Book - حدیث 1574

كِتَابُ الزَّكَاةِ بَابُ فِي زَكَاةِ السَّائِمَةِ صحیح حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ أَخْبَرَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ عَنْ عَلِيٍّ عَلَيْهِ السَّلَام قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ عَفَوْتُ عَنْ الْخَيْلِ وَالرَّقِيقِ فَهَاتُوا صَدَقَةَ الرِّقَةِ مِنْ كُلِّ أَرْبَعِينَ دِرْهَمًا دِرْهَمًا وَلَيْسَ فِي تِسْعِينَ وَمِائَةٍ شَيْءٌ فَإِذَا بَلَغَتْ مِائَتَيْنِ فَفِيهَا خَمْسَةُ دَرَاهِمَ قَالَ أَبُو دَاوُد رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ الْأَعْمَشُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ كَمَا قَالَ أَبُو عَوَانَةَ وَرَوَاهُ شَيْبَانُ أَبُو مُعَاوِيَةَ وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْحَارِثِ عَنْ عَلِيٍّ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ قَالَ أَبُو دَاوُد وَرَوَى حَدِيثَ النُّفَيْلِيِّ شُعْبَةُ وَسُفْيَانُ وَغَيْرُهُمَا عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ عَاصِمٍ عَنْ عَلِيٍّ لَمْ يَرْفَعُوهُ أَوْقَفُوهُ عَلَى عَلِيٍّ

ترجمہ Book - حدیث 1574

کتاب: زکوۃ کے احکام و مسائل باب: جنگل میں چرنے والے جانوروں کی زکوٰۃ سیدنا علی ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” میں نے ( تم سے ) گھوڑے اور غلام کی زکوٰۃ معاف کر دی ہے ۔ سو تم چاندی کی زکوٰۃ لاؤ ، ہر چالیس درہم میں ایک درہم اور ایک سو نوے درہم میں کوئی زکوٰۃ نہیں ۔ جب دو سو ہو جائیں تو ان میں پانچ درہم ہیں ۔ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں ، اس حدیث کو اعمش نے ابواسحٰق سے روایت کیا ہے جیسے کہ ابوعوانہ نے کہا ہے ، نیز شیبان ابومعاویہ اور ابراہیم بن طہمان نے ابواسحاق سے ، انہوں نے حارث سے ، انہوں نے سیدنا علی ؓ سے ، انہوں نے نبی کریم ﷺ سے اسی کے مثل روایت کیا ہے ۔ امام ابوداؤد ؓ نے کہا ، عبداللہ بن محمد نفیلی کی حدیث شعبہ اور سفیان وغیرہ نے ابواسحٰق سے ، انہوں نے عاصم سے ، انہوں نے سیدنا علی ؓ سے روایت کی ہے مگر مرفوع نہیں کیا ہے بلکہ سیدنا علی ؓ پر موقوف کیا ہے ۔
تشریح : غلام او گھوڑے کی زکوۃ کے بارے میں زیادہ تر فقہاء یہی کہتے ہیں کہ محنت کش غلام اور سواری کے گھوڑے پر کوئی زکوۃ نہیں۔ بعض اہل الرائے کہتے ہیں کہ ان کی قیمت لگا کر چالیسوں حصہ وصل کیا جائے گا ۔امام ابوحنیفہ﷫کہتے ہیں کہ اگر گھوڑے نر مادہ ملے جلے ہوں تو چونکہ ان میں اضافہ ہو گا‘اس لیے ان پر زکوۃ کی ادائیگی لازمی ہو گی ۔البتہ اگر نر ہوں یا محض مادہ تو چونکہ نسل میں اضافہ نہیں ہوگا اس لیے زکوۃ بھی نہیں ہوگی ۔مزید وہ کہتے ہیں کہ گھوڑوں کے مالک کو اختیار ہے کہ چاہے توان کی قیمت پر زکوۃ دے چاہے تو ایک دینار فی گھوڑا ادا کرے ۔تاہم حدیث سے اس کی بابت جومعلوم ہوتا ہے ‘ اس کی صراحت سنن ابوداؤد کی اس حدیث سےہوجاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے گھوڑوں اور غلاموں کو زکوۃ سے مستثنی قرار دیا ہے ۔البتہ حضرت انس ‎ؓ کےحوالے سے یہ بات ملتی ہے کہ حضرت عمر ؓ غلام اور گھوڑے پرایک ایک دینار لیا کرتے تھے ۔