كِتَابُ الزَّكَاةِ بَابُ زَكَاةِ الْفِطْرِ حسن حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ الدِّمَشْقِيُّ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ السَّمْرَقَنْدِيُّ قَالَا حَدَّثَنَا مَرْوَانُ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ حَدَّثَنَا أَبُو يَزِيدَ الْخَوْلَانِيُّ وَكَانَ شَيْخَ صِدْقٍ وَكَانَ ابْنُ وَهْبٍ يَرْوِي عَنْهُ حَدَّثَنَا سَيَّارُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ مَحْمُودٌ الصَّدَفِيُّ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَكَاةَ الْفِطْرِ طُهْرَةً لِلصَّائِمِ مِنْ اللَّغْوِ وَالرَّفَثِ وَطُعْمَةً لِلْمَسَاكِينِ مَنْ أَدَّاهَا قَبْلَ الصَّلَاةِ فَهِيَ زَكَاةٌ مَقْبُولَةٌ وَمَنْ أَدَّاهَا بَعْدَ الصَّلَاةِ فَهِيَ صَدَقَةٌ مِنْ الصَّدَقَاتِ
کتاب: زکوۃ کے احکام و مسائل
باب: زکوٰۃ فطر کے احکام و مسائل
سیدنا ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے صدقہ فطر کو فرض قرار دیا تاکہ روزے کے لیے لغو اور بیہودہ اقوال و افعال سے پاکیزگی ہو جائے اور مسکینوں کو طعام حاصل ہو ۔ چنانچہ جس نے اسے نماز ( عید ) سے پہلے پہلے ادا کر دیا تو یہ ایسی زکوٰۃ ہے جو قبول کر لی گئی اور جس نے اسے نماز کے بعد ادا کیا تو یہ عام صدقات میں سے ایک صدقہ ہے ۔
تشریح :
1۔رسول اللہ ﷺنے نفس کے تزکیہ کی غرض سے غیر شعوری طور پر یا غلطی سے کسی بے احتیاطی کے ارتکاب کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مالی خرابی کی تطہیر کے لئے زکواۃ فرض کی اسی طرح روزے کے دوران میں سرزد ہونے والے کسی لغو کا م یا نا مناسب بات سے روزے کی تطہیر کے لئے زکواۃ الفطر کو فرض قرار دیا۔آپﷺ نے ا س کی ادایئگی کو نماز عید کی ادایئگی کےلئے نکلنے سے پہلے ضروری قرار دیا ۔اس ادایئگی کو آپﷺ نے خود اپنے الفاظ میں زکواۃ الفطر قرار دیا۔اور بعد کی ادایئگی کو عام صدقات میں سے ایک صدقہ قراردیا۔جس کے زریعے سے اصل فریضہ ادا نہیں ہوتا۔صحیح بخاری کی روایات میں بھی فطرانے کو زکواۃ الفطر اورفرض قرار دیا گیا ہے۔احادیث نبویہ میں اس بات کی صراحت کردی گئی کہ اس زکواۃ کے لئے کوئی نصاب مقرر نہیں۔ بلک ہر چھوٹے بڑے مرد عورت اور آذاد یا غلام کی طرف سے اس کی ادایئگی فرض ہے حتیٰ کہ ایک روز کے بچے کی طرف سے بھی فطرانہ دینا ضروری ہے صحیح مسلم میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں رسول اللہ ﷺ نے یہ تصریح فرمادی کہ زکواۃ الفطر مسلمانوں میں سے ہر نفس پر فرض ہے۔اور کسی جگہ اشارتاً بھی یہ نہیں فرمایا کہ ہر نفس سے وہ لوگ مستثنیٰ ہیں۔جن کے پاس دوسری زکواۃ(زکواۃ مال) کا نصاب نہ ہو۔اس لئے صاحب نصاب ہونے کی شرط جو بعض لوگوں نے محض اپنی رائے سے لگائی ہے درست نہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔دائود ظاہری کے علاوہ باقی سب کا اس پر اتفاق ہے کہ غلام کی طرف سے اس کا آقا ادا کرے گا۔یا جس طرح اس کافرض ہے۔کہ غلام کے لئے نماز کی ادایئگی ممکن بنائے اسی طرح اس کا فرض ہے کہ اس کی طرف سے زکواۃ الفطر کی ادایئگی ممکن بنائے۔ بلکہ صحیح مسلم میں تو صراحت ہے کہ مسلمان پر اس کے غلام اور گھوڑے میں زکواۃ نہیں۔تاہم غلام کی طرف سے صدقہ فطر ادا کیاجائے۔اس طرح کم عمر بچوں کیطرف سے زکواۃ کی ادایئگی کا حکم ولی (والد یا کسی دوسرے سر پرست) کو ہے۔