Book - حدیث 1567

كِتَابُ الزَّكَاةِ بَابُ فِي زَكَاةِ السَّائِمَةِ صحیح حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ قَالَ أَخَذْتُ مِنْ ثُمَامَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَنَسٍ كِتَابًا زَعَمَ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ كَتَبَهُ لِأَنَسٍ وَعَلَيْهِ خَاتِمُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ بَعَثَهُ مُصَدِّقًا وَكَتَبَهُ لَهُ فَإِذَا فِيهِ هَذِهِ فَرِيضَةُ الصَّدَقَةِ الَّتِي فَرَضَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِهَا نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَنْ سُئِلَهَا مِنْ الْمُسْلِمِينَ عَلَى وَجْهِهَا فَلْيُعْطِهَا وَمَنْ سُئِلَ فَوْقَهَا فَلَا يُعْطِهِ فِيمَا دُونَ خَمْسٍ وَعِشْرِينَ مِنْ الْإِبِلِ الْغَنَمُ فِي كُلِّ خَمْسِ ذَوْدٍ شَاةٌ فَإِذَا بَلَغَتْ خَمْسًا وَعِشْرِينَ فَفِيهَا بِنْتُ مَخَاضٍ إِلَى أَنْ تَبْلُغَ خَمْسًا وَثَلَاثِينَ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِيهَا بِنْتُ مَخَاضٍ فَابْنُ لَبُونٍ ذَكَرٌ فَإِذَا بَلَغَتْ سِتًّا وَثَلَاثِينَ فَفِيهَا بِنْتُ لَبُونٍ إِلَى خَمْسٍ وَأَرْبَعِينَ فَإِذَا بَلَغَتْ سِتًّا وَأَرْبَعِينَ فَفِيهَا حِقَّةٌ طَرُوقَةُ الْفَحْلِ إِلَى سِتِّينَ فَإِذَا بَلَغَتْ إِحْدَى وَسِتِّينَ فَفِيهَا جَذَعَةٌ إِلَى خَمْسٍ وَسَبْعِينَ فَإِذَا بَلَغَتْ سِتًّا وَسَبْعِينَ فَفِيهَا ابْنَتَا لَبُونٍ إِلَى تِسْعِينَ فَإِذَا بَلَغَتْ إِحْدَى وَتِسْعِينَ فَفِيهَا حِقَّتَانِ طَرُوقَتَا الْفَحْلِ إِلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ فَإِذَا زَادَتْ عَلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ فَفِي كُلِّ أَرْبَعِينَ بِنْتُ لَبُونٍ وَفِي كُلِّ خَمْسِينَ حِقَّةٌ فَإِذَا تَبَايَنَ أَسْنَانُ الْإِبِلِ فِي فَرَائِضِ الصَّدَقَاتِ فَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ صَدَقَةُ الْجَذَعَةِ وَلَيْسَتْ عِنْدَهُ جَذَعَةٌ وَعِنْدَهُ حِقَّةٌ فَإِنَّهَا تُقْبَلُ مِنْهُ وَأَنْ يَجْعَلَ مَعَهَا شَاتَيْنِ إِنْ اسْتَيْسَرَتَا لَهُ أَوْ عِشْرِينَ دِرْهَمًا وَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ صَدَقَةُ الْحِقَّةِ وَلَيْسَتْ عِنْدَهُ حِقَّةٌ وَعِنْدَهُ جَذَعَةٌ فَإِنَّهَا تُقْبَلُ مِنْهُ وَيُعْطِيهِ الْمُصَدِّقُ عِشْرِينَ دِرْهَمًا أَوْ شَاتَيْنِ وَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ صَدَقَةُ الْحِقَّةِ وَلَيْسَ عِنْدَهُ حِقَّةٌ وَعِنْدَهُ ابْنَةُ لَبُونٍ فَإِنَّهَا تُقْبَلُ قَالَ أَبُو دَاوُد مِنْ هَاهُنَا لَمْ أَضْبِطْهُ عَنْ مُوسَى كَمَا أُحِبُّ وَيَجْعَلُ مَعَهَا شَاتَيْنِ إِنْ اسْتَيْسَرَتَا لَهُ أَوْ عِشْرِينَ دِرْهَمًا وَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ صَدَقَةُ بِنْتِ لَبُونٍ وَلَيْسَ عِنْدَهُ إِلَّا حِقَّةٌ فَإِنَّهَا تُقْبَلُ مِنْهُ قَالَ أَبُو دَاوُد إِلَى هَاهُنَا ثُمَّ أَتْقَنْتُهُ وَيُعْطِيهِ الْمُصَدِّقُ عِشْرِينَ دِرْهَمًا أَوْ شَاتَيْنِ وَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ صَدَقَةُ ابْنَةِ لَبُونٍ وَلَيْسَ عِنْدَهُ إِلَّا بِنْتُ مَخَاضٍ فَإِنَّهَا تُقْبَلُ مِنْهُ وَشَاتَيْنِ أَوْ عِشْرِينَ دِرْهَمًا وَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ صَدَقَةُ ابْنَةِ مَخَاضٍ وَلَيْسَ عِنْدَهُ إِلَّا ابْنُ لَبُونٍ ذَكَرٌ فَإِنَّهُ يُقْبَلُ مِنْهُ وَلَيْسَ مَعَهُ شَيْءٌ وَمَنْ لَمْ يَكُنْ عِنْدَهُ إِلَّا أَرْبَعٌ فَلَيْسَ فِيهَا شَيْءٌ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ رَبُّهَا وَفِي سَائِمَةِ الْغَنَمِ إِذَا كَانَتْ أَرْبَعِينَ فَفِيهَا شَاةٌ إِلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ فَإِذَا زَادَتْ عَلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ فَفِيهَا شَاتَانِ إِلَى أَنْ تَبْلُغَ مِائَتَيْنِ فَإِذَا زَادَتْ عَلَى مِائَتَيْنِ فَفِيهَا ثَلَاثُ شِيَاهٍ إِلَى أَنْ تَبْلُغَ ثَلَاثَ مِائَةٍ فَإِذَا زَادَتْ عَلَى ثَلَاثِ مِائَةٍ فَفِي كُلِّ مِائَةِ شَاةٍ شَاةٌ وَلَا يُؤْخَذُ فِي الصَّدَقَةِ هَرِمَةٌ وَلَا ذَاتُ عَوَارٍ مِنْ الْغَنَمِ وَلَا تَيْسُ الْغَنَمِ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ الْمُصَدِّقُ وَلَا يُجْمَعُ بَيْنَ مُفْتَرِقٍ وَلَا يُفَرَّقُ بَيْنَ مُجْتَمِعٍ خَشْيَةَ الصَّدَقَةِ وَمَا كَانَ مِنْ خَلِيطَيْنِ فَإِنَّهُمَا يَتَرَاجَعَانِ بَيْنَهُمَا بِالسَّوِيَّةِ فَإِنْ لَمْ تَبْلُغْ سَائِمَةُ الرَّجُلِ أَرْبَعِينَ فَلَيْسَ فِيهَا شَيْءٌ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ رَبُّهَا وَفِي الرِّقَةِ رُبْعُ الْعُشْرِ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ الْمَالُ إِلَّا تِسْعِينَ وَمِائَةً فَلَيْسَ فِيهَا شَيْءٌ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ رَبُّهَا-

ترجمہ Book - حدیث 1567

کتاب: زکوۃ کے احکام و مسائل باب: جنگل میں چرنے والے جانوروں کی زکوٰۃ حماد بیان کرتے ہیں کہ میں نے یہ تحریر جناب ثمامہ بن عبداللہ بن انس سے حاصل کی ہے ۔ وہ کہتے تھے کہ اسے سیدنا ابوبکر صدیق ؓ نے سیدنا انس ؓ کے لیے لکھا تھا جبکہ ان کو صدقہ کے لیے تحصیلدار بنا کر بھیجا تھا اور اس پر رسول اللہ ﷺ کی مہر تھی ۔ اس میں تحریر تھا ، یہ فریضہ زکوٰۃ کی تفصیل ہے جسے رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں پر فرض کیا تھا ، جس کا اللہ نے اپنے نبی کریم ﷺ کو حکم دیا تھا ۔ سو جس بھی مسلمان سے اس کے مطابق مطالبہ کیا جائے ، وہ ادا کرے اور جس سے اس کے علاوہ مزید مانگا جائے تو وہ نہ دے ۔ پچیس سے کم اونٹوں میں ( زکوٰۃ بکریوں کی صورت میں ہے ) ہر پانچ اونٹوں پر ایک بکری ہے ۔ جب پچیس ہو جائیں تو ان میں ایک بنت مخاض ( ایک برس کی مادہ اونٹنی ) ہے ، پینتیس تک ۔ اگر ان میں کوئی ایک برس کی ( بنت مخاض ) نہ ہو تو دو برس کا نر اونٹ دے ( جسے ابن لبون کہتے ہیں ) اور جب چھتیس ہو جائیں تو ان میں دو سال کی مادہ اونٹنی ( بنت لبون ) ہے ، پینتالیس تک ۔ اور جب چھیالیس ہو جائیں تو ان میں حقہ ہے ( تین سال کی مادہ اونٹنی ) جو جفتی کے لائق ہو ، ساٹھ تک ۔ جب اکسٹھ ہو جائیں تو ان میں جذعہ ( چار سال کی مادہ اونٹنی ) ہے ، پچھتر تک ۔ اور جب چھہتر ہو جائیں تو ان میں دو عدد بنت لبون ( دو دو برس کی مادہ اونٹنیاں ) ہیں ، نوے تک ۔ اور جب اکانوے ہو جائیں تو ان میں دو عدد حقہ ( تین تین سال کی مادہ اونٹنیاں ) ہیں ، جو جفتی کے لائق ہوں ، ایک سو بیس تک ۔ اور جب ایک سو بیس سے بڑھ جائیں تو ہر چالیس میں بنت لبون ( دو سال کی مادہ اونٹنی ) اور ہر پچاس میں حقہ ( تین سال کی مادہ اونٹنی ) ہے ۔ اگر زکوٰۃ میں واجب ہونے والے جانوروں کی عمروں میں فرق ہو ، تو جس پر جذعہ لازم ہو ( چار سال کی مادہ ) مگر اس کے پاس جذعہ نہ ہو بلکہ ( اس سے کم عمر ) حقہ ( تین سال کی اونٹنی ) ہو تو اس سے حقہ لے لی جائے اور وہ اس کے ساتھ دو بکریاں ملا دے اگر میسر ہوں یا بیس درہم ( چاندی کے ) اور جس پر زکوٰۃ میں حقہ ( تین سال کی ) واجب ہوئی ہو ، مگر اس کے پاس حقہ نہ ہو بلکہ جذعہ ( چار سال کی ) ہو تو اس سے جذعہ لے لی جائے اور تحصیلدار اس کو بیس درہم دیدے یا دو بکریاں ۔ اور جس پر حقہ ( تین سال کی اونٹنی ) واجب ہوئی ہو مگر موجود نہ ہو بلکہ بنت لبون ( دو سال کی مادہ ) ہو تو اس سے بنت لبون لے لی جائے ۔ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں حدیث کے اس حصے کے بعد مجھے اپنے شیخ موسیٰ بن اسمعیل سے ک حقہ ضبط نہیں ہے ۔ اور صاحب مال اس کے ساتھ دو بکریاں دے اگر میسر ہوں ، یا بیس درہم ۔ اور جس پر زکوٰۃ میں بنت لبون ( دو سال کی مادہ ) لازم آئی ہو مگر اس کے پاس حقہ ( یعنی تین سال کی مادہ ) ہو تو اس سے وہ حقہ لے لی جائے امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں ، اس حصے کے بعد مجھے خوب ضبط ہے ، اور تحصیلدار اسے بیس درہم دیدے یا دو بکریاں ۔ اور جس پر بنت لبون ( دو سالہ مادہ ) لاگو ہوئی ہو مگر اس کے پاس ایک سالہ ( بنت مخاض ) ہو تو اس سے وہی قبول کر لی جائے اور ساتھ دو بکریاں لی جائیں یا بیس درہم ۔ اور جس پر بنت مخاض ( ایک سالہ مادہ ) لازم آئی ہو مگر اس کے پاس دو سالہ نر ( ابن لبون ) موجود ہو تو اس سے وہی لے لیا جائے مگر اس کے ساتھ کچھ ( واپس ) نہیں ہو گا ۔ اور جس شخص کے پاس صرف چار اونٹ ہوں تو اس پر کوئی زکوٰۃ واجب نہیں ہے الا یہ کہ ان کا مالک چاہے ۔ اور چرنے والی بکریوں کی زکوٰۃ ( کی تفصیل ) یہ ہے کہ چالیس سے لے کر ایک سو بیس تک میں ایک بکری ہے ۔ اگر اس سے بڑھ جائیں تو دو بکریاں ہیں دو سو تک ۔ دو سو سے زیادہ میں تین بکریاں ہیں ، تین سو تک ۔ اگر بکریاں تین سو سے بڑھ جائیں تو ہر ہر سو میں ایک بکری ہے ۔ زکوٰۃ میں کوئی بوڑھی یا عیب دار بکری نہ لی جائے اور نہ بکرا ( جفتی والا نر ) ہی لیا جائے الا یہ کہ تحصیلدار زکوٰۃ کی خواہش ہو ۔ اور زکوٰۃ کے خوف سے دو علیحدہ ریوڑوں کو جمع نہ کیا جائے اور نہ اکٹھے مال کو علیحدہ علیحدہ کیا جائے ۔ اور جن دو مشترک مالکوں کا مال اکٹھا ہو اور زکوٰۃ اکٹھی ہی لی گئی ہو تو وہ آپس میں برابر برابر لیں دین کر لیں ۔ اگر کسی کی جنگل میں چرنے والی بکریاں چالیس کی گنتی کو نہ پہنچتی ہوں تو ان میں کوئی زکوٰۃ نہیں ہے الا یہ کہ ان کا مالک چاہے ۔ چاندی میں چالیسواں حصہ ہے ۔ اگر مال صرف ایک سو نوے درہم ہو تو اس میں کوئی زکوٰۃ نہیں الا یہ کہ اس کا مالک چاہے ۔
تشریح : (1)فریضہ زکوۃ کی اس تفصیل سے مقام رسالت کی بھی وضاحت ہوتی ہے ۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿بِالبَيِّنـٰتِ وَالزُّبُرِ‌ ۗ وَأَنزَلنا إِلَيكَ الذِّكرَ‌ لِتُبَيِّنَ لِلنّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيهِم وَلَعَلَّهُم يَتَفَكَّر‌ونَ﴾ (النحل:44) ’’ یہ ذکر (کتاب) ہم نے آپ کی طرف اتارا ہے کہ لوگوں کی جانب جو نازل فرمایا گیا ہے آپ اسے کھول کھول کر بیان کر دیں۔‘‘(2) احادیث نبویہ کا ایک معقول حصہ دور رسالت میں آپ کے حین حیات ضبط تحریر میں لایا گیا تھا ‘ ان میں سے مذکورہ بالا تفصیلات زکوۃ بھی ہیں لہذا منکرین حجت حدیث کو غور کرنا چاہیے ۔ (3)شرعی حقوق مالیہ طلب کرنے پر ادا کرنے واجب ہیں ۔اگر حکومت اس فریضے سے غافل ہو تو مسلمانوں کو از خودان کا ادا کرنا فرض ہے ۔(4) مقررہ مقدار زکوۃ سے زیادہ کا مطالبہ ہو تو جرات سے انکار کرنا چاہیے ۔الا یہ کہ حالات دگرگوں ہوں ۔(5)مقررہ نصاب سے کم میں زکوۃ واجب نہیں۔مالک خوشی سےپیش کرے تو قبول کر لی جائے جو اس کے لیے باعث اجر و ثواب ہے ۔ ٹیکس اور زکوۃ و صدقات میں یہی بنیادی فرق ہے کہ مسلمان شرعی واجبات تنگی ترشی میں بخوشی ادا کرتا ہے بخلاف ٹیکسوں کے ۔(6)اونٹوں کی مذکورہ بالا زکوۃکے جانوروں کی عمریں بالکل پوری ہونی چاہییں۔مثلاً ’’بنت مخاض ‘‘ وہ اونٹنی ہے جو ایک سال کی ہو کر دوسرے سال میں داخل ہو چکی ہو ۔’’بنت لبون ‘‘ وہ اونٹنی ہے جو دو سال کی ہو کر تیسرے میں لگ چکی ہو ‘ اسی طرح باقی بھی ۔