Book - حدیث 1572

كِتَابُ الزَّكَاةِ بَابُ فِي زَكَاةِ السَّائِمَةِ صحیح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ وَعَنِ الْحَارِثِ الْأَعْوَرِ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِي اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ زُهَيْرٌ –أَحْسَبُهُ- عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّه قَال:َ هَاتُوا رُبْعَ الْعُشُورِ, مِنْ كُلِّ أَرْبَعِينَ دِرْهَمًا دِرْهَمٌ، وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ شَيْءٌ حَتَّى تَتِمَّ مِائَتَيْ دِرْهَمٍ، فَإِذَا كَانَتْ مِائَتَيْ دِرْهَمٍ، فَفِيهَا خَمْسَةُ دَرَاهِمَ، فَمَا زَادَ فَعَلَى حِسَابِ ذَلِكَ، وَفِي الْغَنَمِ, فِي أَرْبَعِينَ شَاةً شَاةٌ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ إِلَّا تِسْعٌ وَثَلَاثُونَ فَلَيْسَ عَلَيْكَ فِيهَا شَيْءٌ<. وَسَاقَ صَدَقَةَ الْغَنَمِ، مِثْلَ الزُّهْرِيِّ قَالَ: وَفِي الْبَقَرِ فِي كُلِّ ثَلَاثِينَ تَبِيعٌ، وَفِي الْأَرْبَعِينَ مُسِنَّةٌ، وَلَيْسَ عَلَى الْعَوَامِلِ شَيْءٌ، وَفِي الْإِبِلِ.... فَذَكَرَ صَدَقَتَهَا، كَمَا ذَكَرَ الزُّهْرِيُّ، قَالَ: >وَفِي خَمْسٍ وَعِشْرِينَ خَمْسَةٌ مِنَ الْغَنَمِ، فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَةً فَفِيهَا ابْنَةُ مَخَاضٍ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ بِنْتُ مَخَاضٍ فَابْنُ لَبُونٍ ذَكَرٌ, إِلَى خَمْسٍ وَثَلَاثِينَ، فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَةً فَفِيهَا بِنْتُ لَبُونٍ, إِلَى خَمْسٍ وَأَرْبَعِينَ، فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَةً فَفِيهَا حِقَّةٌ طَرُوقَةُ الْجَمَلِ, إِلَى سِتِّينَ. ثُمَّ سَاقَ مِثْلَ حَدِيثِ الزُّهْرِيِّ قَالَ: فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَةً -يَعْنِي: وَاحِدَةً وَتِسْعِينَ- فَفِيهَا حِقَّتَانِ طَرُوقَتَا الْجَمَلِ إِلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ، فَإِنْ كَانَتِ الْإِبِلُ أَكْثَرُ مِنْ ذَلِكَ, فَفِي كُلِّ خَمْسِينَ، حِقَّةٌ وَلَا يُفَرَّقُ بَيْنَ مُجْتَمِعٍ، وَلَا يُجْمَعُ بَيْنَ مُفْتَرِقٍ, خَشْيَةَ الصَّدَقَةِ، وَلَا تُؤْخَذُ فِي الصَّدَقَةِ هَرِمَةٌ، وَلَا ذَاتُ عَوَارٍ، وَلَا تَيْسٌ، إِلَّا أَنْ يَشَاءَ الْمُصَدِّقُ، وَفِي النَّبَاتِ مَا سَقَتْهُ الْأَنْهَارُ، -أَوْ سَقَتِ السَّمَاءُ- الْعُشْرُ، وَمَا سَقَى الْغَرْبُ فَفِيهِ نِصْفُ الْعُشْرِ. وَفِي حَدِيثِ عَاصِمٍ وَالْحَارِثِ الصَّدَقَةُ فِي كُلِّ عَامٍ. قَالَ زُهَيْرٌ أَحْسَبُهُ قَالَ مَرَّةً. وَفِي حَدِيثِ عَاصِمٍ إِذَا لَمْ يَكُنْ فِي الْإِبِلِ ابْنَةُ مَخَاضٍ، وَلَا ابْنُ لَبُونٍ، فَعَشَرَةُ دَرَاهِمَ، أَوْ شَاتَانِ.

