كِتَابُ الزَّكَاةِ بَابُ الْعُرُوضِ إِذَا كَانَتْ لِلتِّجَارَةِ هَلْ فِيهَا مِنْ زَكَاةٍ ضعیف حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ دَاوُدَ بْنِ سُفْيَانَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سَعْدِ بْنِ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ حَدَّثَنِي خُبَيْبُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ أَبِيهِ سُلَيْمَانَ عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ قَالَ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْمُرُنَا أَنْ نُخْرِجَ الصَّدَقَةَ مِنْ الَّذِي نُعِدُّ لِلْبَيْعِ
کتاب: زکوۃ کے احکام و مسائل
باب: کیا سامان تجارت میں زکوٰۃ ہے ؟
سیدنا سمرہ بن جندب ؓ نے فرمایا ” امابعد ! بلاشبہ رسول اللہ ﷺ ہمیں حکم دیا کرتے تھے کہ جو مال ہم تجارت کے لیے تیار کریں اس سے صدقہ ( زکوٰۃ ) دیا کریں ۔ “
تشریح :
امام ابو داؤد اور علامہ منذری اس حدیث پر ساکت (خاموش ) ہیں۔ابن عبدالبر نے اس کی سند کو حسن کہا ہے ۔علامہ ابن حجر نے اس کی سند کےبارے میں کہا ہے کہ اس میں جہالت ہے ۔(راوی مجہول ہے۔)شیخ شوکانی نے بھی ’’السیل الجرار ‘‘ میں ایسے ہی لکھا ہے ۔(السیل الجرار :2/26۔27)‘ارواء الغلیل فی تخریج احادیث منار السبیل للالبانی میں ہے کہ مال تجارت میں زکوۃ کی احادیث ضعیف ہیں فتاوی ابن تیمیہ میں ہے کہ اموال تجارت میں زکوۃ ہے ۔ (25/15)ابن المنذر نے فرمایا ہے کہ اہل علم کا اس مسئلے پر اجماع ہے کہ سال گزرنے پر مال تجارت میں زکوۃ ہے ۔حضرت عمر ‘ ابن عمر اور ابن عباس سےیہی مروی ہے ۔فقہائے سبعہ ‘ حسن ‘جابر بن زید ‘ میمون بن مہران ‘ طاؤوس ‘نخعی ‘ثوری ‘ اوزاعی ‘ ابو حنیفہ ‘ احمد ‘ اسحاق ‘ ابو عبید اور امام ابن تیمیہ کا یہی فتویٰ ہے ۔الغرض احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ مال تجارت کسی بھی قسم کا ہو اس کی قیمت کا اعتبار کرکے اس کی زکوۃ ادا کر دی جائے ۔اموال تجارت میں زکوۃ کی ادائیگی کا طریقہ یہ کہ سال بہ سال جتنا تجارت مال دوکان یا گودام وغیرہ میں ہو ‘ اس کی قیمت کا اندازہ کر لیا جائے ۔علاوہ ازیں جتنی رقم گردش میں ہو اور جو رقم موجود ہو ‘ اس کو بھی شمار کر لیا جائے ۔نقد رقم ‘ کاروبار میں لگا ہوا سرمایہ اور سامان تجارت کی تخمینی قیمت سب ملاکر جتنی رقم ہو ‘ اس پر ڈھائی فیصد کے حساب سے زکوۃ ادا کی جائے ۔تاہم کوئی تجارتی مال اس طرح کا ہے کہ وہ خریدا ‘ لیکن وہ کئی سال تک فروخت نہیں ہوا ‘تواس مال کی زکوۃ اس کے فروخت ہونے پر صرف ایک سال کی ادا کی جائے گی ۔ورنہ عام مال جو دوکان میں فروخت نہیں ہوتا رہتا ہے اور نیا سٹاک آتا رہتا ہے ‘ وہاں چونکہ فرداً فرداً ایک ایک چیز کا حساب مشکل ہے ‘ اس لیے سال کےبعد سارے مال کا بہ حیثیت مجموعی قیمت کا اندازہ کر کے زکوۃ نکالی جائے۔