(7)لاگو ہونے والی زکوۃ میں حسب مصلحت جانوروں کو بدلنا یا ان کی قیمت لینا دینا بھی جائز ہے ۔(8)اکٹھے ریوڑوں کو علیحدہ کرنا یوں ہے کہ .....مثلاً ایک ریوڑ میں دومالکوں کی کل پچاس بکریاں ہوں توان میں ایک بکری زکوۃ آتی ہے مگر تحصیلدار زکوۃ کی آمد کےموقع پر یہ دونوں اپنے اپنے جانور علیحدہ کر لیں تو پچیس پچیس بکریاں میں کوئی زکوۃ نہ آئے گی ۔ یہ حیلہ ناجائز اور حرام ہے ۔اسی طرح علیحدہ علیحدہ ریوڑوں کو اکٹھے دکھانا بھی ناجائز اور حرام ہے۔مثلاً ساٹھ ساٹھ بکریوں کے دو ریوڑوں پر دو بکریاں زکوۃ لاگو ہوگی لیکن اگر ان کو ایک ہی ریوڑ شمار کیا کرایاجائے تو ایک سو بیس میں صرف ایک بکری آئے گی ۔اسی طرح ایک بکری بچا لینا حرام ہوگا ۔ (9)لاگو شدہ زکوۃ کے جانوروں میں مادہ جانور لینا دینا اس لیے تاکیدی ہے کہ ان کی افزائش ہوتی رہتی ہے جبکہ نر صرف جفتی کا فائدہ دیتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اونٹوں میں اگر بنت مخاض (ایک سالہ مادہ )لازم آئی ہومگر موجود نہ ہو تو ابن لبون (دو سالہ نر )لیا جائے اور کچھ واپس نہ کیا جائے ۔(10) زکوۃ میں اللہ تعالیٰ ہی کو راضی کرنا مطلوب ہے اس لیے اسے اخلاص سےعمدہ مال پیش کیا جائے ۔ ضعیف ‘بیمار یا عیب دار جانور پیش کرنا یا قبول کرنا ناجائز ہے ۔(11)ایسے جانور جوگھروں میں پالے جاتے ہیں ‘جنگل میں چرنے نہیں جاتے ان پر اس انداز سے زکوۃ نہیں بلکہ اگر وہ تجارت کےلیے ہیں تو ان کی مجموعی قیمت پر زکوۃ آئے گی یا ان سے حاصل آمدنی پر زکوۃ ہو گی۔واللہ اعلم ۔ (12) جن دو مشترک مالکوں کا مال اکٹھا ہی لی گی ہوتو وہ آپس میں برابر لین دین کر لیں۔اس کی مثال یہ ہے کہ دو شرکاء تھے ۔ساٹھ ساٹھ بکریاں ہر ایک کی تھیں۔مجموعی طور سے ایک بکری زکوۃ لی گئی ۔ظاہر ہے آدھی آدھی بکری دونوں پر لازم آئی تو اب جس کے مال سے ایک بکری لی گئی ہے وہ اپنے دوسرے ساتھی سے آدھی بکری کے دام لے لے گا اور وہ دوسرااسے آدھی بکری کے دام دے گا ۔اس طرح دونوں پر زکوۃ برابر برابر ہو جائے گی ۔ (1)فریضہ زکوۃ کی اس تفصیل سے مقام رسالت کی بھی وضاحت ہوتی ہے ۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿بِالبَيِّنـٰتِ وَالزُّبُرِ‌ ۗ وَأَنزَلنا إِلَيكَ الذِّكرَ‌ لِتُبَيِّنَ لِلنّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيهِم وَلَعَلَّهُم يَتَفَكَّر‌ونَ﴾ (النحل:44) ’’ یہ ذکر (کتاب) ہم نے آپ کی طرف اتارا ہے کہ لوگوں کی جانب جو نازل فرمایا گیا ہے آپ اسے کھول کھول کر بیان کر دیں۔‘‘(2) احادیث نبویہ کا ایک معقول حصہ دور رسالت میں آپ کے حین حیات ضبط تحریر میں لایا گیا تھا ‘ ان میں سے مذکورہ بالا تفصیلات زکوۃ بھی ہیں لہذا منکرین حجت حدیث کو غور کرنا چاہیے ۔ (3)شرعی حقوق مالیہ طلب کرنے پر ادا کرنے واجب ہیں ۔