Book - حدیث 159

كِتَابُ الطَّهَارَةِ بَابُ الْمَسْحِ عَلَى الْجَوْرَبَيْنِ صحیح حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ عَنْ وَكِيعٍ عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ عَنْ أَبِي قَيْسٍ الْأَوْدِيِّ هُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ ثَرْوَانَ عَنْ هُزَيْلِ بْنِ شُرَحْبِيلَ عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ وَمَسَحَ عَلَى الْجَوْرَبَيْنِ وَالنَّعْلَيْنِ قَالَ أَبُو دَاوُد كَانَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ لَا يُحَدِّثُ بِهَذَا الْحَدِيثِ لِأَنَّ الْمَعْرُوفَ عَنْ الْمُغِيرَةِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَسَحَ عَلَى الْخُفَّيْنِ قَالَ أَبُو دَاوُد وَرُوِيَ هَذَا أَيْضًا عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ مَسَحَ عَلَى الْجَوْرَبَيْنِ وَلَيْسَ بِالْمُتَّصِلِ وَلَا بِالْقَوِيِّ قَالَ أَبُو دَاوُد وَمَسَحَ عَلَى الْجَوْرَبَيْنِ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ وَابْنُ مَسْعُودٍ وَالْبَرَاءُ بْنُ عَازِبٍ وَأَنَسُ بْنُ مَالِكٍ وَأَبُو أُمَامَةَ وَسَهْلُ بْنُ سَعْدٍ وَعَمْرُو بْنُ حُرَيْثٍ وَرُوِيَ ذَلِكَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ وَابْنِ عَبَّاسٍ