اگر کوئی رقم کسی کاروبا میں منجمد ہو گئی ہو ‘جیسا کہ بعض دفعہ ایسا ہوجاتا ہے اور وہ وقم دوتین سال یا اس سے زیادہ دیر تک پھنس رہتی ہے یا کسی پارٹی کے ساتھ سابقہ پیش آ جاتا ہے کہ کئی سال رقم وصول نہیں ہوتی تو ایسی ڈوبی ہوئی رقم کی زکوۃ سال بہ سال دینی ضروری نہیں ۔جب رقم وصول ہو جائے ‘ اس وقت سال کی زکوۃ ادا کر دی جائے ‘ وہ جب بھی وصول ہو ۔
امام ابو داؤد اور علامہ منذری اس حدیث پر ساکت (خاموش ) ہیں۔ابن عبدالبر نے اس کی سند کو حسن کہا ہے ۔علامہ ابن حجر نے اس کی سند کےبارے میں کہا ہے کہ اس میں جہالت ہے ۔(راوی مجہول ہے۔)شیخ شوکانی نے بھی ’’السیل الجرار ‘‘ میں ایسے ہی لکھا ہے ۔(السیل الجرار :2/26۔27)‘ارواء الغلیل فی تخریج احادیث منار السبیل للالبانی میں ہے کہ مال تجارت میں زکوۃ کی احادیث ضعیف ہیں فتاوی ابن تیمیہ میں ہے کہ اموال تجارت میں زکوۃ ہے ۔ (25/15)ابن المنذر نے فرمایا ہے کہ اہل علم کا اس مسئلے پر اجماع ہے کہ سال گزرنے پر مال تجارت میں زکوۃ ہے ۔حضرت عمر ‘ ابن عمر اور ابن عباس سےیہی مروی ہے ۔فقہائے سبعہ ‘ حسن ‘جابر بن زید ‘ میمون بن مہران ‘ طاؤوس ‘نخعی ‘ثوری ‘ اوزاعی ‘ ابو حنیفہ ‘ احمد ‘ اسحاق ‘ ابو عبید اور امام ابن تیمیہ کا یہی فتویٰ ہے ۔الغرض احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ مال تجارت کسی بھی قسم کا ہو اس کی قیمت کا اعتبار کرکے اس کی زکوۃ ادا کر دی جائے ۔اموال تجارت میں زکوۃ کی ادائیگی کا طریقہ یہ کہ سال بہ سال جتنا تجارت مال دوکان یا گودام وغیرہ میں ہو ‘ اس کی قیمت کا اندازہ کر لیا جائے ۔علاوہ ازیں جتنی رقم گردش میں ہو اور جو رقم موجود ہو ‘ اس کو بھی شمار کر لیا جائے ۔نقد رقم ‘ کاروبار میں لگا ہوا سرمایہ اور سامان تجارت کی تخمینی قیمت سب ملاکر جتنی رقم ہو ‘ اس پر ڈھائی فیصد کے حساب سے زکوۃ ادا کی جائے ۔تاہم کوئی تجارتی مال اس طرح کا ہے کہ وہ خریدا ‘ لیکن وہ کئی سال تک فروخت نہیں ہوا ‘تواس مال کی زکوۃ اس کے فروخت ہونے پر صرف ایک سال کی ادا کی جائے گی ۔ورنہ عام مال جو دوکان میں فروخت نہیں ہوتا رہتا ہے اور نیا سٹاک آتا رہتا ہے ‘ وہاں چونکہ فرداً فرداً ایک ایک چیز کا حساب مشکل ہے ‘ اس لیے سال کےبعد سارے مال کا بہ حیثیت مجموعی قیمت کا اندازہ کر کے زکوۃ نکالی جائے۔اگر کوئی رقم کسی کاروبا میں منجمد ہو گئی ہو ‘جیسا کہ بعض دفعہ ایسا ہوجاتا ہے اور وہ وقم دوتین سال یا اس سے زیادہ دیر تک پھنس رہتی ہے یا کسی پارٹی کے ساتھ سابقہ پیش آ جاتا ہے کہ کئی سال رقم وصول نہیں ہوتی تو ایسی ڈوبی ہوئی رقم کی زکوۃ سال بہ سال دینی ضروری نہیں ۔جب رقم وصول ہو جائے ‘ اس وقت سال کی زکوۃ ادا کر دی جائے ‘ وہ جب بھی وصول ہو ۔