كِتَابُ تَفريع أَبوَاب الوِترِ بَابٌ الْقُنُوتِ فِي الْوِتْرِ صحیح حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنْ هِشَامِ بْنِ عَمْرٍو الْفَزَارِيِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ فِي آخِرِ وِتْرِهِ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِرِضَاكَ مِنْ سُخْطِكَ وَبِمُعَافَاتِكَ مِنْ عُقُوبَتِكَ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْكَ لَا أُحْصِي ثَنَاءً عَلَيْكَ أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ قَالَ أَبُو دَاوُد هِشَامٌ أَقْدَمُ شَيْخٍ لِحَمَّادٍ وَبَلَغَنِي عَنْ يَحْيَى بْنِ مَعِينٍ أَنَّهُ قَالَ لَمْ يَرْوِ عَنْهُ غَيْرُ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ قَالَ أَبُو دَاوُد رَوَى عِيسَى بْنُ يُونُسَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى عَنْ أَبِيهِ عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَنَتَ يَعْنِي فِي الْوِتْرِ قَبْلَ الرُّكُوعِ قَالَ أَبُو دَاوُد رَوَى عِيسَى بْنُ يُونُسَ هَذَا الْحَدِيثَ أَيْضًا عَنْ فِطْرِ بْنِ خَلِيفَةَ عَنْ زُبَيْدٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى عَنْ أَبِيهِ عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ وَرُوِيَ عَنْ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ عَنْ مِسْعَرٍ عَنْ زُبَيْدٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى عَنْ أَبِيهِ عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَنَتَ فِي الْوِتْرِ قَبْلَ الرُّكُوعِ قَالَ أَبُو دَاوُد وَحَدِيثُ سَعِيدٍ عَنْ قَتَادَةَ رَوَاهُ يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ عَنْ سَعِيدٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ عَزْرَةَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى عَنْ أَبِيهِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَذْكُرْ الْقُنُوتَ وَلَا ذَكَرَ أُبَيًّا وَكَذَلِكَ رَوَاهُ عَبْدُ الْأَعْلَى وَمُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ الْعَبْدِيُّ وَسَمَاعُهُ بِالْكُوفَةِ مَعَ عِيسَى بْنِ يُونُسَ وَلَمْ يَذْكُرُوا الْقُنُوتَ وَقَدْ رَوَاهُ أَيْضًا هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ وَشُعْبَةُ عَنْ قَتَادَةَ وَلَمْ يَذْكُرَا الْقُنُوتَ وَحَدِيثُ زُبَيْدٍ رَوَاهُ سُلَيْمَانُ الْأَعْمَشُ وَشُعْبَةُ وَعَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ وَجَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ كُلُّهُمْ عَنْ زُبَيْدٍ لَمْ يَذْكُرْ أَحَدٌ مِنْهُمْ الْقُنُوتَ إِلَّا مَا رُوِيَ عَنْ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ عَنْ مِسْعَرٍ عَنْ زُبَيْدٍ فَإِنَّهُ قَالَ فِي حَدِيثِهِ إِنَّهُ قَنَتَ قَبْلَ الرُّكُوعِ قَالَ أَبُو دَاوُد وَلَيْسَ هُوَ بِالْمَشْهُورِ مِنْ حَدِيثِ حَفْصٍ نَخَافُ أَنْ يَكُونَ عَنْ حَفْصٍ عَنْ غَيْرِ مِسْعَرٍ قَالَ أَبُو دَاوُد وَيُرْوَى أَنَّ أُبَيًّا كَانَ يَقْنُتُ فِي النِّصْفِ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ
کتاب: وتر کے فروعی احکام و مسائل
باب: نماز وتر میں دعائے قنوت کا بیان