ترجمہ Book - حدیث 159

کتاب: طہارت کے مسائل باب: جرابوں پر مسح کرنا سیدنا مغیرہ بن شعبہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ( ایک بار ) وضو کیا تو اپنے جرابوں اور جوتوں پر مسح کیا ۔ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ عبدالرحمٰن بن مہدی اس حدیث کو روایت نہیں کیا کرتے تھے کیونکہ سیدنا مغیرہ ؓ سے معروف روایت یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے موزوں پر مسح کیا ۔ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ سیدنا ابوموسیٰ اشعری ؓ سے بھی یہ مروی ہے ” نبی کریم ﷺ نے جرابوں پر مسح کیا ۔“ مگر یہ متصل ہے نہ قوی ۔ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ سیدنا علی بن ابی طالب ، ابن مسعود ، براء بن عازب ، انس بن مالک ، ابوامامہ ، سہل بن سعد اور عمرو بن حریث ؓم نے بھی جرابوں پر مسح کیا ہے اور یہی بات سیدنا عمر بن خطاب اور ابن عباس ؓ سے بھی مروی ہے ۔
تشریح : (1) پاؤں میں پہنا جانےوالا لفافہ اگر سوتی یااونی ہوتواسے (جَورَب) اس کے نیچے چمڑا لگا ہوتو (مُنَعّل ) اوپر نیچے دونوں طرف چمڑا ہوتو (مُجَلّد) اوراگر سارا ہی چمڑا ہوتو اسے ’’ خُف ،، کہتے ہیں۔(2) بقول شیخ البانی  کےیہ روایت سنداًَ صحیح ہے۔نیزدیگر صحیح روایات سےبھی جرابوں اورنعلین (موزوں اورجوتوں ) پرمسح کرنا ثابت ہے۔:دیکھیے : المسح علی الجوربین (عربی ) ازعلامہ الشام جمال الدین قاسمی  اورمسنون نماز ۔از حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ (3) علامہ احمدمحمدشاکر  سنن ترمذی کی شرح میں فرماتے ہیں کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ سےوضواورمسح اوربعض نےجرابوں پرمسح کرنا نقل کیا ہے۔اوران میں کوئی تضادوخلاف نہیں ہے،کیونکہ یہ متعدد احادیث ہیں اورمختلف مواقع کےبیانا ت ہیں۔اوران کی معیت رسول اللہ ﷺ کےساتھ پانچ سال تک رہی ہےاور عین معقول ہےکہ آپ نےوضوکےبارےمیں مختلف مواقع کے مشاہدات پیش فرمائے ہوں توبعض راویوں نےکچھ سنا اور دوسروں نے کچھ اور ۔(4) امام ابوداؤد  نےان صحابہ کرام کےنام شمار کردیے ہیں جو جرابوں پرمسح کیاکرتےتھے اوران میں جرابوں کاکوئی وصف یعنی چمڑا لگاہونا یاموٹا مذکورنہیں ہے۔’’ اور اصل یہی ہےکہ جراب پر مسح صحیح ہے۔،، علامہ دولابی نےکتاب الاسماء والکنی (1؍181) میں جناب ازرق بن قیس (تابعی) سےنقل کیاہے ، وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس بن مالک کودیکھا کہ ان کا وضو ٹوٹ گیا توانہوں نے (تحدید وضو میں ) اپنا چہرہ دھویا ، ہاتھ دھوئےاور اپنی ’’ اون کی جرابوں ،، مسح کیا ۔میں نے کہا : آپ ان پر بھی مسح کرتےہیں ؟ انہوں نےفرمایا :’’ یہ ( خُفّان ) ہیں یعنی موزے ہی ہیں اگرچہ اون کےہیں ۔،، اوراس کی سند جید ہے۔امام ترمذی  کہتے ہیں کہ میں نے صالح بن محمدترمذی سےسنا ، و ہ کہتے تھے کہ میں نے ابو مقاتل سمرقندی سےسنا ،وہ کہتے ہیں کہ میں امام ابوحنیفہ  کے ہاں حاضر ہوا وہ مرض وفات میں تھے ،انہوں نے پانی منگوایا اوروضو کیا ، جرابیں پھن رکھی تھیں رکھی تھیں، تواپنی جرابوں پرمسح کیا اور کہا : میں نے آج ایسا کام کیا ہے جوپہلے نہ کرتا تھا۔میں نے غیر منقل جرابوں پرمسح کیا ہے، ( یعنی ان پر‎چمڑا نہیں لگا ہوا تھا۔) تفصیل کیلئے دیکھیے : ( تعلیق جامع ترمذی ازعلامہ احمدمحمد شاکر ، باب ماجاء فی المسح علی الجوربین والنعلین ، 1؍ 167۔169) (5) ایسی جرابیں اورموزے جوپرانے ہوجائیں یاپھٹ جائیں اور ان میں سوراخ ہوجائیں ، جنہیں پہننے میں انسان عرفاً وعادتاً عیب محسوس نہیں کرتا ان پرمسح کرناجائز ہے۔امام سفیان ثوری سےمنقول ہےکہ مہاجرین اورانصار کےموزوے پھٹنے سے محفوظ نہ رہتے تھے ، اگر اس میں کوئی رکاوٹ ہوتی تواس کا ذکر ہوتا اورممانعت آجاتی ۔( فقہ السنہ ، سیدسابق) (1) پاؤں میں پہنا جانےوالا لفافہ اگر سوتی یااونی ہوتواسے (جَورَب) اس کے نیچے چمڑا لگا ہوتو (مُنَعّل ) اوپر نیچے دونوں طرف چمڑا ہوتو (مُجَلّد) اوراگر سارا ہی چمڑا ہوتو اسے ’’ خُف ،، کہتے ہیں۔(2) بقول شیخ البانی  کےیہ روایت سنداًَ صحیح ہے۔نیزدیگر صحیح روایات سےبھی جرابوں اورنعلین (موزوں اورجوتوں ) پرمسح کرنا ثابت ہے۔:دیکھیے : المسح علی الجوربین (عربی ) ازعلامہ الشام جمال الدین قاسمی  اورمسنون نماز ۔از حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ (3) علامہ احمدمحمدشاکر  سنن ترمذی کی شرح میں فرماتے ہیں کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ سےوضواورمسح اوربعض نےجرابوں پرمسح کرنا نقل کیا ہے۔اوران میں کوئی تضادوخلاف نہیں ہے،کیونکہ یہ متعدد احادیث ہیں اورمختلف مواقع کےبیانا ت ہیں۔اوران کی معیت رسول اللہ ﷺ کےساتھ پانچ سال تک رہی ہےاور عین معقول ہےکہ آپ نےوضوکےبارےمیں مختلف مواقع کے مشاہدات پیش فرمائے ہوں توبعض راویوں نےکچھ سنا اور دوسروں نے کچھ اور ۔(4) امام ابوداؤد  نےان صحابہ کرام کےنام شمار کردیے ہیں جو جرابوں پرمسح کیاکرتےتھے اوران میں جرابوں کاکوئی وصف یعنی چمڑا لگاہونا یاموٹا مذکورنہیں ہے۔’’ اور اصل یہی ہےکہ جراب پر مسح صحیح ہے۔،، علامہ دولابی نےکتاب الاسماء والکنی (1؍181) میں جناب ازرق بن قیس (تابعی) سےنقل کیاہے ، وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس بن مالک کودیکھا کہ ان کا وضو ٹوٹ گیا توانہوں نے (تحدید وضو میں ) اپنا چہرہ دھویا ، ہاتھ دھوئےاور اپنی ’’ اون کی جرابوں ،، مسح کیا ۔میں نے کہا : آپ ان پر بھی مسح کرتےہیں ؟ انہوں نےفرمایا :’’ یہ ( خُفّان ) ہیں یعنی موزے ہی ہیں اگرچہ اون کےہیں ۔،، اوراس کی سند جید ہے۔امام ترمذی  کہتے ہیں کہ میں نے صالح بن محمدترمذی سےسنا ، و ہ کہتے تھے کہ میں نے ابو مقاتل سمرقندی سےسنا ،وہ کہتے ہیں کہ میں امام ابوحنیفہ  کے ہاں حاضر ہوا وہ مرض وفات میں تھے ،انہوں نے پانی منگوایا اوروضو کیا ، جرابیں پھن رکھی تھیں رکھی تھیں، تواپنی جرابوں پرمسح کیا اور کہا : میں نے آج ایسا کام کیا ہے جوپہلے نہ کرتا تھا۔میں نے غیر منقل جرابوں پرمسح کیا ہے، ( یعنی ان پر‎چمڑا نہیں لگا ہوا تھا۔) تفصیل کیلئے دیکھیے : ( تعلیق جامع ترمذی ازعلامہ احمدمحمد شاکر ، باب ماجاء فی المسح علی الجوربین والنعلین ، 1؍ 167۔169) (5) ایسی جرابیں اورموزے جوپرانے ہوجائیں یاپھٹ جائیں اور ان میں سوراخ ہوجائیں ، جنہیں پہننے میں انسان عرفاً وعادتاً عیب محسوس نہیں کرتا ان پرمسح کرناجائز ہے۔امام سفیان ثوری سےمنقول ہےکہ مہاجرین اورانصار کےموزوے پھٹنے سے محفوظ نہ رہتے تھے ، اگر اس میں کوئی رکاوٹ ہوتی تواس کا ذکر ہوتا اورممانعت آجاتی ۔( فقہ السنہ ، سیدسابق)