Book - حدیث 1551

كِتَابُ تَفريع أَبوَاب الوِترِ بَابُ فِي الِاسْتِعَاذَةِ صحیح حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَنْبَلٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ح و حَدَّثَنَا أَحْمَدُ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ الْمَعْنَى عَنْ سَعْدِ بْنِ أَوْسٍ عَنْ بِلَالٍ الْعَبْسِيِّ عَنْ شُتَيْرِ بْنِ شَكَلٍ عَنْ أَبِيهِ فِي حَدِيثِ أَبِي أَحْمَدَ شَكَلِ بْنِ حُمَيْدٍ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ عَلِّمْنِي دُعَاءً قَالَ قُلْ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ سَمْعِي وَمِنْ شَرِّ بَصَرِي وَمِنْ شَرِّ لِسَانِي وَمِنْ شَرِّ قَلْبِي وَمِنْ شَرِّ مَنِيِّي

ترجمہ Book - حدیث 1551

کتاب: وتر کے فروعی احکام و مسائل باب: تعوذات کا بیان شتیر بن شکل ( ابو احمد یعنی محمد بن عبداللہ بن زبیر کی سند میں اس راوی کا نام شکل بن حمید ہے ) اپنے والد سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا ، اے اللہ کے رسول ! مجھے کوئی دعا سکھا دیجیئے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا یہ کہو «االلهم إني أعوذ بك من شر سمعي ، ومن شر بصري ، ومن شر لساني ، ومن شر قلبي ، ومن شر منيي» ” اے اللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں اپنے کان کی برائی سے ، آنکھ کی برائی سے ، زبان کی برائی سے ، دل کی برائی سے اور مادہ منویہ کی برائی سے ۔ “
تشریح : اس دعا میں تمام قسم کے گناہوں او ر ان کے اسباب سے تحفظ کی دعا ہے ۔ کان سے انسان بری باتیں ‘ مزامیر (سازو آواز یعنی گانے بجانے )غیبت اور جھوٹ وغیرہ سنتا ہے ۔ آنکھ سے غیر محرم اور حرام چیزوں کو دیکھنا اور پڑھنا مراد ہے ۔ زبان سے کفر ‘ شرک ‘ بدعت ‘ جھوٹ ‘ بہتان ‘ غیبت اور گالی گلوچ وغیرہ ہوتی ہے ۔دل کی برائی نفاق ‘ حسد ‘ بخل ‘ طمع اور کبر وغیرہ ہیں ۔ مادہ منویہ کی برائی یہ ہے کہ انسان اپنے جذبات جنسی پر قابو نہ رکھ سکے اور اس وجہ سے خباثت پر آمادہ ہو یا بے محل نطفہ بہائے .....یا اس سے ایسی اولاد پیدا ہو جو فتنہ و فساد کا باعث بنے ۔ اس دعا میں تمام قسم کے گناہوں او ر ان کے اسباب سے تحفظ کی دعا ہے ۔ کان سے انسان بری باتیں ‘ مزامیر (سازو آواز یعنی گانے بجانے )غیبت اور جھوٹ وغیرہ سنتا ہے ۔ آنکھ سے غیر محرم اور حرام چیزوں کو دیکھنا اور پڑھنا مراد ہے ۔ زبان سے کفر ‘ شرک ‘ بدعت ‘ جھوٹ ‘ بہتان ‘ غیبت اور گالی گلوچ وغیرہ ہوتی ہے ۔دل کی برائی نفاق ‘ حسد ‘ بخل ‘ طمع اور کبر وغیرہ ہیں ۔ مادہ منویہ کی برائی یہ ہے کہ انسان اپنے جذبات جنسی پر قابو نہ رکھ سکے اور اس وجہ سے خباثت پر آمادہ ہو یا بے محل نطفہ بہائے .....یا اس سے ایسی اولاد پیدا ہو جو فتنہ و فساد کا باعث بنے ۔