كِتَابُ الزَّكَاةِ بَابُ مَا تَجِبُ فِيهِ الزَّكَاةُ صحیح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ قَالَ قَرَأْتُ عَلَى مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى الْمَازِنِيِّ عَنْ أَبِيهِ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسِ ذَوْدٍ صَدَقَةٌ وَلَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسِ أَوَاقٍ صَدَقَةٌ وَلَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ صَدَقَةٌ
کتاب: زکوۃ کے احکام و مسائل
باب: کن چیزوں میں زکوٰۃ واجب ہے ؟
سیدنا ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” پانچ اونٹوں سے کم میں زکوٰۃ نہیں ۔ اور پانچ اوقیہ ( چاندی ) سے کم میں زکوٰۃ نہیں ۔ اور پانچ وسق سے کم ( غلے ) میں زکوٰۃ نہیں ۔ “
تشریح :
(1)سونے چاندی ‘ مال مویشی اور دیگر اجناس کے لیے مقررہ نصاب سے کم میں زکوۃ فرض نہیں ہے ۔ویسے کوئی دینا چاہے تو صدقہ ہے اور محبوب عمل ہے ۔(2) ایک اوقیہ میں چالیس درہم اور ایک درہم تقریباً 2.975 گرام چاندی کا ہوتاہے ۔اسی طرح ایک اوقیہ کا وزن ایک سو انیس گرام ‘ اور پانچ اوقیہ چاندی کا وزن پانچ سو پچانوے گرام ہوا ۔جس کا وزن تولہ کے حساب سے 51 تولہ (اور سابقہ علماء کے حساب سے 52 ½ تولہ )ہوتا ہے۔(3)ایک وسق میں ساٹھ صاع ہوتے ہیں جیسا کہ اگلی روایات میں آرہا ہے ‘ اور ایک صاع میں چار مد ۔ایک صاع کا وزن تقریباً ڈھائی کلو ہوتا ہے ۔اس حساب سے پانچ وسق کاکل سات سو پچاس کلو ہو جائے گا ۔یعنی تقریباً 19من ۔زکوۃ کی ادائیگی میں بنیادی اہمیت کا سوال یہ ہے کہ زکوۃ کس کس مال پر فرض ہے؟سنن ابوداؤد میں جو احادیث بیان کی گئی ہیں ان میں سے سونا ‘چاندی ‘چرنے والے اونٹ گائیں بھیڑ اور بکریوں کا تفصیل سے ذکر ہے ۔زرعی اجناس میں جو زکوۃ ادا کی جاتی ہے ‘ اسے عشر کہا جاتا ہے ۔ اس حوالے سے وہ حدیثیں ذکر کی گئی ہیں جن میں قابل زکوۃ (عشر )اجناس کا تفصیل سے ذکر نہیں ۔ البتہ یہ وضاحت ہے کہ جو کھیتیاں بارش ‘دریاؤں ‘چشموں یا زمین کی رطوبت سے سیراب ہوتی ہیں ان کی زکوۃ عشر یعنی دسواں حصہ ہے اور جن کو اونٹوں کے ذریعے سے (رہٹ چلا کر یا اونٹوں پر پانی لادکر )سیراب کیا جاتا ہے ان کی زکوۃ (نصف عشر )یعنی بیسواں حصہ ہے ۔اس پر تمام علماء کااتفاق ہے کہ زرعی اجناس پر زکوۃ ‘ عشر یا نصف عشر ہے۔اختلاف اجناس کے حوالے سے امام ابوحنیفہ گھاس ‘ایندھن اور بے ثمر درختوں کو چھوڑ کر زمین سے اگائی جانے والی ہر چیز پر عشر کے قائل ہیں ۔انہوں نے حضرت جابر ؓ کی روایت ’’جو کھیتوں بارش ‘دریاؤں اور چشموں سے سیراب ہوں ان میں عشر اور جن کی آبپاشی اونٹوں کے ذریعے سے کی جائے ان میں نصف عشر ہے ۔