Book - حدیث 1469

كِتَابُ تَفريع أَبوَاب الوِترِ بَابُ اسْتِحْبَابِ التَّرْتِيلِ فِي الْقِرَاءَةِ صحيح حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ وَيَزِيدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ مَوْهَبٍ الرَّمْلِيُّ بِمَعْنَاهُ أَنَّ اللَّيْثَ حَدَّثَهُمْ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي نَهِيكٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ وَقَالَ يَزِيدُ عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ وَقَالَ قُتَيْبَةُ هُوَ فِي كِتَابِي، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَتَغَنَّ بِالْقُرْآنِ».

ترجمہ Book - حدیث 1469

کتاب: وتر کے فروعی احکام و مسائل باب: قرآت کی ترتیل کا استحباب ابوالولید طیالسی کی سند سے سیدنا سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے ، اور یزید ( راوی ) کی سند میں سیدنا سعید بن ابی سعید ؓ سے روایت ہے اور قتیبہ نے بھی یہی کہا کہ میری کتاب میں سعید بن ابی سعید ہے ، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” جو شخص قرآن کو خوش الحانی سے نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں ۔ “
تشریح : 1۔یعنی قرآن کریم کو خوش الحانی سے پڑھنا تاکیدی ارشاد ہے۔لہذا بچوں کو اوائل عمری سے اس کی تربیت دی جانی چاہیے۔مگر یہ درس ماہر اساتذہ سے لیا جائے۔از خود مشق کرنے سے بہت سی غلطیاں ہوتی ہیں۔اور گانے کے انداز سے بہت مشابہت ہوجاتی ہے۔ جو کہ ممنوع ہے علاوہ ازیں تصنع بھی نہیں ہونا چاہیے۔جو استاد کے بغیر اپنے طور پر آواز کو خوبصورت بنانے سے بالعموم پیدا ہوجاتا ہے۔2۔اس حدیث کا ایک دوسرا مفہوم بھی ہے جسے علامہ خطابی نے زکر کیا کہ لم يتغن بمعني لم يستغن ہے۔یعنی جو شخص قرآن پڑھ کر اس کا علم حاصل کرکے طلب دنیا اور دیگر لا یعنی علوم بالخصوص لغو قسم کے شعر وسخن سے بے پرواہ نہ ہوجائے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔مقصد یہ ہے کہ قاری قرآن اور عالم دین کو چاہیے کہ اس شرف کے حاصل ہوجانے پر حطام دینا(دنیا کے مال ودولت) کو جمع کرنے اور لغو مشاغل سے بالا تر رہے۔ 1۔یعنی قرآن کریم کو خوش الحانی سے پڑھنا تاکیدی ارشاد ہے۔لہذا بچوں کو اوائل عمری سے اس کی تربیت دی جانی چاہیے۔مگر یہ درس ماہر اساتذہ سے لیا جائے۔از خود مشق کرنے سے بہت سی غلطیاں ہوتی ہیں۔اور گانے کے انداز سے بہت مشابہت ہوجاتی ہے۔ جو کہ ممنوع ہے علاوہ ازیں تصنع بھی نہیں ہونا چاہیے۔جو استاد کے بغیر اپنے طور پر آواز کو خوبصورت بنانے سے بالعموم پیدا ہوجاتا ہے۔2۔اس حدیث کا ایک دوسرا مفہوم بھی ہے جسے علامہ خطابی نے زکر کیا کہ لم يتغن بمعني لم يستغن ہے۔یعنی جو شخص قرآن پڑھ کر اس کا علم حاصل کرکے طلب دنیا اور دیگر لا یعنی علوم بالخصوص لغو قسم کے شعر وسخن سے بے پرواہ نہ ہوجائے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔مقصد یہ ہے کہ قاری قرآن اور عالم دین کو چاہیے کہ اس شرف کے حاصل ہوجانے پر حطام دینا(دنیا کے مال ودولت) کو جمع کرنے اور لغو مشاغل سے بالا تر رہے۔