كِتَابُ تَفريع أَبوَاب الوِترِ بَابُ الدُّعَاءِ صحیح حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ عَنْ مَالِكٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يُسْتَجَابُ لِأَحَدِكُمْ مَا لَمْ يَعْجَلْ فَيَقُولُ قَدْ دَعَوْتُ فَلَمْ يُسْتَجَبْ لِي
کتاب: وتر کے فروعی احکام و مسائل
باب: ( آداب ) دعا
سیدنا ابوہریرہ ؓ سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” تم میں سے ایک کی دعا قبول ہوتی رہتی ہے جب تک کہ وہ جلدی نہ کرے ۔ یعنی یوں کہے کہ میں نے دعا مانگی تھی مگر قبول نہیں ہوئی ۔ “
تشریح :
یعنی تاخیر سے بے چین ہوجائے۔یا ویسے ہی مایوسی کا اظہار کرنے لگے۔اور یہ دونوں ہی صورتیں مذموم ہیں۔خیال رہے کہ قبولیت کے لئے ایک وقت مقرر ہے۔لہذا بندے کو ہمیشہ مانگتے رہنا چاہیے۔بے چین نہیں ہونا چاہیے۔ کہاجاتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کی فرعون کے لئے بددعا چالیس سال بعد قبول ہوئی تھی۔اور مایوسی(قنوط ویاس)کافروں کی صفت ہے۔نیز قبولیت دعا کی کئی صورتیں ہوتی ہیں۔1۔عین مطلوب کا بروقت مل جانا۔2۔تاخیر سے ملنا۔جس میں کوئی نہ کوئی حکمت پوشیدہ ہوتی ہے۔3۔بعض اوقات عین مطلوب تو نہیں دیا جاتا مگر اس کے بدلے کوئی اور شر دور کیا جاتا ہے۔ یا فائدہ پہنچادیا جاتا ہے۔4۔یا اس کی دعا کو آخرت کےلئے زخیرہ کردیا جاتا ہے۔جب کہ انسان از حد محتاج ہوگا۔(عون المعبود)کبھی ایسے بھی ہوتا ہے کہ ایک نافرمان اور عاصی قسم کا آدمی دعا کرتا ہے تو اس کا مطلوب اسے بڑی جلدی مل جاتا ہے۔مگر صالح انسان مانگتا رہتا ہے۔اور اسے نہیں دیا جاتا۔ اس کی حقیقی حکمت تو اللہ ہی جانےمگر بعض بزرگوں کے چونکہ دست دعا بلند کرنا اور اے اللہ !اے اللہ ! پکارنا بذاتہ عبادت اور محبوب عمل ہے۔اور اللہ عزوجل کو اچھا لگتا ہے۔کہ یہ بندہ اس کی چو ھٹ پر بیٹھا رہے۔اس لئے اس کا مطلوب اس کو نہیں دیا جاتا۔بلکہ اس کے درجات بلند کیے جاتے اور بعض دوسری نعمتیں دی جاتی ہیں۔ جب کہ دوسرا عاصی انسان اللہ کا مبغوض ہوتا ہے۔اور اللہ کو اس کے دربار میں حاضری پسند نہیں ہوتی۔تو جونہی وہ کوئی طلب پیش کرتا ہے۔ تو اللہ کی مشیت ہوتی ہے۔تو فورا ً اسے دے دی جاتی ہے۔نتیجتاً وہ اپنا مطلوب پاکر پھر سے اللہ سے غافل ہوجاتا ہے۔اسی طرح سے وہ تقرب الی اللہ اور اجر وثواب سے محروم کردیا جاتا ہے۔واللہ اعلم بالصواب۔ونسال اللہ العافیۃ۔
یعنی تاخیر سے بے چین ہوجائے۔یا ویسے ہی مایوسی کا اظہار کرنے لگے۔اور یہ دونوں ہی صورتیں مذموم ہیں۔خیال رہے کہ قبولیت کے لئے ایک وقت مقرر ہے۔لہذا بندے کو ہمیشہ مانگتے رہنا چاہیے۔بے چین نہیں ہونا چاہیے۔ کہاجاتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کی فرعون کے لئے بددعا چالیس سال بعد قبول ہوئی تھی۔اور مایوسی(قنوط ویاس)کافروں کی صفت ہے۔نیز قبولیت دعا کی کئی صورتیں ہوتی ہیں۔1۔عین مطلوب کا بروقت مل جانا۔2۔تاخیر سے ملنا۔جس میں کوئی نہ کوئی حکمت پوشیدہ ہوتی ہے۔3۔بعض اوقات عین مطلوب تو نہیں دیا جاتا مگر اس کے بدلے کوئی اور شر دور کیا جاتا ہے۔ یا فائدہ پہنچادیا جاتا ہے۔4۔یا اس کی دعا کو آخرت کےلئے زخیرہ کردیا جاتا ہے۔جب کہ انسان از حد محتاج ہوگا۔(عون المعبود)کبھی ایسے بھی ہوتا ہے کہ ایک نافرمان اور عاصی قسم کا آدمی دعا کرتا ہے تو اس کا مطلوب اسے بڑی جلدی مل جاتا ہے۔مگر صالح انسان مانگتا رہتا ہے۔اور اسے نہیں دیا جاتا۔ اس کی حقیقی حکمت تو اللہ ہی جانےمگر بعض بزرگوں کے چونکہ دست دعا بلند کرنا اور اے اللہ !اے اللہ ! پکارنا بذاتہ عبادت اور محبوب عمل ہے۔اور اللہ عزوجل کو اچھا لگتا ہے۔کہ یہ بندہ اس کی چو ھٹ پر بیٹھا رہے۔اس لئے اس کا مطلوب اس کو نہیں دیا جاتا۔بلکہ اس کے درجات بلند کیے جاتے اور بعض دوسری نعمتیں دی جاتی ہیں۔ جب کہ دوسرا عاصی انسان اللہ کا مبغوض ہوتا ہے۔اور اللہ کو اس کے دربار میں حاضری پسند نہیں ہوتی۔تو جونہی وہ کوئی طلب پیش کرتا ہے۔ تو اللہ کی مشیت ہوتی ہے۔تو فورا ً اسے دے دی جاتی ہے۔نتیجتاً وہ اپنا مطلوب پاکر پھر سے اللہ سے غافل ہوجاتا ہے۔اسی طرح سے وہ تقرب الی اللہ اور اجر وثواب سے محروم کردیا جاتا ہے۔واللہ اعلم بالصواب۔ونسال اللہ العافیۃ۔