‘‘ کے الفاظ میں پائے جانے والے عموم سے استدلال کیا ہے ۔ علاوہ ازیں وہ قرآنی آیت : ﴿وَمِمّا أَخرَجنا لَكُم مِنَ الأَرضِ﴾ (البقرۃ:267 ) کےعموم سے استدلال کرتے ہوئے یہ بھی کہتے ہیں کہہ زمیں کی پیدا وار تھوڑی ہو یا زیادہ ‘ اس میں عشر یانصف عشر ہوگا ۔حالانکہ اس عموم کی تخصیص حدیث رسول ﷺ سے ثابت ہے کہ 19 من سےکم پیداوار عشر سے مستثنی ہے۔ ان کے شاگرد امام ابویوسف اور امام محمد صرف ان اجناس پر زکوۃ ضروری سمجھتے ہیں جو آسمانی سال تک باقی رہ سکتی ہیں اوران کا لین دین ناپ سے ہوتا ہو یا وزن سے ‘ان کے مطابق ہر قسم کے غلے ‘شکر ‘ کپاس وغیرہ پر عشر دینا ہو گا ۔امام مالک انسان کی اگائی ہوئی تمام ایسی رزعی اجناس پر عشر ضروری سمجھتے تھے جو خشک کرکے محفوظ کی جا سکتی ہیں ۔امام احمد خشک ہونے والے پھل اور ہر قسم کے بیجوں پر زکوۃ کے قائل تھے ۔
جلیل القدر فقہائے تابعین امام حسن بصری ‘ امام شعبی ‘ موسیٰ بن طلحہ اور مجاہد صرف گندم ‘جو ‘ کھجور اور کشمش میں عشر کے قائل ہیں جن کا نام رسول اللہ ﷺ نے خوج لیاہے ۔امام بیہقی نے ان تابعین کے حوالے سے وہ ساری روایات ذکر کی ہین جن میں رسول اللہ ﷺ نے صرف ان اشیاء میں عشر لینے کا حکم دیا ہے ۔یہ روایات مرسل ہیں ۔لیکن حضرت موسیٰ بن طلحہ نے وضاحت کی ہے کہ ہمارے پاس رسول اللہ کی وہ تحریر موجود ہے جو آپ نے لکھوا کر حضرت معاذ بن جبلؓ کوعطا فرمائی تھی ۔اس میں یہ لکھا ہوا ہے کہ عشر ان چار چیزوں میں ہے ۔ان سار ی روایات کو ذکر کر کے امام بیہقی کہتے ہیں :’’یہ تمام روایات مرسل ہیں لیکن متعدد اسانید سے ایک دوسرے کی تائید کرتی ہیں ۔ان کے ساتھ حضرت ابو بردہ ؓ کے طریق سے حضرت موسیٰ اشعری کی روایت ہے جو انہی چار چیزوں کے عشر کےبارے میں ہے ۔(السنن الکبری للبیھقی ‘ باب الصدقة فیما یزرعه الادمیون ....)ابو بردہ ؓ والی روایت کی صحت کے بارے میں امام بیہقی کا فیصلہ ہے : [رواته ثقات وهو متصل ] ’’یعنی اس کے راوی ثقہ ہیں اور اس کی سند متصل ہے ۔‘‘(نيل الاوطار :الزکوة‘ باب زکوۃ الزرع والثمار )امام شافعی نے انہی چار چیزوں پر قیاس کر کے یہ کہا ہے : [عشر ما یقات و یدخر ] ’’عشر ان بنیادی غذائی اجناس پر ہے جو بطور خوراک استعمال ہوتی ہوں اور جن کا ذخیرہ کیا جاسکتا ہے ۔‘‘گندم ‘جو ‘کھجور ‘کشمش کی طرح جن علاقوں میں چاول وغیرہ بنیادی غذائی جنس ہیں وہاں ان پر عشر ہو گا ۔کپاس اور دیگر بہت سی قیمتی اشیاء(cash crops )اور تازه سبزياں پر اگرچہ براہ راست عشر نہیں لیکن ان کی آمدنی کے حوالے سے اگر نصاب اور مدت نصاب مکمل ہو جائے تو زکوۃ کی ادائیگی ضرور ہو گی ۔ اسی طرح چرنے والے (سائمہ )جانوروں میں شمار نہیں کیا جا سکتا ‘ بنا بریں ان کی زکوۃ آمدنی پر ہوگی ۔
