Book - حدیث 1641

كِتَابُ الزَّكَاةِ بَابُ مَا تَجُوزُ فِيهِ الْمَسْأَلَةُ ضعیف حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ عَنْ الْأَخْضَرِ بْنِ عَجْلَانَ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الْحَنَفِيِّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْأَلُهُ فَقَالَ أَمَا فِي بَيْتِكَ شَيْءٌ قَالَ بَلَى حِلْسٌ نَلْبَسُ بَعْضَهُ وَنَبْسُطُ بَعْضَهُ وَقَعْبٌ نَشْرَبُ فِيهِ مِنْ الْمَاءِ قَالَ ائْتِنِي بِهِمَا قَالَ فَأَتَاهُ بِهِمَا فَأَخَذَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ وَقَالَ مَنْ يَشْتَرِي هَذَيْنِ قَالَ رَجُلٌ أَنَا آخُذُهُمَا بِدِرْهَمٍ قَالَ مَنْ يَزِيدُ عَلَى دِرْهَمٍ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا قَالَ رَجُلٌ أَنَا آخُذُهُمَا بِدِرْهَمَيْنِ فَأَعْطَاهُمَا إِيَّاهُ وَأَخَذَ الدِّرْهَمَيْنِ وَأَعْطَاهُمَا الْأَنْصَارِيَّ وَقَالَ اشْتَرِ بِأَحَدِهِمَا طَعَامًا فَانْبِذْهُ إِلَى أَهْلِكَ وَاشْتَرِ بِالْآخَرِ قَدُومًا فَأْتِنِي بِهِ فَأَتَاهُ بِهِ فَشَدَّ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عُودًا بِيَدِهِ ثُمَّ قَالَ لَهُ اذْهَبْ فَاحْتَطِبْ وَبِعْ وَلَا أَرَيَنَّكَ خَمْسَةَ عَشَرَ يَوْمًا فَذَهَبَ الرَّجُلُ يَحْتَطِبُ وَيَبِيعُ فَجَاءَ وَقَدْ أَصَابَ عَشْرَةَ دَرَاهِمَ فَاشْتَرَى بِبَعْضِهَا ثَوْبًا وَبِبَعْضِهَا طَعَامًا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا خَيْرٌ لَكَ مِنْ أَنْ تَجِيءَ الْمَسْأَلَةُ نُكْتَةً فِي وَجْهِكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّ الْمَسْأَلَةَ لَا تَصْلُحُ إِلَّا لِثَلَاثَةٍ لِذِي فَقْرٍ مُدْقِعٍ أَوْ لِذِي غُرْمٍ مُفْظِعٍ أَوْ لِذِي دَمٍ مُوجِعٍ