(المحلی ‘ ج:5 ‘الزکاۃ ‘احکام زکوۃ الخیل ‘ص :226) حضرت عمر کے اقدام کی حقیقت مندرجہ ذیل روایتوں سے واضح ہو جاتی ہے :حارثہ بن مضرب فرماتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عمر کے ساتھ حج کیا ۔ اس دوران میں شام کے کچھ شرفاء نے ان کی خدمت میں حاضر ہوکرعرض کیا کہ ان کے پاس غلام اور(سواری کے )جانور ہیں ‘ آپ ہم سے صدقہ (زکوۃ )وصول کر لیں تاکہ ہمارےمال کاتزکیہ ہو جائے ۔حضرت عمر نے جواب دیا :یہ کام مجھ سے پہلے دونوں ہستیوں (نبی کریمﷺ اور حضرت ابوبکر )نے نہیں کیا ۔‘‘تو انہوں نے کہا کہ آپ انتظار کریں میں اس بابت مشورہ کرتا ہوں ‘ لہذا انہوں نے صحابہ کرام ؓ نے مشورہ کرتا ہوں ‘ لہذا انہوں نے صحابہ کرام سے مشورہ کیا تو حضرت علی نے کہا یہ پیش کش اچھی ہے ‘ اگر یہ آپ کے بعد ہمیشہ کےلیے جزیہ (کی طرح لازمی )نہ ہو جائے ۔(مسند احمد :1/13‘32) یعلی بن امیہ کہتے ہیں کہ میرے بھائی عبدالرحمان بن امیہ نے ایک گھوڑی اونٹ کے بدلے خریدی ‘بیچنے والے کو بعد میں ندامت ہوئی تو اس نے آکر حضرت عمر سے شکایت کی کہ یعلی ٰ اور اس کے بھائی نے مجھے لوٹ لیا ۔حضرت عمر نے یعلی کو لکھ بھیجا کہ ان کے پاس پہنچو ۔انہوں نے تفصیل بتائی تو عمر نے فرمایا کہ ایک گھوڑی تمہارے ہاں اس قدر مہنگی بکتی ہے ؟یعلی نے جواب دیا کہ میرے علم میں بھی یہی ہے کہ اتنی قیمت کسی اور گھوڑی کی آج تک نہیں لگی ‘ حضرت عمر نے فرمایا کہ ہم چالیس بکریاں پر ایک بکری لیے لیتے ہیں تو اس قدر قیمتی گھوڑوں سے کچھ نہ لیں ۔آپ نے اس کے بعد گھوڑوں پر ایک دینار لاگو کر دیا ۔(المحلی ‘ج:5‘ احکام زکوۃ الخیل ) ان دونوں روایتوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خود حضرت عمر کے بقول رسول اللہ ﷺ اور آپ کے بعدحضرت ابوبکر ؓ گھوڑوں پر زکوۃ نہ لیتے تھے ۔ حضرت عمر خود بھی نہیں لینا چاہتے تھے ‘ بلکہ جب لوگوں نے پیش کش کی تو انہوں نے صحابہ کرام سےمشورہ طلب کیا کہ رضا کارانہ طور پر دینے والوں سے گھوڑوں وغیرہ پر زکوۃ قبول کر لینی چاہیے یا نہیں ؟تو حضرت علی نے حکیمانہ رائے دی کہ اس شرط پر لیں کہ کل کو یہی رضاکارانہ دی ہوئی زکوۃ دوسروں کے لیے لازمی ٹیکس نہ بن جائے ۔ تیسری روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عمر اس رائے کے بعد بھی وصولی پر آمادہ نہ تھے ‘ یہاں تک کہ گھوڑوں کی قیمتوں میں حیرت ناک اضافہ سامنے آنے پر آپ کو یہ خیال ہوا کہ یہ گھوڑے مال و دولت کے خزانے کی مانند ہو گئے ہیں تو انہوں نےاپنے عہد کی قیمتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایک دینار گھوڑا لاگو کر دیا ۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے گھوڑوں کو باقی جانوروں پر قیاس کرتے ہوئے کم از کم گھوڑوں کی تعداد کا کوئی نصاب مقرر نہ فرمایا ۔نیز چالیس گھوڑوں میں سے ایک گھوڑا لینے کا حکم بھی نہ دیا ۔ایسا کرتے تو یہ جانوروں کی زکوۃ کے طریق کار کو آگے بڑھانے کے مترادف ہوتا اور رسول اللہ ﷺ نے بطور جانور اس پر زکوۃ نہ لینے کی وضاحت فرما دی تھی ۔