پہلے سونا اور چاندی نقدی کے طور پر استعمال ہوتے تھے ۔آج کل کرنسی نوٹ استعمال ہوتے ہیں ۔علمائے امت کا اجماع ہےکہ کرنسی کو انہی پر قیاس کیا جائے گا ۔سعودی علماء اور پاک و ہند کےعلماء نے کرنسی توٹوں کے لیے چاندی کو نصاب بنایا ہے ۔ان کی دلیل یہ ہے کہ اس طرح زکوۃ دینے والوں کی تعداد زیادہ ہو گی جس میں غرباء ومساکین کافائدہ زیادہ ہے ۔اگر سونے کو نصاب بنایا جائے گاتو بہت سے اصحاب حیثیت بھی زکوۃ دینے والوں میں سے نکل جائیں گے ۔مثال کے طور پر جس کے پاس 75ہزار سےکم فاضل بچت کے طور پر ایک سال پڑے رہے ہوں گے ‘ وہ بھی صاحب نصاب متصور نہیں ہو گا ‘ کیونکہ ساڑھے سات تولہ سونے کی قیمت (10ہزار روپے فی تولہ کے حساب سے )75ہزار ہو گی ۔یوں لاکھوں افراد اصحاب حیثیت کے دائرے سے نکل جائیں گے جس کا سارانقصان غرباء مساکین اور مدارس دینیہ کو ہو گا ۔اس پہلو سے دیکھا جائے تو یہ مؤقف راجح لگتا ہے ۔بہر حال یہ اجتہادی مسئلہ ہے ‘اور دونوں میں سے کسی کو بھی اپنایا جاسکتا ہے ۔چاندی کانصاب بنیاد ماننے کی صورت میں ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت جتنی فاضل رقم رکھنے والا صاحب نصاب ہوگا اور سونے کو کرنسی کی بنیادماننے کی صورت میں 75 ہزار روپے فاضل رقم رکھنے والا صاحب نصاب متصور ہو گا اور اس سے کم رقم رکھنے والاشخص زکوۃ سےمستثنی ہوگا ۔رسول اللہﷺ کے دور میں اور صدیوں بعد تک قیمتی پتھروں ‘ جواہرات اور موتیوں کا استعمال دنیا کے بہت سے حصوں میں زینت اور تفاخر کے لیے تو تھا ‘ قدر یامالیت کو محفوظ کرنے کا ذریعہ سونا چاندی ہی تھے ۔جواہرات کے کھرےکھوٹے ہونے کی پہچان چونکہ عام تاجر کے بس میں نہ تھی اور ان کی قیمتی کے تعین کا کوئی ایک باقاعدہ معیار بھی موجود نہ تھا ۔ مختلف ماہرین کی رائے قیمتوں کےبارے میں ایک دوسرے سےبہت زیادہ مختلف ہوتی تھی ۔سونے چاندی کی طرح معیاری ٹیکسالوں میں ڈھال کر ان کو درہم و دینار کی شکل بھی نہ دی جا سکتی تھی اس لیے یہ کرنسی یا مالیت کےتحفظ کے لیے مناسب نہ تھے ۔مال تجارت کے طور پر ان کی زکوۃ تھی البتہ براہ راست ان پر زکوۃکی وصولی ممکن نہ تھی ۔لیکن آج کل سائنسی بنیادوں پر ان کی پہچان ‘قیمت کا تعین اور اس کے لیے قابل قبول معیار سب کچھ آسان ہو گیا ہے ۔