Book - حدیث 1599

كِتَابُ الزَّكَاةِ بَابُ صَدَقَةِ الزَّرْعِ ضعیف حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ عَنْ سُلَيْمَانَ يَعْنِي ابْنَ بِلَالٍ عَنْ شَرِيكِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَهُ إِلَى الْيَمَنِ فَقَالَ خُذْ الْحَبَّ مِنْ الْحَبِّ وَالشَّاةَ مِنْ الْغَنَمِ وَالْبَعِيرَ مِنْ الْإِبِلِ وَالْبَقَرَةَ مِنْ الْبَقَرِ قَالَ أَبُو دَاوُد شَبَرْتُ قِثَّاءَةً بِمِصْرَ ثَلَاثَةَ عَشَرَ شِبْرًا وَرَأَيْتُ أُتْرُجَّةً عَلَى بَعِيرٍ بِقِطْعَتَيْنِ قُطِّعَتْ وَصُيِّرَتْ عَلَى مِثْلِ عِدْلَيْنِ

ترجمہ Book - حدیث 1599

کتاب: زکوۃ کے احکام و مسائل باب: کھیتی کی زکوٰۃ سیدنا معاذ بن جبل ؓ سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو یمن کی طرف ( عامل بنا کر ) بھیجا تو ان سے فرمایا ” غلے سے غلہ ، بکریوں سے بکری ، اونٹوں سے اونٹ اور گائیوں سے گائے وصول کرنا ۔ “ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے مصر میں ایک ککڑی کو ناپا تو اسے تیرہ بالشت لمبی پایا ۔ اسی طرح ایک اونٹ پر ایک ترنج ( نارنگی ) لدی دیکھی کہ دو ٹکڑے کر کے برابر برابر رکھی گئی تھی ۔
تشریح : 1۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بارانی اورچشموں سے سیراب ہونے والی زمین اس طرح زیر زمین نمی والی زمین کی پیداوار میں عشر (دسواں حصہ) ہے۔اور جس زمین کو رہٹ وغیرہ سے سیراب کیا جائے اس میں نصف عشر( بیسواں حصہ پانچ فیصد) ہے۔صحیح بخاری الزکاۃ باب العشر فیما یسقیٰ من ماء السماء ولماء الجاری۔حدیث 1483) قرآنی آیت اور حدیث رسول ﷺ دونوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ زمین سے پیدا ہونے والی ہر چیز میں زکواۃ ہے۔سوائے سبزیوں کے کیونکہ اس میں زکواۃ نہ نکالنے کی صراحت حدیث میں ہے۔البتہ اس میں یہ شرط ہے کہ پیداوار پانچ وسق یا اس سے زیادہ ہو۔گویا اناج اور غلے کا نصاب پانچ وسق ہے۔اس سے کم پیداوار میں زکواۃ عائد نہیں ہوگی۔ایک وسق۔ساٹھ صاع کا ہوتا ہے۔ اس طرح پانچ وسق میں تین سو صاع ہوں گے جن کا وزن پاکستانی حساب سے تقریبا 20 من بنتا ہے۔لہذا جس شخص کی پیداوار 20 من یا اس سےزائد تو وہ زکواۃ ادا کرے۔بصورت دیگر نہیں۔زمین کی پیداوار کی زکواۃ (عشر ) کی ادایئگی فصل کاٹنے کے موقع پرہوگی۔اگرسال میں دو فصلیں ہوں گی۔توعشر بھی دو مرتبہ ادا کرنا ضروری ہوگا۔کیونکہ اس میں سال گزرنے کی شرط نہیں ہے۔بلکہ فصل کا ہونا شرط ہے۔وہ جب بھی ہو اور جو بھی ہو۔اگرزمین بارانی ہے یعنی بارش قدرتی چشموں وغیرہ سے سیراب ہوتی ہے۔اور اس پر اس پر کچھ خرچ نہیں ہوتا تو اس کی پیداوار سے دسواں حصہ (عشر) ادا کیا جائے۔اگر زمین غیر بارانی ہے(چاہی یا نہری ہے جس کی سیرابی پرآبیانہ وغیرہ کی صورت میں اخراجات برداشت کرنے پڑتے ہیں۔یا ٹیوب ویل کے زریعے سے اسے سیراب کیا جاتا ہے)تو اس سے نصف العشر (بیسواں حصہ) اد کیا جائے گا۔اس کی بنیاد یہ حدیث ہے جو پہلے بھی گزر چکی ہے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ (فيما سقت السماء والعيون او كان عشريا العشر وما سقي بالنضح نصف العشر(صحيح البخاری الذکواۃ العشر فیما یسقی من ماء السماء والما ء البخاری حدیث 1483) اس پیدوار میں جسے آسمان (بارش) یا (قدرتی) چشمے سیراب کریں یا وہ زمین نمی والی ہو۔