Book - حدیث 1616

كِتَابُ الزَّكَاةِ بَابُ كَمْ يُؤَدَّى فِي صَدَقَةِ الْفِطْرِ صحیح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ يَعْنِي ابْنَ قَيْسٍ، عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: كُنَّا نُخْرِجُ -إِذْ كَانَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- زَكَاةَ الْفِطْر عَنْ كُلِّ صَغِيرٍ وَكَبِيرٍ، حُرٍّ أَوْ مَمْلُوكٍ، صَاعًا مِنْ طَعَامٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ أَقِطٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ زَبِيبٍ، فَلَمْ نَزَلْ نُخْرِجُهُ حَتَّى قَدِمَ مُعَاوِيَةُ حَاجًّا أَوْ مُعْتَمِرًا، فَكَلَّمَ النَّاسَ عَلَى الْمِنْبَرِ، فَكَانَ فِيمَا كَلَّمَ بِهِ النَّاسَ، أَنْ قَالَ: إِنِّي أَرَى أَنَّ مُدَّيْنِ مِنْ سَمْرَاءِ الشَّامِ -تَعْدِلُ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، فَأَخَذَ النَّاسُ بِذَلِكَ.فَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ: فَأَمَّا أَنَا فَلَا أَزَالُ أُخْرِجُهُ أَبَدًا مَا عِشْتُ.قَالَ أَبو دَاود: رَوَاهُ ابْنُ عُلَيَّةَ وَعَبْدَةُ وَغَيْرِهِمَا عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ، عَنْ عِيَاضٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ بِمَعْنَاهُ وَذَكَرَ رَجُلٌ وَاحِدٌ فِيهِ عَنِ ابْنِ عُلَيَّةَ أَوْ صَاعًا مِنْ حِنْطَةٍ وَلَيْسَ بِمَحْفُوظٍ