ان کی باقاعدہ منڈیاں قائم ہو گئی ہین اور ان خوبیوں کی وجہ سے یہ زیب و زینت کے علاوہ بڑے پیمانے پر مالیت قدر کے تحفظ ‘ذخائر اور بنکوں میں نوٹ جاری کرنے کی غرض سے محفوظ ضمانتوں کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔اس بات کا امکان موجود ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ لوگ زکوۃ سے بچنے کے لیے اپنے مالیاتی اثاثے جواہرات کی صورت میں محفوظ کرنے شروع کر دیں ۔امیر خواتین تو اب سونے چاندی کے بجائے ان سے کئی گنا زیادہ قیمتی جواہر کو زیب وزینت اور اثاثوں سے تحفظ کے لیے استعمال کرنے لگی ہیں ان پر زکوۃ بھی نہیں دینی پڑتی ۔یہ صورت حال فقراء اور مستحقین زکوۃ کے مفاد کے خلاف ہے ۔جس طرح حضرت عمر ؓ نے عنبر کے بارے میں ‘ اس بنیاد پر کہ رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں کوئی ہدایت موجود نہ تھی ‘ صحابہ ؓ سے مشورہ کیا تھا اور اس کی روشنی میں خمس کی وصولی کا فیصلہ فرمایا تھا ۔(الموسوعة الفقهية ۔ كويت ۔ زكوة باب زكوة المستخرج من البحار )مزید یہ کہ حضرت عمر ؓ کے پاس شام سے کچھ لوگ آئے کہ ہمیں گھوڑوں اور غلاموں کی صورت میں کچھ مال ملا ہے ‘ ہم ان کی زکوۃ ادا کر کے اسے پاک کرنا چاہتے ہیں تو حضرت عمر ؓ نے صحابہ کرام سے مشورہ کرکے جن میں حضرت علی بھی شامل تھے ‘ زکوۃ لینے کا فیصلہ کیا ۔ (مستدرک حاکم ‘الزکوۃ ‘ حدیث :1456 )اسی طرح اب علماء اگر قیمتی پتھروں کے حوالے سے غور کریں اور متفقہ طور پر ان کی زکوۃ کے بارے میں فیصلہ کریں تو یہ عین مصلحت اسلامی کا تقاضا ہو گا ۔یاد رہے کہ پتھروں پر زکوۃ نہ ہونے کی جو مرفوع روایت عمرو بن شعیب عن ابیه عن جدہ کے حوالے سے منقول ہے وہ ضعیف ہے ‘ اس لیے قابل اعتبار نہیں ۔ (السنن الکبری للبیھقی ‘الزکوة ‘ما لا زکوة فیه من الجوهر غير الذهب والفضة )
(1)سونے چاندی ‘ مال مویشی اور دیگر اجناس کے لیے مقررہ نصاب سے کم میں زکوۃ فرض نہیں ہے ۔ویسے کوئی دینا چاہے تو صدقہ ہے اور محبوب عمل ہے ۔(2) ایک اوقیہ میں چالیس درہم اور ایک درہم تقریباً 2.975 گرام چاندی کا ہوتاہے ۔اسی طرح ایک اوقیہ کا وزن ایک سو انیس گرام ‘ اور پانچ اوقیہ چاندی کا وزن پانچ سو پچانوے گرام ہوا ۔جس کا وزن تولہ کے حساب سے 51 تولہ (اور سابقہ علماء کے حساب سے 52 ½ تولہ )ہوتا ہے۔(3)ایک وسق میں ساٹھ صاع ہوتے ہیں جیسا کہ اگلی روایات میں آرہا ہے ‘ اور ایک صاع میں چار مد ۔ایک صاع کا وزن تقریباً ڈھائی کلو ہوتا ہے ۔اس حساب سے پانچ وسق کاکل سات سو پچاس کلو ہو جائے گا ۔یعنی تقریباً 19من ۔زکوۃ کی ادائیگی میں بنیادی اہمیت کا سوال یہ ہے کہ زکوۃ کس کس مال پر فرض ہے؟سنن ابوداؤد میں جو احادیث بیان کی گئی ہیں ان میں سے سونا ‘چاندی ‘چرنے والے اونٹ گائیں بھیڑ اور بکریوں کا تفصیل سے ذکر ہے ۔