Book - حدیث 1570

كِتَابُ الزَّكَاةِ بَابُ فِي زَكَاةِ السَّائِمَةِ صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: هَذِهِ نُسْخَةُ كِتَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، الَّذِي كَتَبَهُ فِي الصَّدَقَةِ, وَهِيَ عِنْدَ آلُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ. قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: أَقْرَأَنِيهَا سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، فَوَعَيْتُهَا عَلَى وَجْهِهَا، وَهِيَ الَّتِي انْتَسَخَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ وَسَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، قَالَ: فَإِذَا كَانَتْ إِحْدَى وَعِشْرِينَ وَمِائَةً فَفِيهَا ثَلَاثُ بَنَاتِ لَبُونٍ، حَتَّى تَبْلُغَ تِسْعًا وَعِشْرِينَ وَمِائَةً، فَإِذَا كَانَتْ ثَلَاثِينَ وَمِائَةً فَفِيهَا بِنْتَا لَبُونٍ وَحِقَّةٌ، حَتَّى تَبْلُغَ تِسْعًا وَثَلَاثِينَ وَمِائَةً، فَإِذَا كَانَتْ أَرْبَعِينَ وَمِائَةً فَفِيهَا حِقَّتَانِ وَبِنْتُ لَبُونٍ، حَتَّى تَبْلُغَ تِسْعًا وَأَرْبَعِينَ وَمِائَةً، فَإِذَا كَانَتْ خَمْسِينَ وَمِائَةً فَفِيهَا ثَلَاثُ حِقَاقٍ، حَتَّى تَبْلُغَ تِسْعًا وَخَمْسِينَ وَمِائَةً، فَإِذَا كَانَتْ سِتِّينَ وَمِائَةً فَفِيهَا أَرْبَعُ بَنَاتِ لَبُونٍ، حَتَّى تَبْلُغَ تِسْعًا وَسِتِّينَ وَمِائَةً، فَإِذَا كَانَتْ سَبْعِينَ وَمِائَةً فَفِيهَا ثَلَاثُ بَنَاتِ لَبُونٍ وَحِقَّةٌ، حَتَّى تَبْلُغَ تِسْعًا وَسَبْعِينَ وَمِائَةً، فَإِذَا كَانَتْ ثَمَانِينَ وَمِائَةً فَفِيهَا حِقَّتَانِ وَابْنَتَا لَبُونٍ، حَتَّى تَبْلُغَ تِسْعًا وَثَمَانِينَ وَمِائَةً، فَإِذَا كَانَتْ تِسْعِينَ وَمِائَةً فَفِيهَا ثَلَاثُ حِقَاقٍ وَبِنْتُ لَبُونٍ، حَتَّى تَبْلُغَ تِسْعًا وَتِسْعِينَ وَمِائَةً، فَإِذَا كَانَتْ مِائَتَيْنِ فَفِيهَا أَرْبَعُ حِقَاقٍ أَوْ خَمْسُ بَنَاتِ لَبُونٍ أَيُّ السِّنَّيْنِ وُجِدَتْ أُخِذَتْ، وَفِي سَائِمَةِ الْغَنَمِ. فَذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ سُفْيَانَ بْنِ حُسَيْنٍ وَفِيهِ: وَلَا يُؤْخَذُ فِي الصَّدَقَةِ هَرِمَةٌ، وَلَا ذَاتُ عَوَارٍ مِنَ الْغَنَمِ، وَلَا تَيْسُ الْغَنَمِ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ الْمُصَدِّقُ.