ترجمہ Book - حدیث 1572

کتاب: زکوۃ کے احکام و مسائل باب: جنگل میں چرنے والے جانوروں کی زکوٰۃ سیدنا علی ؓ سے مروی ہے ( راوی حدیث ) زہیر کہتے ہیں کہ میرے خیال میں انہوں نے نبی کریم ﷺ سے بیان کیا ، آپ ﷺ نے فرمایا ” چالیسواں حصہ ادا کرو ، ہر چالیس درہم میں سے ایک درہم ۔ اور جب تک دو سو درہم پورے نہ ہو جائیں ، تم پر کچھ لازم نہیں ۔ جب دو سو درہم ہو جائیں تو ان میں پانچ درہم ( زکوٰۃ ) ہے ۔ اور جو اس سے زیادہ ہو وہ اسی حساب سے ہے ( اس کی چالیسواں حصہ زکوٰۃ دی جائے ) اور بکریوں میں ہر چالیس میں ایک بکری ہے ۔ یہ اگر انتالیس ہوں تو تم پر ان میں کچھ نہیں ۔ “ اور ان کی تفصیل اسی طرح بیان کی جیسے کہ زہری کی روایت میں بیان ہو چکی ہے ۔ اور گایوں بیلوں کی زکوٰۃ میں فرمایا ” ہر تیس جانوروں میں ایک سالہ بچھڑا ہے اور ہر چالیس میں دو سالہ ۔ اور ایسے جانور جن سے کام لیا جاتا ہے ان پر کوئی زکوٰۃ نہیں ۔ اور اونٹوں کی زکوٰۃ “ سابقہ حدیث زہری کی مانند بیان کی ۔ کہا ” پچیس اونٹوں میں پانچ بکریاں ہیں ۔ اگر ایک بھی بڑھ جائے تو ان میں ایک بنت مخاض ( ایک سالہ مادہ ) ہے ۔ اگر بنت مخاض نہ ہو تو ابن لبون مذکر ( دو سالہ اونٹ ) پینتیس تک ۔ “ اگر ایک بھی بڑھ جائے تو ان میں ایک بنت لبون ہے ( دو سالہ مادہ ) پینتالیس تک ۔ جب ایک بھی بڑھ جائے تو ان میں ایک حقہ ہے ( تین سالہ مادہ ) جو جفتی کے قابل ہو ، ساٹھ تک ۔ پھر حدیث زہری کی مانند بیان کیا ۔ اور کہا ” اگر ایک بھی بڑھ جائے یعنی اکانوے ہو جائیں تو ان میں دو حقے ہیں جو کہ جفتی کے قابل ہوں ۔ ایک سو بیس تک ۔ جب اونٹوں کی تعداد اس سے زیادہ ہو جائے تو ہر پچاس میں ایک حقہ ( تین سالہ مادہ ) ہے ۔ زکوٰۃ کے خوف سے اکٹھے جانوروں کو جدا جدا نہ کیا جائے اور نہ علیحدہ علیحدہ کو جمع کیا جائے ۔ اور زکوٰۃ میں کوئی بوڑھا یا عیب دار یا نر ( جفتی والا ) جانور نہ لیا جائے ، الا یہ کہ تحصیلدار چاہے ( نر لے سکتا ہے ) اور زرعی اجناس میں جو زمینیں دریا یا بارش سے سیراب ہوتی ہوں ان میں دسواں حصہ ہے اور جو ڈول ( رہٹ ، ٹیوب ویل وغیرہ ) سے سیراب ہوتی ہوں ان میں بیسواں حصہ ہے ۔ “ عاصم اور حارث کی روایت میں ہے ” زکوٰۃ ہر سال ہے “ زہیر نے کہا : میرا خیال ہے کہ انہوں نے کہا ” ( ہر سال ) ایک بار ہے ۔ “ عاصم کی روایت میں ہے ” اگر اونٹوں میں بنت مخاض ( ایک سالہ مادہ ) یا ابن لبون ( دو سالہ نر ) نہ ہو تو دس درہم یا دو بکریاں دے ۔ “