(فتح الباری کتاب الذکاۃ باب فرض صدقۃ الفطر ملخصاً)2۔صیام رمضان کے اختتام پر زکواۃ الفطر کو فرض قرار دیا گیا ہے۔جس کے دو مقصد اس حدیث میں بتلائے گئے ہیں۔اول یہ کہ روزے کی حالت میں باوجود سعی وکوشش کے بتقاضائے بشریت اگر کچھ انسانی کمزوریوں اور کوتاہیوں کاارتکاب ہوگیا۔ ہو تو اس سے اس کی تلافی ہوجائےگی۔دوسرا یہ کہ نادار اور مفلس لوگ خاص اہتمام کرکے اس ملی تہوار کی مسرتوں میں شیک ہونے کی استطاعت نہیں رکھتے۔اس صدقے کے زریعے سے ان سے تعاون کرکے انہیں بھی اس قابل بنادیاجائے۔کہ وہ عید کا یہ اضافی خرچ اس طرح برداشت کرلیں۔اورزیر بار ہوئے بغیر عید کی مسرتوں میں شریک ہونے کے لئے کچھ نہ کچھ اہتمام کرسکیں۔
1۔رسول اللہ ﷺنے نفس کے تزکیہ کی غرض سے غیر شعوری طور پر یا غلطی سے کسی بے احتیاطی کے ارتکاب کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مالی خرابی کی تطہیر کے لئے زکواۃ فرض کی اسی طرح روزے کے دوران میں سرزد ہونے والے کسی لغو کا م یا نا مناسب بات سے روزے کی تطہیر کے لئے زکواۃ الفطر کو فرض قرار دیا۔آپﷺ نے ا س کی ادایئگی کو نماز عید کی ادایئگی کےلئے نکلنے سے پہلے ضروری قرار دیا ۔اس ادایئگی کو آپﷺ نے خود اپنے الفاظ میں زکواۃ الفطر قرار دیا۔اور بعد کی ادایئگی کو عام صدقات میں سے ایک صدقہ قراردیا۔جس کے زریعے سے اصل فریضہ ادا نہیں ہوتا۔صحیح بخاری کی روایات میں بھی فطرانے کو زکواۃ الفطر اورفرض قرار دیا گیا ہے۔احادیث نبویہ میں اس بات کی صراحت کردی گئی کہ اس زکواۃ کے لئے کوئی نصاب مقرر نہیں۔ بلک ہر چھوٹے بڑے مرد عورت اور آذاد یا غلام کی طرف سے اس کی ادایئگی فرض ہے حتیٰ کہ ایک روز کے بچے کی طرف سے بھی فطرانہ دینا ضروری ہے صحیح مسلم میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں رسول اللہ ﷺ نے یہ تصریح فرمادی کہ زکواۃ الفطر مسلمانوں میں سے ہر نفس پر فرض ہے۔اور کسی جگہ اشارتاً بھی یہ نہیں فرمایا کہ ہر نفس سے وہ لوگ مستثنیٰ ہیں۔جن کے پاس دوسری زکواۃ(زکواۃ مال) کا نصاب نہ ہو۔اس لئے صاحب نصاب ہونے کی شرط جو بعض لوگوں نے محض اپنی رائے سے لگائی ہے درست نہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔دائود ظاہری کے علاوہ باقی سب کا اس پر اتفاق ہے کہ غلام کی طرف سے اس کا آقا ادا کرے گا۔یا جس طرح اس کافرض ہے۔کہ غلام کے لئے نماز کی ادایئگی ممکن بنائے اسی طرح اس کا فرض ہے کہ اس کی طرف سے زکواۃ الفطر کی ادایئگی ممکن بنائے۔ بلکہ صحیح مسلم میں تو صراحت ہے کہ مسلمان پر اس کے غلام اور گھوڑے میں زکواۃ نہیں۔تاہم غلام کی طرف سے صدقہ فطر ادا کیاجائے۔اس طرح کم عمر بچوں کیطرف سے زکواۃ کی ادایئگی کا حکم ولی (والد یا کسی دوسرے سر پرست) کو ہے۔(فتح الباری کتاب الذکاۃ باب فرض صدقۃ الفطر ملخصاً)2۔صیام رمضان کے اختتام پر زکواۃ الفطر کو فرض قرار دیا گیا ہے۔جس کے دو مقصد اس حدیث میں بتلائے گئے ہیں۔اول یہ کہ روزے کی حالت میں باوجود سعی وکوشش کے بتقاضائے بشریت اگر کچھ انسانی کمزوریوں اور کوتاہیوں کاارتکاب ہوگیا۔ ہو تو اس سے اس کی تلافی ہوجائےگی۔دوسرا یہ کہ نادار اور مفلس لوگ خاص اہتمام کرکے اس ملی تہوار کی مسرتوں میں شیک ہونے کی استطاعت نہیں رکھتے۔اس صدقے کے زریعے سے ان سے تعاون کرکے انہیں بھی اس قابل بنادیاجائے۔کہ وہ عید کا یہ اضافی خرچ اس طرح برداشت کرلیں۔اورزیر بار ہوئے بغیر عید کی مسرتوں میں شریک ہونے کے لئے کچھ نہ کچھ اہتمام کرسکیں۔