Book - حدیث 1538

كِتَابُ تَفريع أَبوَاب الوِترِ بَابُ فِي الِاسْتِخَارَةِ صحیح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ الْقَعْنَبِيُّ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُقَاتِلٍ خَالُ الْقَعْنَبِيِّ وَمُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى الْمَعْنَى وَاحِدٌ قَالُوا حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الْمَوَالِ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْكَدِرِ أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَلِّمُنَا الِاسْتِخَارَةَ كَمَا يُعَلِّمُنَا السُّورَةَ مِنْ الْقُرْآنِ يَقُولُ لَنَا إِذَا هَمَّ أَحَدُكُمْ بِالْأَمْرِ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ مِنْ غَيْرِ الْفَرِيضَةِ وَلْيَقُلْ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَخِيرُكَ بِعِلْمِكَ وَأَسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ وَأَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ الْعَظِيمِ فَإِنَّكَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ وَأَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ يُسَمِّيهِ بِعَيْنِهِ الَّذِي يُرِيدُ خَيْرٌ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَمَعَادِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي فَاقْدُرْهُ لِي وَيَسِّرْهُ لِي وَبَارِكْ لِي فِيهِ اللَّهُمَّ وَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُهُ شَرًّا لِي مِثْلَ الْأَوَّلِ فَاصْرِفْنِي عَنْهُ وَاصْرِفْهُ عَنِّي وَاقْدِرْ لِي الْخَيْرَ حَيْثُ كَانَ ثُمَّ رَضِّنِي بِهِ أَوْ قَالَ فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ قَالَ ابْنُ مَسْلَمَةَ وَابْنُ عِيسَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ عَنْ جَابَرٍ