اگر حکومت اس فریضے سے غافل ہو تو مسلمانوں کو از خودان کا ادا کرنا فرض ہے ۔(4) مقررہ مقدار زکوۃ سے زیادہ کا مطالبہ ہو تو جرات سے انکار کرنا چاہیے ۔الا یہ کہ حالات دگرگوں ہوں ۔(5)مقررہ نصاب سے کم میں زکوۃ واجب نہیں۔مالک خوشی سےپیش کرے تو قبول کر لی جائے جو اس کے لیے باعث اجر و ثواب ہے ۔ ٹیکس اور زکوۃ و صدقات میں یہی بنیادی فرق ہے کہ مسلمان شرعی واجبات تنگی ترشی میں بخوشی ادا کرتا ہے بخلاف ٹیکسوں کے ۔(6)اونٹوں کی مذکورہ بالا زکوۃکے جانوروں کی عمریں بالکل پوری ہونی چاہییں۔مثلاً ’’بنت مخاض ‘‘ وہ اونٹنی ہے جو ایک سال کی ہو کر دوسرے سال میں داخل ہو چکی ہو ۔’’بنت لبون ‘‘ وہ اونٹنی ہے جو دو سال کی ہو کر تیسرے میں لگ چکی ہو ‘ اسی طرح باقی بھی ۔(7)لاگو ہونے والی زکوۃ میں حسب مصلحت جانوروں کو بدلنا یا ان کی قیمت لینا دینا بھی جائز ہے ۔(8)اکٹھے ریوڑوں کو علیحدہ کرنا یوں ہے کہ .....مثلاً ایک ریوڑ میں دومالکوں کی کل پچاس بکریاں ہوں توان میں ایک بکری زکوۃ آتی ہے مگر تحصیلدار زکوۃ کی آمد کےموقع پر یہ دونوں اپنے اپنے جانور علیحدہ کر لیں تو پچیس پچیس بکریاں میں کوئی زکوۃ نہ آئے گی ۔ یہ حیلہ ناجائز اور حرام ہے ۔اسی طرح علیحدہ علیحدہ ریوڑوں کو اکٹھے دکھانا بھی ناجائز اور حرام ہے۔مثلاً ساٹھ ساٹھ بکریوں کے دو ریوڑوں پر دو بکریاں زکوۃ لاگو ہوگی لیکن اگر ان کو ایک ہی ریوڑ شمار کیا کرایاجائے تو ایک سو بیس میں صرف ایک بکری آئے گی ۔اسی طرح ایک بکری بچا لینا حرام ہوگا ۔ (9)لاگو شدہ زکوۃ کے جانوروں میں مادہ جانور لینا دینا اس لیے تاکیدی ہے کہ ان کی افزائش ہوتی رہتی ہے جبکہ نر صرف جفتی کا فائدہ دیتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اونٹوں میں اگر بنت مخاض (ایک سالہ مادہ )لازم آئی ہومگر موجود نہ ہو تو ابن لبون (دو سالہ نر )لیا جائے اور کچھ واپس نہ کیا جائے ۔(10) زکوۃ میں اللہ تعالیٰ ہی کو راضی کرنا مطلوب ہے اس لیے اسے اخلاص سےعمدہ مال پیش کیا جائے ۔ ضعیف ‘بیمار یا عیب دار جانور پیش کرنا یا قبول کرنا ناجائز ہے ۔(11)ایسے جانور جوگھروں میں پالے جاتے ہیں ‘جنگل میں چرنے نہیں جاتے ان پر اس انداز سے زکوۃ نہیں بلکہ اگر وہ تجارت کےلیے ہیں تو ان کی مجموعی قیمت پر زکوۃ آئے گی یا ان سے حاصل آمدنی پر زکوۃ ہو گی۔واللہ اعلم ۔ (12) جن دو مشترک مالکوں کا مال اکٹھا ہی لی گی ہوتو وہ آپس میں برابر لین دین کر لیں۔اس کی مثال یہ ہے کہ دو شرکاء تھے ۔ساٹھ ساٹھ بکریاں ہر ایک کی تھیں۔مجموعی طور سے ایک بکری زکوۃ لی گئی ۔ظاہر ہے آدھی آدھی بکری دونوں پر لازم آئی تو اب جس کے مال سے ایک بکری لی گئی ہے وہ اپنے دوسرے ساتھی سے آدھی بکری کے دام لے لے گا اور وہ دوسرااسے آدھی بکری کے دام دے گا ۔اس طرح دونوں پر زکوۃ برابر برابر ہو جائے گی ۔