کے ساتھ ساتھ اس سے مراد یہ بھی ہوسکتا ہے۔کہ انسان جس کی طرف سے اس کو رزق وخرچ مل رہا ہو اس کو ضائع کردے۔۔۔یعنی اگر وہ خدمت کا حقداار ہے۔تو اس کی خدمت نہ کرے۔مثلا ً بیوی کے لئے شوہر اور اولاد کےلئے باپ۔۔۔یا اس کا احسان مند نہ ہو۔ مثلا بھائی کے لئے بھائی یا خوامخواہ اس میں عیب جوئی کرتے رہنا۔کوئی تقصیر ہوجائے تو درگزر نہ کرنا وغیرہ کہ ان اسباب سے انسان کا وسیلہ رزق ختم ہوجائے یا الفت ومودت اور صلہ رحمی کےروابط ختم ہوجایئں۔ اور اسے ضائع کر بیٹھے تو یہ گناہ کی بات ہے۔رسول اللہ ﷺفدا امی وابی کے اس قسم کے ارشادات آپ کے صاحب جوامع الکلم ہونے کی دلیل ہیں۔ (اللهم صل وبارك وسلم عليه )