ترجمہ Book - حدیث 1538

کتاب: وتر کے فروعی احکام و مسائل باب: استخارے کے احکام و مسائل سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں استخارے کی ( اس اہتمام سے ) تعلیم فرماتے تھے جیسے کہ قرآن کی کوئی سورت ۔ آپ ﷺ ہمیں فرماتے کہ جب تم میں سے کوئی کسی کام کا ارادہ کرے تو اسے چاہیئے کہ فرضوں کے علاوہ دو رکعتیں پڑھے اور یوں دعا کرے «اللهم إني أستخيرك بعلمك وأستقدرك بقدرتك *** » ” اے اللہ ! میں تیرے علم کے واسطے سے خیر اور بھلائی چاہتا ہوں ۔ اور تیری قدرت کے واسطے سے قدرت طلب کرتا ہوں ۔ اور تیرے فضل عظیم کا سوال کرتا ہوں ۔ بیشک تو قدرت رکھتا ہے اور میں قدرت نہیں رکھتا ۔ تو جانتا ہے اور میں نہیں جانتا ۔ اور تو تمام غیبوں اور پوشیدہ امور سے پوری طرح باخبر ہے ۔ اے اللہ ! اگر تیرے علم میں یہ معاملہ ( یہاں اپنے کام کا نام لے ) میرے دین ، دنیا ، آخرت اور انجام کے لحاظ سے بہتر ہے تو اسے میرے حق میں مقدر فر دے ، اسے میرے لیے آسان کر دے اور مجھے اس میں برکت دے ۔ اور اگر یہ معاملہ ( یہاں اپنے کام کا نام لے ) تیرے علم کے مطابق میرے لیے برا ہے ، دین ، دنیا ، آخرت یا انجام کے لحاظ سے ، تو مجھے اس سے پھیر دے اور اس کو مجھ سے پھیر دے اور میرے لیے خیر مقدر فر دے جہاں بھی ہو ، پھر مجھے اس پر راضی کر دے ۔ “ راوی نے کہا یا شاید «خير لي في ديني ومعاشي ومعادي وعاقبة أمري» کی بجائے «في عاجل أمري وآجله» کے لفظ فرمائے ” یعنی میرے معاملے میں یہ جلد یا بدیر ، بہتر ہو ۔ “ ابن مسلمہ اور ابن عیسیٰ اس سند کو لفظ «عن» سے بیان کرتے ہیں ۔ «عن محمد بن المنكدر عن جابر‏» ۔
تشریح : 1۔ استخارے کے معنی ہیں خیر مانگنا اور اس (خیر) کےلئے آسانی کی توفیق طلب کرنا۔اور یہ ایسے امور میں ہوتا ہے۔جن میں خیر اورشر کے دونوں پہلووں کا احتمال ہو۔فرائض اور واجبات شرعیہ میں استخارے کے کوئی معنی نہیں۔ہاں وقت وکیفیت کے متعلق استخارہ ہوسکتا ہے۔مثلا ً یا اللہ حج کو اس سال جائوں۔یا آئندہ سال۔ فضائی راستہ اختیار کروں یا بری یا بحری وغیرہ۔2۔استخارے کا یہی طریقہ مشروع اور سنت ہے۔یہ نماز اور دُعا اوقات کراہت کے علاوہ کسی بھی وقت ہوسکتی ہے۔اس سے انسان کا اضطراب ختم ااور کسی ایک جانب پر استقرار حاصل ہو جاتا ہے۔تب انسان کو وہ کام کرگزرنا چاہیے۔اللہ اس میں برکت دے گا۔اور اگر اضطراب قائم رہے تو مسلسل کئی روز تک یہ عمل دہرانا چاہیے۔ان شاء اللہ کسی ایک پہلو پر دل ٹک جائے گا۔ خیال رہے کہ یہ کوئی ضروری نہیں کہ خواب ہی میں نظرآئے۔۔۔اور ایسا بھی ہوسکتا ہے۔۔۔کچھ لوگ دوسروں سے استخارہ کراتے ہیں۔یہ بے معنی سی بات ہے۔صاحب معاملہ کو خود نماز پڑھ کر دعا کرنی چاہیے۔شریعت کا اصرار اسی امر پر ہے کہ ہر بندہ اپنے رب سے براہ راست تعلق قائم کرے۔3۔اس دعا میں ھذا الامر۔۔۔کی جگہ اپنی حاجت کا نام لے۔مثلا ھذا النکاح یا ھذا البیع وغیرہ یا ھذا الامر پر پہنچ کر اپنے اس کام کی نیت مستحضر کرلے۔جس کے لئے وہ استخارہ کررہا ہے۔ 1۔ استخارے کے معنی ہیں خیر مانگنا اور اس (خیر) کےلئے آسانی کی توفیق طلب کرنا۔اور یہ ایسے امور میں ہوتا ہے۔جن میں خیر اورشر کے دونوں پہلووں کا احتمال ہو۔فرائض اور واجبات شرعیہ میں استخارے کے کوئی معنی نہیں۔ہاں وقت وکیفیت کے متعلق استخارہ ہوسکتا ہے۔مثلا ً یا اللہ حج کو اس سال جائوں۔یا آئندہ سال۔ فضائی راستہ اختیار کروں یا بری یا بحری وغیرہ۔2۔استخارے کا یہی طریقہ مشروع اور سنت ہے۔یہ نماز اور دُعا اوقات کراہت کے علاوہ کسی بھی وقت ہوسکتی ہے۔اس سے انسان کا اضطراب ختم ااور کسی ایک جانب پر استقرار حاصل ہو جاتا ہے۔تب انسان کو وہ کام کرگزرنا چاہیے۔اللہ اس میں برکت دے گا۔اور اگر اضطراب قائم رہے تو مسلسل کئی روز تک یہ عمل دہرانا چاہیے۔ان شاء اللہ کسی ایک پہلو پر دل ٹک جائے گا۔ خیال رہے کہ یہ کوئی ضروری نہیں کہ خواب ہی میں نظرآئے۔۔۔اور ایسا بھی ہوسکتا ہے۔۔۔کچھ لوگ دوسروں سے استخارہ کراتے ہیں۔یہ بے معنی سی بات ہے۔صاحب معاملہ کو خود نماز پڑھ کر دعا کرنی چاہیے۔شریعت کا اصرار اسی امر پر ہے کہ ہر بندہ اپنے رب سے براہ راست تعلق قائم کرے۔3۔اس دعا میں ھذا الامر۔۔۔کی جگہ اپنی حاجت کا نام لے۔مثلا ھذا النکاح یا ھذا البیع وغیرہ یا ھذا الامر پر پہنچ کر اپنے اس کام کی نیت مستحضر کرلے۔جس کے لئے وہ استخارہ کررہا ہے۔