تشریح : (1)صحیح تر احادیث میں اونٹوں کی زکوۃ کی بابت یہ مروی ہے کہ میں چوبیس تک میں چار بکریاں ہیں ۔پچیس ہو جائیں تو ان میں ایک بنت مخاض (ایک سالہ مادہ )ہے ۔(2) گایوں کی زکوۃ کی تفصیل یوں بنتی ہے کہ تیس سےانتالیس تک ایک سالہ بچھڑی ‘‘خیال رہے لفظ ’’تبیع ‘‘(بچھڑا ‘ بچھڑی )مذکر مؤنث دونوں کے لیے بولا جاتاہے۔چالیس میں دو سالہ ‘ انسٹھ تک ۔ساٹھ سے انہتر تک میں ایک ایک سالہ دو بچھڑیاں ۔ستر ہو جائیں تو ایک عدد ایک سالہ اور ایک عدد دوسالہ ‘اناسی تک –اسی گایوں میں دو دو سالہ دو عدد ‘نواسی تک ۔نوے گایوں میں تین عدد ایک سالہ بچھڑیاں ‘ ننانوے تک ۔اور سوگایوں میں دو عدد ایک سالہ اور ایک عدد دوسالہ جانور دینا ہوگا-(علی ھذاالقیاس)خیال رہے کہ بھینسیں بھی گایوں کے حکم میں ہیں ۔ امام ابن المنذر نےاس پر اجماع لکھا ہے۔دیکھیے (فتاوی ابن تیمیہ :25/37)(3)ہل چلانے ‘ پانی کھینچنے یا گاڑیاں چلانے میں زیر استعمال یا دودھ کے لیے پالے گئے جانوروں پر کوئی زکوۃ نہیں ۔ ان کی آمدنی پر زکوۃ ہے۔(4) بارانی اور سیلابی زمینوں سے دسواں حصہ جب کہ نہری ‘ چاہی اور ٹیوب ویل وغیرہ سے سیراب ہونے والی زمینوں کی کاشت پر بیسواں حصہ آتا ہے ۔بشرطیکہ مجموعی حاصل پانچ وسق ہو ۔(بر صغیر میں یہ ماپ تقریباً بیس من غلہ کے برابر کہا جاتا ہے۔) (1)صحیح تر احادیث میں اونٹوں کی زکوۃ کی بابت یہ مروی ہے کہ میں چوبیس تک میں چار بکریاں ہیں ۔پچیس ہو جائیں تو ان میں ایک بنت مخاض (ایک سالہ مادہ )ہے ۔(2) گایوں کی زکوۃ کی تفصیل یوں بنتی ہے کہ تیس سےانتالیس تک ایک سالہ بچھڑی ‘‘خیال رہے لفظ ’’تبیع ‘‘(بچھڑا ‘ بچھڑی )مذکر مؤنث دونوں کے لیے بولا جاتاہے۔چالیس میں دو سالہ ‘ انسٹھ تک ۔ساٹھ سے انہتر تک میں ایک ایک سالہ دو بچھڑیاں ۔ستر ہو جائیں تو ایک عدد ایک سالہ اور ایک عدد دوسالہ ‘اناسی تک –اسی گایوں میں دو دو سالہ دو عدد ‘نواسی تک ۔نوے گایوں میں تین عدد ایک سالہ بچھڑیاں ‘ ننانوے تک ۔اور سوگایوں میں دو عدد ایک سالہ اور ایک عدد دوسالہ جانور دینا ہوگا-(علی ھذاالقیاس)خیال رہے کہ بھینسیں بھی گایوں کے حکم میں ہیں ۔ امام ابن المنذر نےاس پر اجماع لکھا ہے۔دیکھیے (فتاوی ابن تیمیہ :25/37)(3)ہل چلانے ‘ پانی کھینچنے یا گاڑیاں چلانے میں زیر استعمال یا دودھ کے لیے پالے گئے جانوروں پر کوئی زکوۃ نہیں ۔ ان کی آمدنی پر زکوۃ ہے۔(4) بارانی اور سیلابی زمینوں سے دسواں حصہ جب کہ نہری ‘ چاہی اور ٹیوب ویل وغیرہ سے سیراب ہونے والی زمینوں کی کاشت پر بیسواں حصہ آتا ہے ۔بشرطیکہ مجموعی حاصل پانچ وسق ہو ۔(بر صغیر میں یہ ماپ تقریباً بیس من غلہ کے برابر کہا جاتا ہے۔)