ترجمہ Book - حدیث 1616

کتاب: زکوۃ کے احکام و مسائل باب: فطرانے کی مقدار سیدنا ابو سعید خدری ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ ہم میں موجود تھے تو ہم ہر چھوٹے ، بڑے ، آزاد اور غلام کی طرف سے صدقہ فطر میں طعام ، پنیر ، جو ، کھجور یا کشمش ( میں سے کسی ایک ) کا ایک صاع دیا کرتے تھے ۔ اور ہم یہ اسی طرح دیتے رہے حتیٰ کے سیدنا معاویہ ؓ حج یا عمرے کے لیے آئے اور برسر منبر لوگوں کو خطبہ دیا ۔ منجملہ اور باتوں کے انہوں نے لوگوں سے یہ بھی کہا : میں سمجھتا ہوں کہ شام کی گندم کے دو مد ( آدھا صاع ) کھجور کے ایک صاع کے برابر ہے ۔ چنانچہ لوگوں نے ان کی بات لے لی ۔ اس پر سیدنا ابو سعید خدری ؓ نے کہا : میں تو جب تک زندہ ہوں ایک صاع ہی دیتا رہوں گا ۔ امام ابوداؤد ؓ نے کہا : یہ روایت ابن علیہ اور عبدہ وغیرہ نے بسند ابن اسحٰق عن عبداللہ بن عبداللہ بن عثمان بن حکیم بن حزام عن عیاض عن ابی سعید ، اس کے ہم معنی روایت کی ہے ۔ اور اس میں ایک آدمی نے ابن علیہ کی روایت میں «أو صاعا من حنطة» ” یا ایک صاع گندم کا “ ذکر کیا ہے ‘ مگر یہ محفوظ نہیں ہے ۔
تشریح : 1۔جب صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین کی آراء میں اختلا ف ہو تو بلاشبہ وہی قول اور عمل حق اور راحج ہوگا۔جس پر دوررسالت ﷺ میں عمل ہوتا رہا۔ صدقہ فطر کے معاملے میں کچھ صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین نے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے پر عمل کرتے ہوئے آدھا صاع گندم دینا شروع کردیا تھا۔مگر کچھ نے اسے قبول نہیں کیا۔تو ان کی رائے حجت نہ ہوئی۔2۔لفظ طعام اگرچہ عام ہے۔مگر کچھ علماء اس طرف گئے ہیں کہ اس کا اطلاق گندم پر بالخصوص ہوتا ہے۔(خطابی)اس لئے گندم سے صدقہ فطر دینا ہو تو بھی ایک صاع دیاجائے۔3۔اس حدیث میں یہ دلیل بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مختلف قیمتوں کی حامل مختلف اجناس کی تعین فرمائی اور صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین بھی یہی اجناس دیتے تھے۔کہیں بھی قیمت ادا کرنے کا ارشاد نہیں ہے۔لہذا جنس کی صورت میں ادایئگی زیادہ افضل اور راحج ہے۔تینوں آئمہ اسی طرف گئے ہیں۔صرف امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ جواز قیمت کے قائل ہیں۔اور امام بخار ی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی (باب العرض فی الذکاۃ) میں یہی ثابت کیا ہے۔کہ فرض زکواۃ میں بدل جائز ہے۔اور حضرت معاز رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اہل یمن سے کہا تھا۔کہ جو اور مکئی کی بجائے کپڑے پیش کردو یہ تم پر آسان ہے۔اور یہ مدینہ میں اصحاب نبی رضوان اللہ عنہم اجمعین کے لئے مفید تر ہیں۔(صحیح بخاری کتاب الزکاۃ باب 33)علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ الیل الجرار میں عذر کی بنا پرقیمت کی ادایئگی کو جائز بتاتے ہیں۔(اور مقصد اورفائدہ کی نظر سے قیمت کونظر انداز بھی نہیں کیا جاسکتا) راحج بہرحال جنس ہی ہے۔(مرعاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ لمصابیح حدیث 1833) 1۔جب صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین کی آراء میں اختلا ف ہو تو بلاشبہ وہی قول اور عمل حق اور راحج ہوگا۔جس پر دوررسالت ﷺ میں عمل ہوتا رہا۔ صدقہ فطر کے معاملے میں کچھ صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین نے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے پر عمل کرتے ہوئے آدھا صاع گندم دینا شروع کردیا تھا۔مگر کچھ نے اسے قبول نہیں کیا۔تو ان کی رائے حجت نہ ہوئی۔2۔لفظ طعام اگرچہ عام ہے۔مگر کچھ علماء اس طرف گئے ہیں کہ اس کا اطلاق گندم پر بالخصوص ہوتا ہے۔(خطابی)اس لئے گندم سے صدقہ فطر دینا ہو تو بھی ایک صاع دیاجائے۔3۔اس حدیث میں یہ دلیل بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مختلف قیمتوں کی حامل مختلف اجناس کی تعین فرمائی اور صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین بھی یہی اجناس دیتے تھے۔کہیں بھی قیمت ادا کرنے کا ارشاد نہیں ہے۔لہذا جنس کی صورت میں ادایئگی زیادہ افضل اور راحج ہے۔تینوں آئمہ اسی طرف گئے ہیں۔صرف امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ جواز قیمت کے قائل ہیں۔اور امام بخار ی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی (باب العرض فی الذکاۃ) میں یہی ثابت کیا ہے۔کہ فرض زکواۃ میں بدل جائز ہے۔اور حضرت معاز رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اہل یمن سے کہا تھا۔کہ جو اور مکئی کی بجائے کپڑے پیش کردو یہ تم پر آسان ہے۔اور یہ مدینہ میں اصحاب نبی رضوان اللہ عنہم اجمعین کے لئے مفید تر ہیں۔(صحیح بخاری کتاب الزکاۃ باب 33)علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ الیل الجرار میں عذر کی بنا پرقیمت کی ادایئگی کو جائز بتاتے ہیں۔(اور مقصد اورفائدہ کی نظر سے قیمت کونظر انداز بھی نہیں کیا جاسکتا) راحج بہرحال جنس ہی ہے۔(مرعاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ لمصابیح حدیث 1833)