حضرت عمر نے گھوڑوں پر نقدی میں ٹیکس لگا کر یہ واضح کر دیا کہ بحیثیت جانور گھوڑے پر زکوۃ نہیں ‘بلکہ زیادہ قیمت رکھنے والے مال میں سے وصول کیا جانے والا صدقہ ہے۔اس انتظام کو باقاعدہ زکوۃ شمار کرنا یا ہمیشہ کے لیے ہر ایک پر اس کو لاگو کر دینا مناسب نہیں ۔حضرت علی نے اسی طرف اشارہ فرمایا اور خود بھی خلافت پر متمکن ہونے کے بعد گھوڑوں پر کچھ نہ لیا ۔یہ حضرت عمر کا صحابہ کے مشورے کے بعد اختیار کردہ ایک طریق تھا ‘آیندہ بھی مسلمان حکومتیں حضرت عمر کے طریق کو نمونہ بنا کر اجتہاد کر سکتی ہیں ۔اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اگر کوئی چیز مالیت کا خزانہ بن جائے تو چاہے پہلے اسے مستثنی قرار دیا جاچکا ہو اس سے فقراء اور دیگر ضرورتوں کے لیے کچھ وصولی کا انتظام کیا جا سکتا ہے ۔قیمتی پتھروں کے بارے میں حضرت عمر ؓ کے عمل کونمونہ بنایا جا سکتا ہے۔نیز ایسے علاقے بھی ہیں جہاں گھوڑے بنیادی مویشی کی حیثیت رکھتے ہیں جیسے وسط ایشیا میں ‘وہاں گھوڑے ہی دودھ اور گوشت کی فراہمی کا بنیادی ذریعہ ہیں اور چرنے والے ریوڑوں کی صورت میں بکثرت موجود ہیں ۔ایسے علاقوں بھی گھوڑے کے حوالے سے اجتہاد کرنا ممکن ہوگا ۔ غلام او گھوڑے کی زکوۃ کے بارے میں زیادہ تر فقہاء یہی کہتے ہیں کہ محنت کش غلام اور سواری کے گھوڑے پر کوئی زکوۃ نہیں۔ بعض اہل الرائے کہتے ہیں کہ ان کی قیمت لگا کر چالیسوں حصہ وصل کیا جائے گا ۔امام ابوحنیفہ﷫کہتے ہیں کہ اگر گھوڑے نر مادہ ملے جلے ہوں تو چونکہ ان میں اضافہ ہو گا‘اس لیے ان پر زکوۃ کی ادائیگی لازمی ہو گی ۔البتہ اگر نر ہوں یا محض مادہ تو چونکہ نسل میں اضافہ نہیں ہوگا اس لیے زکوۃ بھی نہیں ہوگی ۔مزید وہ کہتے ہیں کہ گھوڑوں کے مالک کو اختیار ہے کہ چاہے توان کی قیمت پر زکوۃ دے چاہے تو ایک دینار فی گھوڑا ادا کرے ۔تاہم حدیث سے اس کی بابت جومعلوم ہوتا ہے ‘ اس کی صراحت سنن ابوداؤد کی اس حدیث سےہوجاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے گھوڑوں اور غلاموں کو زکوۃ سے مستثنی قرار دیا ہے ۔البتہ حضرت انس ‎ؓ کےحوالے سے یہ بات ملتی ہے کہ حضرت عمر ؓ غلام اور گھوڑے پرایک ایک دینار لیا کرتے تھے ۔(المحلی ‘ ج:5 ‘الزکاۃ ‘احکام زکوۃ الخیل ‘ص :226) حضرت عمر کے اقدام کی حقیقت مندرجہ ذیل روایتوں سے واضح ہو جاتی ہے :حارثہ بن مضرب فرماتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عمر کے ساتھ حج کیا ۔ اس دوران میں شام کے کچھ شرفاء نے ان کی خدمت میں حاضر ہوکرعرض کیا کہ ان کے پاس غلام اور(سواری کے )جانور ہیں ‘ آپ ہم سے صدقہ (زکوۃ )وصول کر لیں تاکہ ہمارےمال کاتزکیہ ہو جائے ۔حضرت عمر نے جواب دیا :یہ کام مجھ سے پہلے دونوں ہستیوں (نبی کریمﷺ اور حضرت ابوبکر )نے نہیں کیا ۔‘‘تو انہوں نے کہا کہ آپ انتظار کریں میں اس بابت مشورہ کرتا ہوں ‘ لہذا انہوں نے صحابہ کرام ؓ نے مشورہ کرتا ہوں ‘ لہذا انہوں نے صحابہ کرام سے مشورہ کیا تو حضرت علی نے کہا یہ پیش کش اچھی ہے ‘ اگر یہ آپ کے بعد ہمیشہ کےلیے جزیہ (کی طرح لازمی )نہ ہو جائے ۔(مسند احمد :1/13‘32) یعلی بن امیہ کہتے ہیں کہ میرے بھائی عبدالرحمان بن امیہ نے ایک گھوڑی اونٹ کے بدلے خریدی ‘بیچنے والے کو بعد میں ندامت ہوئی تو اس نے آکر حضرت عمر سے شکایت کی کہ یعلی ٰ اور اس کے بھائی نے مجھے لوٹ لیا ۔