زرعی اجناس میں جو زکوۃ ادا کی جاتی ہے ‘ اسے عشر کہا جاتا ہے ۔ اس حوالے سے وہ حدیثیں ذکر کی گئی ہیں جن میں قابل زکوۃ (عشر )اجناس کا تفصیل سے ذکر نہیں ۔ البتہ یہ وضاحت ہے کہ جو کھیتیاں بارش ‘دریاؤں ‘چشموں یا زمین کی رطوبت سے سیراب ہوتی ہیں ان کی زکوۃ عشر یعنی دسواں حصہ ہے اور جن کو اونٹوں کے ذریعے سے (رہٹ چلا کر یا اونٹوں پر پانی لادکر )سیراب کیا جاتا ہے ان کی زکوۃ (نصف عشر )یعنی بیسواں حصہ ہے ۔اس پر تمام علماء کااتفاق ہے کہ زرعی اجناس پر زکوۃ ‘ عشر یا نصف عشر ہے۔اختلاف اجناس کے حوالے سے امام ابوحنیفہ گھاس ‘ایندھن اور بے ثمر درختوں کو چھوڑ کر زمین سے اگائی جانے والی ہر چیز پر عشر کے قائل ہیں ۔انہوں نے حضرت جابر ؓ کی روایت ’’جو کھیتوں بارش ‘دریاؤں اور چشموں سے سیراب ہوں ان میں عشر اور جن کی آبپاشی اونٹوں کے ذریعے سے کی جائے ان میں نصف عشر ہے ۔‘‘ کے الفاظ میں پائے جانے والے عموم سے استدلال کیا ہے ۔ علاوہ ازیں وہ قرآنی آیت : ﴿وَمِمّا أَخرَجنا لَكُم مِنَ الأَرضِ﴾ (البقرۃ:267 ) کےعموم سے استدلال کرتے ہوئے یہ بھی کہتے ہیں کہہ زمیں کی پیدا وار تھوڑی ہو یا زیادہ ‘ اس میں عشر یانصف عشر ہوگا ۔حالانکہ اس عموم کی تخصیص حدیث رسول ﷺ سے ثابت ہے کہ 19 من سےکم پیداوار عشر سے مستثنی ہے۔ ان کے شاگرد امام ابویوسف اور امام محمد صرف ان اجناس پر زکوۃ ضروری سمجھتے ہیں جو آسمانی سال تک باقی رہ سکتی ہیں اوران کا لین دین ناپ سے ہوتا ہو یا وزن سے ‘ان کے مطابق ہر قسم کے غلے ‘شکر ‘ کپاس وغیرہ پر عشر دینا ہو گا ۔امام مالک انسان کی اگائی ہوئی تمام ایسی رزعی اجناس پر عشر ضروری سمجھتے تھے جو خشک کرکے محفوظ کی جا سکتی ہیں ۔امام احمد خشک ہونے والے پھل اور ہر قسم کے بیجوں پر زکوۃ کے قائل تھے ۔
جلیل القدر فقہائے تابعین امام حسن بصری ‘ امام شعبی ‘ موسیٰ بن طلحہ اور مجاہد صرف گندم ‘جو ‘ کھجور اور کشمش میں عشر کے قائل ہیں جن کا نام رسول اللہ ﷺ نے خوج لیاہے ۔امام بیہقی نے ان تابعین کے حوالے سے وہ ساری روایات ذکر کی ہین جن میں رسول اللہ ﷺ نے صرف ان اشیاء میں عشر لینے کا حکم دیا ہے ۔یہ روایات مرسل ہیں ۔لیکن حضرت موسیٰ بن طلحہ نے وضاحت کی ہے کہ ہمارے پاس رسول اللہ کی وہ تحریر موجود ہے جو آپ نے لکھوا کر حضرت معاذ بن جبلؓ کوعطا فرمائی تھی ۔اس میں یہ لکھا ہوا ہے کہ عشر ان چار چیزوں میں ہے ۔ان سار ی روایات کو ذکر کر کے امام بیہقی کہتے ہیں :’’یہ تمام روایات مرسل ہیں لیکن متعدد اسانید سے ایک دوسرے کی تائید کرتی ہیں ۔