Book - حدیث 1563

كِتَابُ الزَّكَاةِ بَابُ الْكَنْزِ مَا هُوَ وَزَكَاةِ الْحُلِيِّ حسن حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ وَحُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ الْمَعْنَى أَنَّ خَالِدَ بْنَ الْحَارِثِ حَدَّثَهُمْ حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ أَنَّ امْرَأَةً أَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهَا ابْنَةٌ لَهَا وَفِي يَدِ ابْنَتِهَا مَسَكَتَانِ غَلِيظَتَانِ مِنْ ذَهَبٍ فَقَالَ لَهَا أَتُعْطِينَ زَكَاةَ هَذَا قَالَتْ لَا قَالَ أَيَسُرُّكِ أَنْ يُسَوِّرَكِ اللَّهُ بِهِمَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ سِوَارَيْنِ مِنْ نَارٍ قَالَ فَخَلَعَتْهُمَا فَأَلْقَتْهُمَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَتْ هُمَا لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَلِرَسُولِهِ

ترجمہ Book - حدیث 1563

کتاب: زکوۃ کے احکام و مسائل باب: کنز کی تعریف اور زیورات کی زکوٰۃ کا مسئلہ جناب عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ ( شعیب ) اپنے دادا ( عبداللہ بن عمرو ؓ ) سے روایت کرتے ہیں کہ ایک خاتون رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئیں ۔ ان کے ساتھ ان کی بیٹی بھی تھی اور بیٹی کے ہاتھ میں سونے کے دو موٹے موٹے کنگن تھے ۔ آپ ﷺ نے اس خاتون سے پوچھا ” کیا تم اس کی زکوٰۃ دیتی ہو ؟ “ اس نے کہا ، نہیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ” کیا تمہیں یہ بات اچھی لگتی ہے کہ قیامت کے روز اللہ تمہیں ان کے بدلے آگ کے دو کنگن پہنائے ؟ “ چنانچہ اس عورت نے ان کو اتارا اور نبی کریم ﷺ کے سامنے ڈال دیا اور کہنے لگی ، یہ اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہیں ۔
تشریح : (1)مال کو جوڑ جوڑ کر رکھنا ‘ خزانہ بنانا اور اللہ کا حق ادا نہ کرنا‘ عند اللہ بہت معیوب اور عذاب الیم کا باعث ہے ۔جیسے کہ سورہ توبہ میں ارشاد ہے :﴿وَالَّذينَ يَكنِزونَ الذَّهَبَ وَالفِضَّةَ وَلا يُنفِقونَها فى سَبيلِ اللَّهِ فَبَشِّر‌هُم بِعَذابٍ أَليمٍ * يَومَ يحمىٰ عَلَيها فى نارِ‌ جَهَنَّمَ فَتُكوىٰ بِها جِباهُهُم وَجُنوبُهُم وَظُهورُ‌هُم ۖ هـٰذا ما كَنَزتُم لِأَنفُسِكُم فَذوقوا ما كُنتُم تَكنِزونَ﴾(التوبة :34۔35)’’ اور جو لوگ سونے چاندی کا خزانہ رکھتے ہیں اور اللہ کی راه میں خرچ نہیں کرتے، انہیں دردناک عذاب کی خبر پہنچا دیجئے۔جس دن اس خزانے کو آتش دوزخ میں تپایا جائے گا پھر اس سے ان کی پیشانیاں اور پہلو اور پیٹھیں داغی جائیں گی (ان سے کہا جائے گا) یہ ہے جسے تم نے اپنے لئے خزانہ بنا کر رکھا تھا۔ پس اپنے خزانوں کا مزه چکھو۔‘‘لغت میں[کنز] یہ ہے کہ دولت کو زمین میں دفن کر کے رکھا جائے ‘مگر عرف شرع میں جس مال کی زکوۃ نہ دی جائے ‘ وہ کنز کہلاتا ہے ۔سونا چاندی کے زیور کی زکوۃ میں کچھ اختلاف ہے۔تاہم جمہور علماء زیور میں زکوۃ کے قائل ہیں اور احتیاط کے لحاظ سے بھی یہی مسلک زیادہ صحیح ہے ۔زیورکی زکوۃ دونوں طریقوں سےنکالی جا سکتی ہے ۔زیور میں چالیسواں حصہ سونا یاچاندی بطور زکوۃ نکال دی جائے یا چالیسواں حصے کی قیمت ادا کر دی جائے ۔ دونوں طرح جائز ہے ۔تاہم کسی کے پاس اگر حد نصاب (7 ½)تولہ سونا یا 52 ½ تولے چاندی ) سے کم زیور ہے تو اس پر زکوۃ عائد نہیں ہو گی ۔(29بچے بچیاں جب اپنے ماں باپ کی سر پرستی میں ہوں تو ان پر واجب ہے کہ ان کی کے مال کی زکوۃ ادا کریں یا کروائیں ۔ (1)مال کو جوڑ جوڑ کر رکھنا ‘ خزانہ بنانا اور اللہ کا حق ادا نہ کرنا‘ عند اللہ بہت معیوب اور عذاب الیم کا باعث ہے ۔جیسے کہ سورہ توبہ میں ارشاد ہے :﴿وَالَّذينَ يَكنِزونَ الذَّهَبَ وَالفِضَّةَ وَلا يُنفِقونَها فى سَبيلِ اللَّهِ فَبَشِّر‌هُم بِعَذابٍ أَليمٍ * يَومَ يحمىٰ عَلَيها فى نارِ‌ جَهَنَّمَ فَتُكوىٰ بِها جِباهُهُم وَجُنوبُهُم وَظُهورُ‌هُم ۖ هـٰذا ما كَنَزتُم لِأَنفُسِكُم فَذوقوا ما كُنتُم تَكنِزونَ﴾(التوبة :34۔35)’’ اور جو لوگ سونے چاندی کا خزانہ رکھتے ہیں اور اللہ کی راه میں خرچ نہیں کرتے، انہیں دردناک عذاب کی خبر پہنچا دیجئے۔جس دن اس خزانے کو آتش دوزخ میں تپایا جائے گا پھر اس سے ان کی پیشانیاں اور پہلو اور پیٹھیں داغی جائیں گی (ان سے کہا جائے گا) یہ ہے جسے تم نے اپنے لئے خزانہ بنا کر رکھا تھا۔ پس اپنے خزانوں کا مزه چکھو۔‘‘لغت میں[کنز] یہ ہے کہ دولت کو زمین میں دفن کر کے رکھا جائے ‘مگر عرف شرع میں جس مال کی زکوۃ نہ دی جائے ‘ وہ کنز کہلاتا ہے ۔سونا چاندی کے زیور کی زکوۃ میں کچھ اختلاف ہے۔تاہم جمہور علماء زیور میں زکوۃ کے قائل ہیں اور احتیاط کے لحاظ سے بھی یہی مسلک زیادہ صحیح ہے ۔زیورکی زکوۃ دونوں طریقوں سےنکالی جا سکتی ہے ۔زیور میں چالیسواں حصہ سونا یاچاندی بطور زکوۃ نکال دی جائے یا چالیسواں حصے کی قیمت ادا کر دی جائے ۔ دونوں طرح جائز ہے ۔تاہم کسی کے پاس اگر حد نصاب (7 ½)تولہ سونا یا 52 ½ تولے چاندی ) سے کم زیور ہے تو اس پر زکوۃ عائد نہیں ہو گی ۔(29بچے بچیاں جب اپنے ماں باپ کی سر پرستی میں ہوں تو ان پر واجب ہے کہ ان کی کے مال کی زکوۃ ادا کریں یا کروائیں ۔