حضرت عمر نے یعلی کو لکھ بھیجا کہ ان کے پاس پہنچو ۔انہوں نے تفصیل بتائی تو عمر نے فرمایا کہ ایک گھوڑی تمہارے ہاں اس قدر مہنگی بکتی ہے ؟یعلی نے جواب دیا کہ میرے علم میں بھی یہی ہے کہ اتنی قیمت کسی اور گھوڑی کی آج تک نہیں لگی ‘ حضرت عمر نے فرمایا کہ ہم چالیس بکریاں پر ایک بکری لیے لیتے ہیں تو اس قدر قیمتی گھوڑوں سے کچھ نہ لیں ۔آپ نے اس کے بعد گھوڑوں پر ایک دینار لاگو کر دیا ۔(المحلی ‘ج:5‘ احکام زکوۃ الخیل ) ان دونوں روایتوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خود حضرت عمر کے بقول رسول اللہ ﷺ اور آپ کے بعدحضرت ابوبکر ؓ گھوڑوں پر زکوۃ نہ لیتے تھے ۔ حضرت عمر خود بھی نہیں لینا چاہتے تھے ‘ بلکہ جب لوگوں نے پیش کش کی تو انہوں نے صحابہ کرام سےمشورہ طلب کیا کہ رضا کارانہ طور پر دینے والوں سے گھوڑوں وغیرہ پر زکوۃ قبول کر لینی چاہیے یا نہیں ؟تو حضرت علی نے حکیمانہ رائے دی کہ اس شرط پر لیں کہ کل کو یہی رضاکارانہ دی ہوئی زکوۃ دوسروں کے لیے لازمی ٹیکس نہ بن جائے ۔ تیسری روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عمر اس رائے کے بعد بھی وصولی پر آمادہ نہ تھے ‘ یہاں تک کہ گھوڑوں کی قیمتوں میں حیرت ناک اضافہ سامنے آنے پر آپ کو یہ خیال ہوا کہ یہ گھوڑے مال و دولت کے خزانے کی مانند ہو گئے ہیں تو انہوں نےاپنے عہد کی قیمتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایک دینار گھوڑا لاگو کر دیا ۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے گھوڑوں کو باقی جانوروں پر قیاس کرتے ہوئے کم از کم گھوڑوں کی تعداد کا کوئی نصاب مقرر نہ فرمایا ۔نیز چالیس گھوڑوں میں سے ایک گھوڑا لینے کا حکم بھی نہ دیا ۔ایسا کرتے تو یہ جانوروں کی زکوۃ کے طریق کار کو آگے بڑھانے کے مترادف ہوتا اور رسول اللہ ﷺ نے بطور جانور اس پر زکوۃ نہ لینے کی وضاحت فرما دی تھی ۔حضرت عمر نے گھوڑوں پر نقدی میں ٹیکس لگا کر یہ واضح کر دیا کہ بحیثیت جانور گھوڑے پر زکوۃ نہیں ‘بلکہ زیادہ قیمت رکھنے والے مال میں سے وصول کیا جانے والا صدقہ ہے۔اس انتظام کو باقاعدہ زکوۃ شمار کرنا یا ہمیشہ کے لیے ہر ایک پر اس کو لاگو کر دینا مناسب نہیں ۔حضرت علی نے اسی طرف اشارہ فرمایا اور خود بھی خلافت پر متمکن ہونے کے بعد گھوڑوں پر کچھ نہ لیا ۔یہ حضرت عمر کا صحابہ کے مشورے کے بعد اختیار کردہ ایک طریق تھا ‘آیندہ بھی مسلمان حکومتیں حضرت عمر کے طریق کو نمونہ بنا کر اجتہاد کر سکتی ہیں ۔اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اگر کوئی چیز مالیت کا خزانہ بن جائے تو چاہے پہلے اسے مستثنی قرار دیا جاچکا ہو اس سے فقراء اور دیگر ضرورتوں کے لیے کچھ وصولی کا انتظام کیا جا سکتا ہے ۔قیمتی پتھروں کے بارے میں حضرت عمر ؓ کے عمل کونمونہ بنایا جا سکتا ہے۔نیز ایسے علاقے بھی ہیں جہاں گھوڑے بنیادی مویشی کی حیثیت رکھتے ہیں جیسے وسط ایشیا میں ‘وہاں گھوڑے ہی دودھ اور گوشت کی فراہمی کا بنیادی ذریعہ ہیں اور چرنے والے ریوڑوں کی صورت میں بکثرت موجود ہیں ۔ایسے علاقوں بھی گھوڑے کے حوالے سے اجتہاد کرنا ممکن ہوگا ۔