ان کے ساتھ حضرت ابو بردہ ؓ کے طریق سے حضرت موسیٰ اشعری کی روایت ہے جو انہی چار چیزوں کے عشر کےبارے میں ہے ۔(السنن الکبری للبیھقی ‘ باب الصدقة فیما یزرعه الادمیون ....)ابو بردہ ؓ والی روایت کی صحت کے بارے میں امام بیہقی کا فیصلہ ہے : [رواته ثقات وهو متصل ] ’’یعنی اس کے راوی ثقہ ہیں اور اس کی سند متصل ہے ۔‘‘(نيل الاوطار :الزکوة‘ باب زکوۃ الزرع والثمار )امام شافعی نے انہی چار چیزوں پر قیاس کر کے یہ کہا ہے : [عشر ما یقات و یدخر ] ’’عشر ان بنیادی غذائی اجناس پر ہے جو بطور خوراک استعمال ہوتی ہوں اور جن کا ذخیرہ کیا جاسکتا ہے ۔‘‘گندم ‘جو ‘کھجور ‘کشمش کی طرح جن علاقوں میں چاول وغیرہ بنیادی غذائی جنس ہیں وہاں ان پر عشر ہو گا ۔کپاس اور دیگر بہت سی قیمتی اشیاء(cash crops )اور تازه سبزياں پر اگرچہ براہ راست عشر نہیں لیکن ان کی آمدنی کے حوالے سے اگر نصاب اور مدت نصاب مکمل ہو جائے تو زکوۃ کی ادائیگی ضرور ہو گی ۔ اسی طرح چرنے والے (سائمہ )جانوروں میں شمار نہیں کیا جا سکتا ‘ بنا بریں ان کی زکوۃ آمدنی پر ہوگی ۔
پہلے سونا اور چاندی نقدی کے طور پر استعمال ہوتے تھے ۔آج کل کرنسی نوٹ استعمال ہوتے ہیں ۔علمائے امت کا اجماع ہےکہ کرنسی کو انہی پر قیاس کیا جائے گا ۔سعودی علماء اور پاک و ہند کےعلماء نے کرنسی توٹوں کے لیے چاندی کو نصاب بنایا ہے ۔ان کی دلیل یہ ہے کہ اس طرح زکوۃ دینے والوں کی تعداد زیادہ ہو گی جس میں غرباء ومساکین کافائدہ زیادہ ہے ۔اگر سونے کو نصاب بنایا جائے گاتو بہت سے اصحاب حیثیت بھی زکوۃ دینے والوں میں سے نکل جائیں گے ۔مثال کے طور پر جس کے پاس 75ہزار سےکم فاضل بچت کے طور پر ایک سال پڑے رہے ہوں گے ‘ وہ بھی صاحب نصاب متصور نہیں ہو گا ‘ کیونکہ ساڑھے سات تولہ سونے کی قیمت (10ہزار روپے فی تولہ کے حساب سے )75ہزار ہو گی ۔یوں لاکھوں افراد اصحاب حیثیت کے دائرے سے نکل جائیں گے جس کا سارانقصان غرباء مساکین اور مدارس دینیہ کو ہو گا ۔اس پہلو سے دیکھا جائے تو یہ مؤقف راجح لگتا ہے ۔بہر حال یہ اجتہادی مسئلہ ہے ‘اور دونوں میں سے کسی کو بھی اپنایا جاسکتا ہے ۔چاندی کانصاب بنیاد ماننے کی صورت میں ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت جتنی فاضل رقم رکھنے والا صاحب نصاب ہوگا اور سونے کو کرنسی کی بنیادماننے کی صورت میں 75 ہزار روپے فاضل رقم رکھنے والا صاحب نصاب متصور ہو گا اور اس سے کم رقم رکھنے والاشخص زکوۃ سےمستثنی ہوگا ۔رسول اللہﷺ کے دور میں اور صدیوں بعد تک قیمتی پتھروں ‘ جواہرات اور موتیوں کا استعمال دنیا کے بہت سے حصوں میں زینت اور تفاخر کے لیے تو تھا ‘ قدر یامالیت کو محفوظ کرنے کا ذریعہ سونا چاندی ہی تھے ۔