Book - حدیث 1600

كِتَابُ الزَّكَاةِ بَابُ زَكَاةِ الْعَسَلِ حسن حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي شُعَيْبٍ الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ أَعْيَنَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ الْمِصْرِيِّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ قَالَ: جَاءَ هِلَالٌ- أَحَدُ بَنِي مُتْعَانَ- إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعُشُورِ نَحْلٍ لَهُ، وَكَانَ سَأَلَهُ أَنْ يَحْمِيَ لَهُ وَادِيًا، يُقَالُ لَهُ: سَلَبَةُ، فَحَمَى لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَلِكَ الْوَادِي، فَلَمَّا وُلِّيَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِي اللَّهُ عَنْهُ، كَتَبَ سُفْيَانُ بْنُ وَهْبٍ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ يَسْأَلُهُ عَنْ ذَلِكَ؟ فَكَتَبَ عُمَرُ رَضِي اللَّهُ عَنْهُ: إِنْ أَدَّى إِلَيْكَ مَا كَانَ يُؤَدِّي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عُشُورِ نَحْلِهِ فَاحْمِ لَهُ سَلَبَةَ، وَإِلَّا فَإِنَّمَا هُوَ ذُبَابُ غَيْثٍ يَأْكُلُهُ مَنْ يَشَاءُ.

ترجمہ Book - حدیث 1600

کتاب: زکوۃ کے احکام و مسائل باب: شہد کی زکوٰۃ جناب عمرو بن شعیب اپنے والد سے ، وہ اپنے دادا ( عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ ) سے روایت کرتے ہیں کہ بنی متعان کا ایک آدمی ہلال ، رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اپنے شہد کا عشر لے کر آیا اور آپ ﷺ سے درخواست کی کہ «سلبة» وادی اس کے نام کر دی جائے ، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے وہ اس کے نام کر دی ۔ جب سیدنا عمر بن خطاب ؓ خلیفہ بنے تو سیدنا سفیان بن وہب ؓ نے تحریراً سیدنا عمر بن خطاب ؓ سے اس کے بارے میں پوچھا تو سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے لکھا ، اگر یہ اپنے شہد کا وہی عشر دیتا رہے جو رسول اللہ ﷺ کو دیا کرتا تھا ، تو وادی «سلبة» اسی کے نام رہنے دو ۔ ورنہ یہ شہد کی مکھیاں ہیں جو چاہے ( ان کا شہد ) کھائے ۔
تشریح : امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ۔ترمذی اور ابو بکر بن المنذر کے بیانات کے مطابق شہد میں زکواۃ واجب ہونے کی کوئی صحیح صریح حدیث نہیں ہے۔جبکہ زیر بحث مذکورہ بالا حدیث صحیح السند ہے۔تفصیل کےلئے دیکھئے۔(اروا الغلیل ۔810/3)علامہ خطابی وغیرہ کا یہ قول ہے۔ کہ حضرت ہلال متعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی خوشی سے اس کی زکواۃ لے آئے۔تو رسول للہ ﷺنے قبول فرمالی۔ اور اس کی درخواست پروادی سلبہ اس کے نام لکھ دی۔اس کے بعد حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےیہی سمجھا کہ اولاً تو اس میں زکواۃ ہے ہی نہیں۔ تاہم چونکہ اس نے یہ وادی اپنے نام کرالی تھی۔تو اس کے بدلے اسے زکواۃ بھی دینی چاہیے اگر یہ زکواۃ نہ دے تو یہ وادی اس کے لئے مخصوص نہ رہے گی۔ بلکہ عام مسلمانوں کےلئے ہوگی۔جوچاہے اس سے استفادہ کرے۔الغرض چونکہ یہ مال ہے۔ اس لئے اس سے زکواۃ ادا کرنا ہی راحج اور احتیاط کا تقاضا ہے۔جیسا کہ ائمہ کرام ابو حنیفہرحمۃ اللہ علیہ احمد رحمۃ اللہ علیہ اور اسحاق رحمۃ اللہ علیہ وغیرہم کا فتویٰ ہے۔اور صحابہ کرام میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی مروی ہے۔عمر بن عبد العزیز اورامام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی ایک قول یہی ہے کہ شہد میں زکواۃ واجب ہے۔واللہ اعلم بالصواب امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ۔ترمذی اور ابو بکر بن المنذر کے بیانات کے مطابق شہد میں زکواۃ واجب ہونے کی کوئی صحیح صریح حدیث نہیں ہے۔جبکہ زیر بحث مذکورہ بالا حدیث صحیح السند ہے۔تفصیل کےلئے دیکھئے۔(اروا الغلیل ۔810/3)علامہ خطابی وغیرہ کا یہ قول ہے۔ کہ حضرت ہلال متعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی خوشی سے اس کی زکواۃ لے آئے۔تو رسول للہ ﷺنے قبول فرمالی۔ اور اس کی درخواست پروادی سلبہ اس کے نام لکھ دی۔اس کے بعد حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےیہی سمجھا کہ اولاً تو اس میں زکواۃ ہے ہی نہیں۔ تاہم چونکہ اس نے یہ وادی اپنے نام کرالی تھی۔تو اس کے بدلے اسے زکواۃ بھی دینی چاہیے اگر یہ زکواۃ نہ دے تو یہ وادی اس کے لئے مخصوص نہ رہے گی۔ بلکہ عام مسلمانوں کےلئے ہوگی۔جوچاہے اس سے استفادہ کرے۔الغرض چونکہ یہ مال ہے۔ اس لئے اس سے زکواۃ ادا کرنا ہی راحج اور احتیاط کا تقاضا ہے۔جیسا کہ ائمہ کرام ابو حنیفہرحمۃ اللہ علیہ احمد رحمۃ اللہ علیہ اور اسحاق رحمۃ اللہ علیہ وغیرہم کا فتویٰ ہے۔اور صحابہ کرام میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی مروی ہے۔عمر بن عبد العزیز اورامام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی ایک قول یہی ہے کہ شہد میں زکواۃ واجب ہے۔واللہ اعلم بالصواب