Book - حدیث 1439

كِتَابُ تَفريع أَبوَاب الوِترِ بَابُ فِي نَقْضِ الْوِتْرِ صحیح حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا مُلَازِمُ بْنُ عَمْرٍو حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَدْرٍ عَنْ قَيْسِ بْنِ طَلْقٍ قَالَ زَارَنَا طَلْقُ بْنُ عَلِيٍّ فِي يَوْمٍ مِنْ رَمَضَانَ وَأَمْسَى عِنْدَنَا وَأَفْطَرَ ثُمَّ قَامَ بِنَا اللَّيْلَةَ وَأَوْتَرَ بِنَا ثُمَّ انْحَدَرَ إِلَى مَسْجِدِهِ فَصَلَّى بِأَصْحَابِهِ حَتَّى إِذَا بَقِيَ الْوِتْرُ قَدَّمَ رَجُلًا فَقَالَ أَوْتِرْ بِأَصْحَابِكَ فَإِنِّي سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا وِتْرَانِ فِي لَيْلَةٍ

ترجمہ Book - حدیث 1439

کتاب: وتر کے فروعی احکام و مسائل باب: وتر توڑنے کا مسئلہ قیس بن طلق بیان کرتے ہیں کہ سیدنا طلق بن علی ؓ رمضان میں ایک دن ہمارے ہاں آئے اور ہمارے ہی ہاں شام کی اور افطار کیا ، اور پھر ہمیں اس رات نماز پڑھائی اور وتر بھی پڑھائے ، پھر اپنی مسجد کی طرف چلے گئے اور وہاں اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھائی ۔ اور جب وتر باقی رہے تو ایک شخص کو آگے کر دیا اور کہا : اپنے ساتھیوں کو وتر پڑھاؤ ، بیشک میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے ، آپ فرماتے تھے ۔ ” ایک رات میں دو وتر نہیں ۔ “ ( یعنی دو بار وتر نہیں ۔ )
تشریح : کچھ حضرات اس بات کے قائل ہیں کہ اگر انسان نے عشاء کے وقت وتر پڑھ لیے ہوں۔ اور پھر وہ جب تہجد کے لئے اُٹھے۔تو پہلے ایک رکعت پڑھے تاکہ پہلے کی پڑھی ہوئی نماز وتر جفت بن جائے۔بعد ازاں اپنی نماز پڑھتا رہے۔ اور پھر آخر میں ایک رکعت پڑھ لے۔تاکہ اس ارشاد پر عمل ہوجائے۔ جس میں ہے کہ اپنی رات کی نماز کا آخری حصہ وتر کو بنائو۔ مگر راحج یہی ہے کہ وتر کو نہ توڑا جائے۔کیونکہ اس کے بارے میں مروی روایت ضعیف ہے۔گویا پڑھے ہوئے وتر کو توڑ کر جفت بنانا نبی کریمﷺ سے ثابت نہیں۔ اس لئے جو شخص تہجد کا عادی نہ ہو۔اس کے لئے یہی بہتر ہے کہ وہ وتر عشاء کے ساتھ ہی پڑھ لے۔پھر اگر اسے تہجد کے وقت اُٹھنے کا موقع مل جائے۔تو وہ دو دورکعت کر کے نماز تہجد پڑھ لے۔آخر میں اسے وتر پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کچھ حضرات اس بات کے قائل ہیں کہ اگر انسان نے عشاء کے وقت وتر پڑھ لیے ہوں۔ اور پھر وہ جب تہجد کے لئے اُٹھے۔تو پہلے ایک رکعت پڑھے تاکہ پہلے کی پڑھی ہوئی نماز وتر جفت بن جائے۔بعد ازاں اپنی نماز پڑھتا رہے۔ اور پھر آخر میں ایک رکعت پڑھ لے۔تاکہ اس ارشاد پر عمل ہوجائے۔ جس میں ہے کہ اپنی رات کی نماز کا آخری حصہ وتر کو بنائو۔ مگر راحج یہی ہے کہ وتر کو نہ توڑا جائے۔کیونکہ اس کے بارے میں مروی روایت ضعیف ہے۔گویا پڑھے ہوئے وتر کو توڑ کر جفت بنانا نبی کریمﷺ سے ثابت نہیں۔ اس لئے جو شخص تہجد کا عادی نہ ہو۔اس کے لئے یہی بہتر ہے کہ وہ وتر عشاء کے ساتھ ہی پڑھ لے۔پھر اگر اسے تہجد کے وقت اُٹھنے کا موقع مل جائے۔تو وہ دو دورکعت کر کے نماز تہجد پڑھ لے۔آخر میں اسے وتر پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