Book - حدیث 1627

كِتَابُ الزَّكَاةِ بَابُ مَنْ يُعْطِي مِنْ الصَّدَقَةِ وَحَدُّ الْغِنَى صحیح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ عَنْ مَالِكٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي أَسَدٍ أَنَّهُ قَالَ نَزَلْتُ أَنَا وَأَهْلِي بِبَقِيعِ الْغَرْقَدِ فَقَالَ لِي أَهْلِي اذْهَبْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلْهُ لَنَا شَيْئًا نَأْكُلُهُ فَجَعَلُوا يَذْكُرُونَ مِنْ حَاجَتِهِمْ فَذَهَبْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدْتُ عِنْدَهُ رَجُلًا يَسْأَلُهُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا أَجِدُ مَا أُعْطِيكَ فَتَوَلَّى الرَّجُلُ عَنْهُ وَهُوَ مُغْضَبٌ وَهُوَ يَقُولُ لَعَمْرِي إِنَّكَ لَتُعْطِي مَنْ شِئْتَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَغْضَبُ عَلَيَّ أَنْ لَا أَجِدَ مَا أُعْطِيهِ مَنْ سَأَلَ مِنْكُمْ وَلَهُ أُوقِيَّةٌ أَوْ عِدْلُهَا فَقَدْ سَأَلَ إِلْحَافًا قَالَ الْأَسَدِيُّ فَقُلْتُ لَلِقْحَةٌ لَنَا خَيْرٌ مِنْ أُوقِيَّةٍ وَالْأُوقِيَّةُ أَرْبَعُونَ دِرْهَمًا قَالَ فَرَجَعْتُ وَلَمْ أَسْأَلْهُ فَقَدِمَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ ذَلِكَ شَعِيرٌ وَزَبِيبٌ فَقَسَمَ لَنَا مِنْهُ أَوْ كَمَا قَالَ حَتَّى أَغْنَانَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ أَبُو دَاوُد هَكَذَا رَوَاهُ الثَّوْرِيُّ كَمَا قَالَ مَالِكٌ