ترجمہ Book - حدیث 1641

کتاب: زکوۃ کے احکام و مسائل باب: کس صورت میں سوال کرنا جائز ہے ؟ سیدنا انس بن مالک ؓ سے مروی ہے کہ ایک انصاری نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آیا وہ کچھ مانگ رہا تھا ۔ آپ نے فرمایا ” کیا تمہارے گھر میں کچھ نہیں ہے ؟ “ کہنے لگا کیوں نہیں ، ایک کملی سی ہے ، اس کا ایک حصہ اوڑھ لیتے ہیں اور کچھ بچھا لیتے ہیں اور ایک پیالہ ہے جس سے پانی پیتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا ” یہ دونوں میرے پاس لے آؤ ۔ “ چنانچہ وہ لے آیا ۔ تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں اپنے ہاتھ میں لیا اور فرمایا ” کون یہ چیزیں خریدتا ہے ؟ “ ایک شخص نے کہا : میں انہیں ایک درہم میں لیتا ہوں ۔ آپ نے فرمایا ” ایک درہم سے زیادہ کون دیتا ہے ؟ “ آپ نے دو یا تین بار فرمایا ۔ ایک ( اور ) شخص نے کہا : میں ان کے دو درہم دیتا ہوں ۔ چنانچہ آپ نے دونوں چیزیں اسے دے دیں اور دو درہم لے لیے اور وہ دونوں اس انصاری کو دے دیے اور اس سے فرمایا ” ایک درہم کا طعام خریدو اور اپنے گھر والوں کو دے آؤ اور دوسرے سے کلہاڑا خرید کر میرے پاس لے آؤ ۔ “ چنانچہ وہ لے آیا تو آپ نے اس میں اپنے دست مبارک سے دستہ ٹھونک دیا اور فرمایا ” جاؤ ! لکڑیاں کاٹو اور بیچو اور پندرہ دن تک میں تمہیں نہ دیکھوں ۔ “ چنانچہ وہ شخص چلا گیا ، لکڑیاں کاٹتا اور فروخت کرتا رہا ۔ پھر آیا اور اسے دس درہم ملے تھے ۔ کچھ کا اس نے کپڑا خریدا اور کچھ سے کھانے پینے کی چیزیں ، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” یہ اس سے بہتر ہے کہ مانگنے سے تیرے چہرے پر قیامت کے دن داغ ہوں ۔ بلاشبہ مانگنا روا نہیں ہے سوائے تین آدمیوں کے ازحد فقیر محتاج خاک نشین کے ، یا بے چینی میں مبتلا قرض دار کے ، یا دیت میں پڑے خون والے کے ( جس پر خون کی دیت لازم ہو ) ۔ “
تشریح : 1۔حکومت اسلامیہ اور رفاہی تنظیموں کوچاہیے کہ ایسے پروگرام پیش کریں۔جن سے لوگ ہنر مند بنیں اور برسر روزگار ہوں۔2۔علماء کو چاہیے کہ محنت مذدوری کی فضیلت واضح کریں۔ اور مانگنے کی ذلت اور رسوائی بتایئں۔3۔پڑھے لکھے جوانوں کا ہر حال حکومت سے اعلیٰ ملاذمتوں پر اصرار کسی طرح روا نہیں۔4۔باوقار محنت مذدوری میں کوئی عیب نہیں۔5۔مربی حضرات کو بلند نگاہ اوردور اندیش ہونا چاہیے۔اللہ نے افراد کی طبعیتیں مختلف بنائی ہیں۔ بعض کےلئے محنت مذدوری اور غنا لازمی ہوتا ہے۔اور بعض قناعت پر راضی اور مطمئن ہوتے ہیں۔لہذا ہر ایک سے بہتر کام لیاجائے۔مثلا طلب علوم شرعیہ اور اس کی دعوت واشاعت وغیرہ۔رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کسب ومحنت کی تلقین نہیں فرمائی تھی۔ بخلاف اس شخص کے جو سوال کرنے آیا تھا۔6۔نیلامی کی بیع جائز ہے۔ 1۔حکومت اسلامیہ اور رفاہی تنظیموں کوچاہیے کہ ایسے پروگرام پیش کریں۔جن سے لوگ ہنر مند بنیں اور برسر روزگار ہوں۔2۔علماء کو چاہیے کہ محنت مذدوری کی فضیلت واضح کریں۔ اور مانگنے کی ذلت اور رسوائی بتایئں۔3۔پڑھے لکھے جوانوں کا ہر حال حکومت سے اعلیٰ ملاذمتوں پر اصرار کسی طرح روا نہیں۔4۔باوقار محنت مذدوری میں کوئی عیب نہیں۔5۔مربی حضرات کو بلند نگاہ اوردور اندیش ہونا چاہیے۔اللہ نے افراد کی طبعیتیں مختلف بنائی ہیں۔ بعض کےلئے محنت مذدوری اور غنا لازمی ہوتا ہے۔اور بعض قناعت پر راضی اور مطمئن ہوتے ہیں۔لہذا ہر ایک سے بہتر کام لیاجائے۔مثلا طلب علوم شرعیہ اور اس کی دعوت واشاعت وغیرہ۔رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کسب ومحنت کی تلقین نہیں فرمائی تھی۔ بخلاف اس شخص کے جو سوال کرنے آیا تھا۔6۔نیلامی کی بیع جائز ہے۔