ترجمہ Book - حدیث 1570

کتاب: زکوۃ کے احکام و مسائل باب: جنگل میں چرنے والے جانوروں کی زکوٰۃ جناب ابن شہاب نے کہا : یہ نقل ہے اس تحریر کی جو رسول اللہ ﷺ نے صدقہ ( زکوٰۃ ) کے بارے میں لکھی تھی اور یہ آل عمر بن خطاب کے پاس محفوظ تھی ۔ ابن شہاب نے کہا : اسے مجھے سالم بن عبداللہ بن عمر نے پڑھوایا اور میں نے اس کو اسی طرح یاد کر لیا اور یہی وہ تحریر ہے جسے سیدنا عمر بن عبدالعزیز ؓ نے عبداللہ بن عبداللہ بن عمر اور سالم بن عبداللہ بن عمر سے نقل کروایا تھا اور حدیث بیان کی ۔ کہا : ” جب ( اونٹوں کی تعداد ) ایک سو اکیس ہو جائے تو ان میں تین بنت لبون ( دو دو سالہ مادہ ) ہیں ، ایک سو انتیس تک ۔ جب ایک سو تیس ہو جائیں تو ان میں دو بنت لبون ( دو دو سالہ مادہ ) اور ایک حقہ ( تین سالہ مادہ ) ہو گی ، ایک سو انتالیس تک ۔ اور جب ایک سو چالیس ہو جائیں تو ان میں دو حقے ( تین تین سالہ مادہ ) اور ایک بنت لبون ( دو سالہ مادہ ) ہو گی ایک سو انچاس تک ۔ جب ایک سو پچاس ہو جائیں تو ان میں تین عدد حقہ ہوں گی ( تین تین سالہ مادہ ) ایک سو انسٹھ تک ۔ جب ایک سو ساٹھ ہو جائیں تو ان میں چار عدد بنت لبون ہوں گی ایک سو انہتر تک ۔ جب ایک سو ستر ہو جائیں تو ان میں تین عدد بنت لبون اور ایک حقہ ہو گی ایک سو اناسی تک ۔ جب ایک سو اسی ہو جائیں تو اس میں دو عدد حقے اور دو عدد بنت لبون ہوں گی ، ایک سو نواسی تک ۔ جب ایک سو نوے ہو جائیں تو ان میں تین عدد حقے اور ایک بنت لبون ہوں گی ، ایک سو ننانوے تک ۔ اور جب دو سو ہو جائیں تو ان میں چار عدد حقے یا پانچ عدد بنت لبون ہوں گی ، جس عمر کا جانور بھی ہو لے لیا جائے ۔ اور چرنے والی بکریوں میں ۔ “ حدیث سفیان ابن حسین کی مانند ذکر کیا ۔ اس میں ہے ” صدقے میں کوئی بوڑھی یا عیب دار بکری نہ لی جائے اور نہ نر بکرا الا یہ کہ تحصیلدار زکوٰۃ چاہے ۔ “
تشریح : (1)انٹوں میں زکوۃ کی یہ تفصیل اسی قاعدے کےتحت ہے جو گزشتہ حدیث میں بیان ہو چکا ہے کہ ’’ایک سو بیس سے زیادہ ہوجائیں تو (ان کے حصے بنا لیے جائیں )ہر پچاس میں ایک حقہ اور ہر چالیس میں ایک بنت لبون اور کسر معاف ہے ۔‘‘(2)خلیط بمعنی شریک ہی ہے ‘مگر کچھ فرق کیا گیا ہے ۔امام مالک فرماتے ہیں :جب ان کےمال ایک دوسرے سے نمایاں اور ممیز ہوں تو یہ خلیط نہیں ہوتے (شریک ہوتے ہیں )اور جب چرواہا ‘ چراگاہ ‘ باڑہ اور ان کا نر ایک ہوتو خلیط کہلاتے ہیں .....علاوۃ ازیں یہ بھی ہےکہ ایک کے مال کی تعداد بھی نصاب کے مطابق ہو ....جبکہ امام شافعی کہتے ہیں کہ یہ ضروری نہیں ہے بلکہ جب مجموعی مال نصاب کو پہنچتا ہو تو خلیط ہیں خواہ ایک کا حصہ ایک بکر ی ہی کیوں نہ ہو ۔(3)اکٹھے مال کومتفرق کرنا یا متفرق کو جمع کرنا دو غرض سے ہوسکتا ہے زکوۃ ساقط کرنے کے لیے یا اس کی مقدار کم کرنے کے لیے۔مثلاً ساٹھ بکریاں کو جدا جدا کر دیا جائے تو کوئی زکوۃ نہ ہو گی .....یا پچاس پچاس کے ریوڑ پر دو بکریاں آتی ہیں مگر جمع کر دی جائیں تو ایک ہی آئے گی اور اس طرح ایک بکر ی بچالی جائے .......یہ حکم مالک ‘چروا ہے اور تحصیلدار زکوۃ سبھی کو ہے کیونکہ ممکن ہے تحصیلدار کسی کو فائدہ پہنچانے کی غرض سے یہ کام کرے ..یا زکوۃ میں اضافے کےلیے کوئی تدبیر کرنا چاہے ‘ ایسا کرنا کسی کو بھی روا نہیں ہے۔ (1)انٹوں میں زکوۃ کی یہ تفصیل اسی قاعدے کےتحت ہے جو گزشتہ حدیث میں بیان ہو چکا ہے کہ ’’ایک سو بیس سے زیادہ ہوجائیں تو (ان کے حصے بنا لیے جائیں )ہر پچاس میں ایک حقہ اور ہر چالیس میں ایک بنت لبون اور کسر معاف ہے ۔‘‘(2)خلیط بمعنی شریک ہی ہے ‘مگر کچھ فرق کیا گیا ہے ۔امام مالک فرماتے ہیں :جب ان کےمال ایک دوسرے سے نمایاں اور ممیز ہوں تو یہ خلیط نہیں ہوتے (شریک ہوتے ہیں )اور جب چرواہا ‘ چراگاہ ‘ باڑہ اور ان کا نر ایک ہوتو خلیط کہلاتے ہیں .....علاوۃ ازیں یہ بھی ہےکہ ایک کے مال کی تعداد بھی نصاب کے مطابق ہو ....جبکہ امام شافعی کہتے ہیں کہ یہ ضروری نہیں ہے بلکہ جب مجموعی مال نصاب کو پہنچتا ہو تو خلیط ہیں خواہ ایک کا حصہ ایک بکر ی ہی کیوں نہ ہو ۔(3)اکٹھے مال کومتفرق کرنا یا متفرق کو جمع کرنا دو غرض سے ہوسکتا ہے زکوۃ ساقط کرنے کے لیے یا اس کی مقدار کم کرنے کے لیے۔مثلاً ساٹھ بکریاں کو جدا جدا کر دیا جائے تو کوئی زکوۃ نہ ہو گی .....یا پچاس پچاس کے ریوڑ پر دو بکریاں آتی ہیں مگر جمع کر دی جائیں تو ایک ہی آئے گی اور اس طرح ایک بکر ی بچالی جائے .......یہ حکم مالک ‘چروا ہے اور تحصیلدار زکوۃ سبھی کو ہے کیونکہ ممکن ہے تحصیلدار کسی کو فائدہ پہنچانے کی غرض سے یہ کام کرے ..یا زکوۃ میں اضافے کےلیے کوئی تدبیر کرنا چاہے ‘ ایسا کرنا کسی کو بھی روا نہیں ہے۔