جواہرات کے کھرےکھوٹے ہونے کی پہچان چونکہ عام تاجر کے بس میں نہ تھی اور ان کی قیمتی کے تعین کا کوئی ایک باقاعدہ معیار بھی موجود نہ تھا ۔ مختلف ماہرین کی رائے قیمتوں کےبارے میں ایک دوسرے سےبہت زیادہ مختلف ہوتی تھی ۔سونے چاندی کی طرح معیاری ٹیکسالوں میں ڈھال کر ان کو درہم و دینار کی شکل بھی نہ دی جا سکتی تھی اس لیے یہ کرنسی یا مالیت کےتحفظ کے لیے مناسب نہ تھے ۔مال تجارت کے طور پر ان کی زکوۃ تھی البتہ براہ راست ان پر زکوۃکی وصولی ممکن نہ تھی ۔لیکن آج کل سائنسی بنیادوں پر ان کی پہچان ‘قیمت کا تعین اور اس کے لیے قابل قبول معیار سب کچھ آسان ہو گیا ہے ۔ان کی باقاعدہ منڈیاں قائم ہو گئی ہین اور ان خوبیوں کی وجہ سے یہ زیب و زینت کے علاوہ بڑے پیمانے پر مالیت قدر کے تحفظ ‘ذخائر اور بنکوں میں نوٹ جاری کرنے کی غرض سے محفوظ ضمانتوں کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔اس بات کا امکان موجود ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ لوگ زکوۃ سے بچنے کے لیے اپنے مالیاتی اثاثے جواہرات کی صورت میں محفوظ کرنے شروع کر دیں ۔امیر خواتین تو اب سونے چاندی کے بجائے ان سے کئی گنا زیادہ قیمتی جواہر کو زیب وزینت اور اثاثوں سے تحفظ کے لیے استعمال کرنے لگی ہیں ان پر زکوۃ بھی نہیں دینی پڑتی ۔یہ صورت حال فقراء اور مستحقین زکوۃ کے مفاد کے خلاف ہے ۔جس طرح حضرت عمر ؓ نے عنبر کے بارے میں ‘ اس بنیاد پر کہ رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں کوئی ہدایت موجود نہ تھی ‘ صحابہ ؓ سے مشورہ کیا تھا اور اس کی روشنی میں خمس کی وصولی کا فیصلہ فرمایا تھا ۔(الموسوعة الفقهية ۔ كويت ۔ زكوة باب زكوة المستخرج من البحار )مزید یہ کہ حضرت عمر ؓ کے پاس شام سے کچھ لوگ آئے کہ ہمیں گھوڑوں اور غلاموں کی صورت میں کچھ مال ملا ہے ‘ ہم ان کی زکوۃ ادا کر کے اسے پاک کرنا چاہتے ہیں تو حضرت عمر ؓ نے صحابہ کرام سے مشورہ کرکے جن میں حضرت علی بھی شامل تھے ‘ زکوۃ لینے کا فیصلہ کیا ۔ (مستدرک حاکم ‘الزکوۃ ‘ حدیث :1456 )اسی طرح اب علماء اگر قیمتی پتھروں کے حوالے سے غور کریں اور متفقہ طور پر ان کی زکوۃ کے بارے میں فیصلہ کریں تو یہ عین مصلحت اسلامی کا تقاضا ہو گا ۔یاد رہے کہ پتھروں پر زکوۃ نہ ہونے کی جو مرفوع روایت عمرو بن شعیب عن ابیه عن جدہ کے حوالے سے منقول ہے وہ ضعیف ہے ‘ اس لیے قابل اعتبار نہیں ۔ (السنن الکبری للبیھقی ‘الزکوة ‘ما لا زکوة فیه من الجوهر غير الذهب والفضة )