(نہر اور دریا کے ساتھ ہونے کی وجہ سے اس میں اتنی نمی رہی ہو کہ اسے پانی دینے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے)عشر (دسواں حصہ) ہے اور جسے ڈول (یارہٹ وغیرہ) سے سیراب کیا جائے۔اس میں نصف عشر(بیسواں حصہ یعنی پانچ فیصد) ہے۔ زکواۃ صرف اس پیداوار سے ادا کی جائے گی۔جو ذخیرہ کی جاسکتی ہو۔جیسے گندم چاول مکئی جو وغیرہ۔اس لیے سبزیوں پر زکواۃ نہیں۔ کیونکہ ان کا زیادہ دیر تک ذخیرہ ممکن نہیں۔2۔امام صاحب نے جو ککڑی اور ترنج (مالٹے) کے بارے میں فرمایا ہے تو یہ زکواۃ صدقات کی برکات کی طرف اشار ہ ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ اس سے مال میں بے انتہا برکت ڈال دیتا ہے۔ 1۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بارانی اورچشموں سے سیراب ہونے والی زمین اس طرح زیر زمین نمی والی زمین کی پیداوار میں عشر (دسواں حصہ) ہے۔اور جس زمین کو رہٹ وغیرہ سے سیراب کیا جائے اس میں نصف عشر( بیسواں حصہ پانچ فیصد) ہے۔صحیح بخاری الزکاۃ باب العشر فیما یسقیٰ من ماء السماء ولماء الجاری۔حدیث 1483) قرآنی آیت اور حدیث رسول ﷺ دونوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ زمین سے پیدا ہونے والی ہر چیز میں زکواۃ ہے۔سوائے سبزیوں کے کیونکہ اس میں زکواۃ نہ نکالنے کی صراحت حدیث میں ہے۔البتہ اس میں یہ شرط ہے کہ پیداوار پانچ وسق یا اس سے زیادہ ہو۔گویا اناج اور غلے کا نصاب پانچ وسق ہے۔اس سے کم پیداوار میں زکواۃ عائد نہیں ہوگی۔ایک وسق۔ساٹھ صاع کا ہوتا ہے۔ اس طرح پانچ وسق میں تین سو صاع ہوں گے جن کا وزن پاکستانی حساب سے تقریبا 20 من بنتا ہے۔لہذا جس شخص کی پیداوار 20 من یا اس سےزائد تو وہ زکواۃ ادا کرے۔بصورت دیگر نہیں۔زمین کی پیداوار کی زکواۃ (عشر ) کی ادایئگی فصل کاٹنے کے موقع پرہوگی۔اگرسال میں دو فصلیں ہوں گی۔توعشر بھی دو مرتبہ ادا کرنا ضروری ہوگا۔کیونکہ اس میں سال گزرنے کی شرط نہیں ہے۔بلکہ فصل کا ہونا شرط ہے۔وہ جب بھی ہو اور جو بھی ہو۔اگرزمین بارانی ہے یعنی بارش قدرتی چشموں وغیرہ سے سیراب ہوتی ہے۔اور اس پر اس پر کچھ خرچ نہیں ہوتا تو اس کی پیداوار سے دسواں حصہ (عشر) ادا کیا جائے۔اگر زمین غیر بارانی ہے(چاہی یا نہری ہے جس کی سیرابی پرآبیانہ وغیرہ کی صورت میں اخراجات برداشت کرنے پڑتے ہیں۔یا ٹیوب ویل کے زریعے سے اسے سیراب کیا جاتا ہے)تو اس سے نصف العشر (بیسواں حصہ) اد کیا جائے گا۔اس کی بنیاد یہ حدیث ہے جو پہلے بھی گزر چکی ہے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ (فيما سقت السماء والعيون او كان عشريا العشر وما سقي بالنضح نصف العشر(صحيح البخاری الذکواۃ العشر فیما یسقی من ماء السماء والما ء البخاری حدیث 1483) اس پیدوار میں جسے آسمان (بارش) یا (قدرتی) چشمے سیراب کریں یا وہ زمین نمی والی ہو۔(نہر اور دریا کے ساتھ ہونے کی وجہ سے اس میں اتنی نمی رہی ہو کہ اسے پانی دینے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے)عشر (دسواں حصہ) ہے اور جسے ڈول (یارہٹ وغیرہ) سے سیراب کیا جائے۔اس میں نصف عشر(بیسواں حصہ یعنی پانچ فیصد) ہے۔ زکواۃ صرف اس پیداوار سے ادا کی جائے گی۔جو ذخیرہ کی جاسکتی ہو۔جیسے گندم چاول مکئی جو وغیرہ۔اس لیے سبزیوں پر زکواۃ نہیں۔ کیونکہ ان کا زیادہ دیر تک ذخیرہ ممکن نہیں۔2۔امام صاحب نے جو ککڑی اور ترنج (مالٹے) کے بارے میں فرمایا ہے تو یہ زکواۃ صدقات کی برکات کی طرف اشار ہ ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ اس سے مال میں بے انتہا برکت ڈال دیتا ہے۔