كِتَابُ الزَّكَاةِ بَابُ فِي حُقُوقِ الْمَالِ حسن حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِي النَّجُودِ عَنْ شَقِيقٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ كُنَّا نَعُدُّ الْمَاعُونَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَوَرَ الدَّلْوِ وَالْقِدْرِ
کتاب: زکوۃ کے احکام و مسائل
باب: مال کے حقوق کا بیان
سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں «الماعون» سے مراد یہ لیتے تھے کہ کسی کو استعمال کی غرض سے عاریتاً ڈول دے دیا یا ہنڈیا دے دی ۔
تشریح :
1۔سورت الماعون میں ہے۔(فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّينَ ﴿٤﴾ الَّذِينَ هُمْ عَن صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ ﴿٥﴾ الَّذِينَ هُمْ يُرَاءُونَ ﴿٦﴾ وَيَمْنَعُونَ الْمَاعُونَ) ہلاکت ہے ان نمازیوں کےلئے جو اپنی نمازوں سے غافل ہیں۔ دکھلاوا کرتے ہیں اور برتنے کی چیزیں نہیں دیتے۔ یقیناً عام استعمال کی چیزیں لینا دینا معاشرتی زندگی کا لازمہ ہیں۔ اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین اسے مال کا شرعی حق سمجھتے تھے۔2۔کھلے دل سے عام چیزیں عاریتاًدے دینا عمدہ اخلاق کی دلیل ہے۔مگر اس میں یہ نہیں کہ کوئی مانگے تانگے ہی سے گزر بسر شروع کردے۔ یہ سوچ ار عمل از حد پستی کا غماز ہے۔ہاں کبھی کوئی ضرورت پڑے تو عیب نہیں۔
1۔سورت الماعون میں ہے۔(فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّينَ ﴿٤﴾ الَّذِينَ هُمْ عَن صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ ﴿٥﴾ الَّذِينَ هُمْ يُرَاءُونَ ﴿٦﴾ وَيَمْنَعُونَ الْمَاعُونَ) ہلاکت ہے ان نمازیوں کےلئے جو اپنی نمازوں سے غافل ہیں۔ دکھلاوا کرتے ہیں اور برتنے کی چیزیں نہیں دیتے۔ یقیناً عام استعمال کی چیزیں لینا دینا معاشرتی زندگی کا لازمہ ہیں۔ اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین اسے مال کا شرعی حق سمجھتے تھے۔2۔کھلے دل سے عام چیزیں عاریتاًدے دینا عمدہ اخلاق کی دلیل ہے۔مگر اس میں یہ نہیں کہ کوئی مانگے تانگے ہی سے گزر بسر شروع کردے۔ یہ سوچ ار عمل از حد پستی کا غماز ہے۔ہاں کبھی کوئی ضرورت پڑے تو عیب نہیں۔