ترجمہ Book - حدیث 1627

کتاب: زکوۃ کے احکام و مسائل باب: صدقہ کسے دیا جائے ؟ اور غنی ہونے کی حد کیا ہے ؟ بنو اسد کے ایک شخص سے مروی ہے اس نے کہا : میں اور میرے گھر والوں نے بقیع الغرقد ( موجودہ قبرستان مدینہ ) کے پاس پڑاؤ کیا ، تو میرے گھر والوں نے مجھ سے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس جاؤ اور آپ ﷺ سے کچھ مانگ لاؤ کہ اسے ہم کھا سکیں ، اور پھر وہ اپنی ضروریات گنوانے لگے ۔ چنانچہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ، میں نے آپ ﷺ کے ہاں ایک شخص کو پایا جو آپ ﷺ سے کچھ مانگ رہا تھا اور آپ ﷺ فر رہے تھے ” میں کوئی ایسی چیز نہیں پاتا جو تمہیں دوں ۔ “ پھر وہ آدمی پشت پھیر کر چلا گیا اور وہ ناراض تھا اور کہہ رہا تھا ۔ قسم میری عمر کی ! آپ جسے چاہتے ہیں دے دیتے ہیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” یہ اس لیے مجھ پر غصے ہو رہا ہے کہ میرے پاس کچھ نہیں ہے جو میں اسے دوں ؟ تم میں سے جب کوئی سوال کرتا ہے ، حالانکہ اس کے پاس چالیس درہم یا اس کے مساوی کچھ ہو تو اس نے چمٹ کر ( بے جا ) مانگا ہے ۔ “ اس اسدی شخص نے بیان کیا ، میں نے کہا : ہماری اونٹنی تو ایک اوقیہ سے بہت بہتر ہے ، اور ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے ، وہ کہتا ہے ۔ چنانچہ میں لوٹ آیا اور آپ ﷺ سے کچھ نہ مانگا ۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ کے پاس جو اور کشمش آ گئی تو آپ ﷺ نے اس میں سے ہمیں بھی عنایت فرمایا ، یا اسی طرح سے کہا حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں غنی کر دیا ۔ امام ابوداؤد ؓ نے کہا : ثوری نے ایسے ہی روایت کیا ہے جیسے کہ مالک نے کہا ہے ۔
تشریح : امام ابو عبید قاسم بن سلام اس حدیث کی روشنی میں غنی اور فقیر میں فرق کرتے ہیں۔کے جس کے پاس چالیس درہم یا اس کے مساوی مال موجود ہو وہ فقیر نہیں ہے اور اسے صدقہ دیناجائز نہیں بلاشبہ تقوے کا اعلیٰ معیار یہی ہے۔اگر احوال وظروف کے پیش نظر اس مقدار میں کمی بیشی ہوسکتی ہے۔مثلا ً قرآن کریم نے قصہ موسیٰ ؑ وخضرؑ میں کشتی والوں کو مساکین سے تعبیر فرمایا ہے۔(سورہ کہف) لہذا جس آدمی کی آمدنی اس کے ضروری اخراجات کا ساتھ نہ دے رہی ہو۔ اسے اللہ سے ڈرتے ہوئے خود ہی سوچنا چاہیے۔ کہ واقعی وہ مانگنے کا حق رکھتاہے یا نہیں۔2۔یہ واقعہ دلیل ہے کہ بنو اسد کا یہ شخص فطری سلامتی کے ساتھ ساتھ برکات ایمان سے بہرہ ور تھا۔اورصحبت رسول ﷺنے اس کا مزید تزکیہ کردیا تھا۔کہ باوجود سخت حاجت مند ہونے کے نبی کریمﷺ کے چند جملے سن کر محتاط ہوگیا اور سوال نہ کیا۔بلاشبہ انہی فضائل کی بناء پر یہ حضرات صحبت رسول ﷺ کے لائق تھے۔اور ہمارے سلف صالح کہلاتے ہیں۔جن کی قرآن مجید نے جا بجا مدح کی ہے۔3۔عمر اور زندگی کی قسم کھانا جائز نہیں مذکورہ بالاشخص جس نے یہ قسم کھائی تھی نیا نیا مسلمان ہوا تھااور تعلیمات اسلام سے اچھی طرح واقف نہ تھا۔ امام ابو عبید قاسم بن سلام اس حدیث کی روشنی میں غنی اور فقیر میں فرق کرتے ہیں۔کے جس کے پاس چالیس درہم یا اس کے مساوی مال موجود ہو وہ فقیر نہیں ہے اور اسے صدقہ دیناجائز نہیں بلاشبہ تقوے کا اعلیٰ معیار یہی ہے۔اگر احوال وظروف کے پیش نظر اس مقدار میں کمی بیشی ہوسکتی ہے۔مثلا ً قرآن کریم نے قصہ موسیٰ ؑ وخضرؑ میں کشتی والوں کو مساکین سے تعبیر فرمایا ہے۔(سورہ کہف) لہذا جس آدمی کی آمدنی اس کے ضروری اخراجات کا ساتھ نہ دے رہی ہو۔ اسے اللہ سے ڈرتے ہوئے خود ہی سوچنا چاہیے۔ کہ واقعی وہ مانگنے کا حق رکھتاہے یا نہیں۔2۔یہ واقعہ دلیل ہے کہ بنو اسد کا یہ شخص فطری سلامتی کے ساتھ ساتھ برکات ایمان سے بہرہ ور تھا۔اورصحبت رسول ﷺنے اس کا مزید تزکیہ کردیا تھا۔کہ باوجود سخت حاجت مند ہونے کے نبی کریمﷺ کے چند جملے سن کر محتاط ہوگیا اور سوال نہ کیا۔بلاشبہ انہی فضائل کی بناء پر یہ حضرات صحبت رسول ﷺ کے لائق تھے۔اور ہمارے سلف صالح کہلاتے ہیں۔جن کی قرآن مجید نے جا بجا مدح کی ہے۔3۔عمر اور زندگی کی قسم کھانا جائز نہیں مذکورہ بالاشخص جس نے یہ قسم کھائی تھی نیا نیا مسلمان ہوا تھااور تعلیمات اسلام سے اچھی طرح واقف نہ تھا۔