Book - حدیث 1575

كِتَابُ الزَّكَاةِ بَابُ فِي زَكَاةِ السَّائِمَةِ حسن حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ أَخْبَرَنَا بَهْزُ بْنُ حَكِيمٍ ح و حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ وَأَخْبَرَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ بَهْزِ بْنِ حَكِيمٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي كُلِّ سَائِمَةِ إِبِلٍ فِي أَرْبَعِينَ بِنْتُ لَبُونٍ وَلَا يُفَرَّقُ إِبِلٌ عَنْ حِسَابِهَا مَنْ أَعْطَاهَا مُؤْتَجِرًا قَالَ ابْنُ الْعَلَاءِ مُؤْتَجِرًا بِهَا فَلَهُ أَجْرُهَا وَمَنْ مَنَعَهَا فَإِنَّا آخِذُوهَا وَشَطْرَ مَالِهِ عَزْمَةً مِنْ عَزَمَاتِ رَبِّنَا عَزَّ وَجَلَّ لَيْسَ لِآلِ مُحَمَّدٍ مِنْهَا شَيْءٌ

ترجمہ Book - حدیث 1575

کتاب: زکوۃ کے احکام و مسائل باب: جنگل میں چرنے والے جانوروں کی زکوٰۃ بھز بن حکیم اپنے والد سے ، وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” ہر چالیس اونٹوں میں جو کہ جنگل میں چرتے ہوں ، ایک بنت لبون ( دو سالہ مادہ ) ہے اور انہیں ان کے حساب سے جدا جدا نہ کیا جائے ۔ جو شخص اجر و ثواب کی نیت سے دے گا ، ابن العلاء نے «مؤتجرا بها» کے الفاظ کہے ، تو اس کے لیے اس کا اجر و ثواب ہے اور جو ( زکوٰۃ کو ) روکے گا تو ہم اس سے وصول کریں گے اور آدھا مال ( مزید بھی ) یہ ہمارے رب تعالیٰ عزوجل کے واجبات میں سے ایک واجب ہے ، اس میں آل محمد کا کوئی حصہ نہیں ہے ۔ “
تشریح : (1)یہ حدیث حسن درجے کی ہے اور اس میں یہ ارشاد ہےکہ مانع زکوۃ سے پوری زکوۃ اور اس کا نصف مال بطور جرمانہ لیاجائے گا ۔(2)صدقہ وزکوۃ نبی ﷺ او رآپ کی آل کے لیے حلال نہ تھا ۔اسے لوگوں کی میل قرار دیا گیا ۔ایک حدیث میں ہے کہ [ان هذه الصدقة انما هى اوساخ الناس ‘وانها لاتحل لمحمد ولا لآل محمد ](سنن ابی داؤد ‘الخراج ‘ حدیث :2985)’’یہ صدقہ تو لوگوں کی میل ہوتاہے اور یہ محمد(ﷺ)اور آل محمد کےلیےحلال نہیں ہے ۔‘‘اور آپ ﷺ کی آل میں آپ کی جمیع ازواج اور جمیع اولاد کے علاوہ آل علی ‘ آل عقیل ‘آل جعفر اور آل عیاس ؓ شامل ہیں ۔اور حرمت صدقہ میں آپ کےموالی کا بھی یہی حکم ہے ۔اسی مفہوم کی حدیث صحیح مسلم میں بھی موجود ہے ۔دیکھیے :(صحیح مسلم ‘ الزکوۃ ‘حدیث :(1072) (1)یہ حدیث حسن درجے کی ہے اور اس میں یہ ارشاد ہےکہ مانع زکوۃ سے پوری زکوۃ اور اس کا نصف مال بطور جرمانہ لیاجائے گا ۔(2)صدقہ وزکوۃ نبی ﷺ او رآپ کی آل کے لیے حلال نہ تھا ۔اسے لوگوں کی میل قرار دیا گیا ۔ایک حدیث میں ہے کہ [ان هذه الصدقة انما هى اوساخ الناس ‘وانها لاتحل لمحمد ولا لآل محمد ](سنن ابی داؤد ‘الخراج ‘ حدیث :2985)’’یہ صدقہ تو لوگوں کی میل ہوتاہے اور یہ محمد(ﷺ)اور آل محمد کےلیےحلال نہیں ہے ۔‘‘اور آپ ﷺ کی آل میں آپ کی جمیع ازواج اور جمیع اولاد کے علاوہ آل علی ‘ آل عقیل ‘آل جعفر اور آل عیاس ؓ شامل ہیں ۔اور حرمت صدقہ میں آپ کےموالی کا بھی یہی حکم ہے ۔اسی مفہوم کی حدیث صحیح مسلم میں بھی موجود ہے ۔دیکھیے :(صحیح مسلم ‘ الزکوۃ ‘حدیث :(1072)