Book - حدیث 1526

كِتَابُ تَفريع أَبوَاب الوِترِ بَابُ فِي الِاسْتِغْفَارِ صحيح ق دون قوله إن الذي تدعونه بينكم وبين أعناق ركائبكم وهو منكر حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ وَعَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ وَسَعِيدٍ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ أَنَّ أَبَا مُوسَى الْأَشْعَرِيَّ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَلَمَّا دَنَوْا مِنَ الْمَدِينَةِ كَبَّرَ النَّاسُ، وَرَفَعُوا أَصْوَاتَهُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ! إِنَّكُمْ لَا تَدْعُونَ أَصَمَّ، وَلَا غَائِبًا، إِنَّ الَّذِي تَدْعُونَهُ بَيْنَكُمْ، وَبَيْنَ أَعْنَاقِ رِكَابِكُمْ. ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا أَبَا مُوسَى! أَلَا أَدُلُّكَ عَلَى كَنْزٍ مِنْ كُنُوزِ الْجَنَّةِ؟< فَقُلْتُ: وَمَا هُوَ؟ قَالَ: لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ.

ترجمہ Book - حدیث 1526

کتاب: وتر کے فروعی احکام و مسائل باب: استغفار کا بیان سیدنا ابوموسیٰ اشعری ؓ نے بیان کیا کہ میں ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا ۔ جب ہم مدینہ کے قریب پہنچے تو لوگوں نے «الله اكبر» «الله اكبر» ۔ کہنا شروع کر دیا اور اپنی آوازیں اونچی کیں ، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” لوگو ! تم کسی بہرے یا غائب کو نہیں پکار رہے ہو ، بیشک جسے تم پکارتے ہو وہ تمہارے اور تمہاری سواریوں کی گردنوں کے درمیان ( نہایت قریب ہے ، لہٰذا چیختے چلانے کی ضرورت نہیں ) ہے ۔ “ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” ابوموسیٰ ! کیا میں تمہیں جنت کا ایک خزانہ نہ بتاؤں ؟ “ میں نے عرض کیا ، وہ کیا ہے ؟ فرمایا ” «لا حول ولا قوة إلا بالله» کسی برائی سے بچنا اور دور رہنا اور کسی نیکی اور خیر کی ہمت پانا اللہ کے بغیر ممکن نہیں ۔ “
تشریح : 1۔اللہ عزوجل بذاتہ عرش معلیٰ پر ہے۔اور اپنے علم ۔سمع ۔بصر۔اور قدرت کے لہاظ سے اپنے بندوں اور مخلوق کے انتہائی قریب ہے۔ اسی مفہوم میں یہاں زکر ہوا ہے کہ وہ تمہارے اور تمہاری سواریوں کی گردنوں کے درمیان ہے۔ 2۔قران کریم اور احادیث صحیحہ میں اللہ عزوجل کی صفات دو انداز سے مذکور ہوئی ہیں۔اثباتی اور سلبی۔ جیسا کہ سورہ اخلاص میں ہے کہ وہ اکیلا ہے۔ صمد ہے ان میں اثبات ہے۔ اس نے جنا نہیں وہ جنا نہیں گیا۔کوئی اس کی برابری کرنے والا نہیں ہے۔ان میں سلب کا اثبات ہے۔مذکورہ بالا حدیث میں دوسری نوع کی صفات کا زکر ہے۔ وہ بہرا نہیں ہے یعنی سمیع ہے۔ وہ غائب نہیں ہے۔ یعنی قریب ہے۔3۔چلا چلا کر اللہ کا زكر كرنا بے عقلی ہے۔ جن مواقع پر اونچی آوازسے زکرکرنے کا بیان آیا ہے۔وہاں آواز بالکل مناسب اور معقول رکھنے کی تعلیم ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔( وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذَٰلِكَ سَبِيلًا)(بنی اسرایئل ۔110)4۔امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے کلمہ (لاحول ولاقوة ) كو كلمه استدلام وتفويض سے تعبیر کیا ہے۔یعنی بندہ فی ذاتہ کسی چیز کا مالک نہیں۔مگر وہی جو اللہ چاہے۔5۔شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اس میں (ان الذي تدعونه بينكم وبين اعناق ركابكم) بے شک جسے تم پکارتے ہو وہ تمہارے او ر تمہاری سواریوں کی گردنوں کے درمیان ہے۔ کے الفاظ منکر (ضعیف ہیں۔ 1۔اللہ عزوجل بذاتہ عرش معلیٰ پر ہے۔اور اپنے علم ۔سمع ۔بصر۔اور قدرت کے لہاظ سے اپنے بندوں اور مخلوق کے انتہائی قریب ہے۔ اسی مفہوم میں یہاں زکر ہوا ہے کہ وہ تمہارے اور تمہاری سواریوں کی گردنوں کے درمیان ہے۔ 2۔قران کریم اور احادیث صحیحہ میں اللہ عزوجل کی صفات دو انداز سے مذکور ہوئی ہیں۔اثباتی اور سلبی۔ جیسا کہ سورہ اخلاص میں ہے کہ وہ اکیلا ہے۔ صمد ہے ان میں اثبات ہے۔ اس نے جنا نہیں وہ جنا نہیں گیا۔کوئی اس کی برابری کرنے والا نہیں ہے۔ان میں سلب کا اثبات ہے۔مذکورہ بالا حدیث میں دوسری نوع کی صفات کا زکر ہے۔ وہ بہرا نہیں ہے یعنی سمیع ہے۔ وہ غائب نہیں ہے۔ یعنی قریب ہے۔3۔چلا چلا کر اللہ کا زكر كرنا بے عقلی ہے۔ جن مواقع پر اونچی آوازسے زکرکرنے کا بیان آیا ہے۔وہاں آواز بالکل مناسب اور معقول رکھنے کی تعلیم ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔( وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذَٰلِكَ سَبِيلًا)(بنی اسرایئل ۔110)4۔امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے کلمہ (لاحول ولاقوة ) كو كلمه استدلام وتفويض سے تعبیر کیا ہے۔یعنی بندہ فی ذاتہ کسی چیز کا مالک نہیں۔مگر وہی جو اللہ چاہے۔5۔شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اس میں (ان الذي تدعونه بينكم وبين اعناق ركابكم) بے شک جسے تم پکارتے ہو وہ تمہارے او ر تمہاری سواریوں کی گردنوں کے درمیان ہے۔ کے الفاظ منکر (ضعیف ہیں۔