سیدنا علی بن ابی طالب ؓ سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے وتر کے آخر میں یہ کہا کرتے تھے «اللهم إني أعوذ برضاك من سخطك ، وبمعافاتك من عقوبتك ، وأعوذ بك منك لا أحصي ثناء عليك أنت ك أثنيت على نفسك» ” اے اللہ ! میں تیری ناراضی سے بچتے ہوئے تیری رضا کی پناہ میں آتا ہوں ۔ تیرے مواخذے سے بچتے ہوئے تیرے عفو و کرم کی پناہ لیتا ہوں ۔ میں تجھ سے ( یعنی تیرے غیظ و غضب سے ) تیری ( رحمت کی ) امان چاہتا ہوں ۔ میں تیری تعریفیں شمار نہیں کر سکتا ۔ تو ویسا ہی ہے جیسے کہ تو نے خود اپنی صفات بیان فرمائی ہیں ۔ “ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ ہشام ، حماد کے قدیم ترین استاذ ہیں ۔ اور یحییٰ بن معین سے مروی ہے کہ ان ( ہشام ) سے سوائے حماد بن سلمہ کے اور کسی نے روایت نہیں کی ۔ امام ابوداؤد ؓ نے کہا عیسیٰ بن یونس نے سعید بن ابی عروبہ سے ، انہوں نے قتادہ سے ، انہوں نے سعید بن عبدالرحمٰن بن ابزیٰ سے ، انہوں نے اپنے والد سے ، انہوں نے سیدنا ابی بن کعب ؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے رکوع سے پہلے قنوت پڑھی ۔ یعنی وتر میں ۔ امام ابوداؤد ؓ نے کہا عیسیٰ بن یونس نے یہ حدیث بھی فطر بن خلیفہ سے ، انہوں نے زبید سے ، انہوں نے سعید بن عبدالرحمٰن بن ابزی سے ، وہ اپنے والد سے ، وہ سیدنا ابی بن کعب ؓ سے ، انہوں نے نبی کریم ﷺ سے مذکورہ بالا حدیث کے مثل روایت کی ہے ۔ اور حفص بن غیاث سے مروی ہے ، وہ مسعر سے وہ زبید سے ، وہ سعید بن عبدالرحمٰن بن ابزیٰ سے ، وہ اپنے والد سے ، وہ سیدنا ابی بن کعب ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے وتر میں رکوع سے پہلے قنوت پڑھی ۔ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ سعید بن ابی عروبہ کی ( مذکورہ بالا ) روایت جو انہوں نے قتادہ سے روایت کی ہے اس کو یزید بن زریع نے سعید سے ، انہوں نے قتادہ سے ، انہوں نے عزرہ سے ، انہوں نے سعید بن عبدالرحمٰن بن ابزیٰ سے ، انہوں نے اپنے والد سے ، انہوں نے نبی کریم ﷺ سے روایت کی ہے ، مگر اس میں قنوت کا ذکر کیا نہ ابی بن کعب کا ( یعنی مرسل ہے ) ۔ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ اس کو عبدالاعلیٰ اور محمد بن بشر عبدی نے بھی ایسے ہی روایت کیا ہے ۔ اور ان ( محمد بن بشر ) کا سماع عیسیٰ بن یونس کے ساتھ کوفہ میں ثابت ہے ۔ انہوں نے قنوت کا ذکر نہیں کیا ہے ۔ اور اس کو ہشام دستوائی اور شعبہ نے بھی قتادہ سے روایت کیا ہے اور ان دونوں نے قنوت کا ذکر نہیں کیا ۔ امام ابوداؤد ؓ نے کہا اور حدیث زبید کو سلیمان اعمش ، شعبہ ، عبدالملک بن ابی سلیمان اور جریر بن حازم سبھی نے زبید سے روایت کیا ہے ، مگر ان میں سے کسی نے بھی قنوت کا ذکر نہیں کیا سوائے حفص بن غیاث کے جسے انہوں نے بواسطہ مسعر ، زبید سے روایت کیا ہے کہ “ آپ ﷺ نے رکوع سے پہلے قنوت پڑھی ۔ “ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ حفص کی یہ حدیث مشہور نہیں ہے ، اندیشہ ہے کہ مسعر کے علاوہ کسی اور سے روایت ہو گی ۔ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں ، روایت ہے کہ سیدنا ابی ؓ نصف رمضان میں قنوت پڑھا کرتے تھے ۔
تشریح :
1۔دعائے قنوت وتر کی بابت حضرت ابی کعب سے مروی ہے۔رسول اللہ ﷺ تین وتر پڑھتے اور دعائے قنوت رکوع سے قبل پڑھتے ۔دیکھئے۔(سنن نسائی قیام اللیل۔حدیث 1700 وسنن ابن ماجہ۔اقامۃ الصلاۃحدیث 1182)نیز مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دیگرصحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کا عمل مذکور ہے۔کہ یہ قنوت وتر رکوع سے پہلے پڑھتے تھے۔دیکھئے۔(مصنف ابن ابی شیبہ 97/2) واضح رہے کہ مسنون طریق تو یہی ہے۔کہ وتروں میں دعائے قنوت قبل از رکوع ہوا۔البتہ قنوت نازلہ بالخصوص رکوع کے بعد ہی ثابت ہے۔تاہم بعض علماءدعائے قنوت وتر رکوع کے بعد پڑھنے کے قائل ہیں۔اور وہ بھی جائز ہے۔ لیکن علمائے محققین حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ صاحب مرعاۃ مولانا عبید اللہ رحمانی رحمۃ اللہ علیہ حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ اوردیگر علمائے قنوت وتر قبل از رکوع والی روایات کو زیادہ ترصحیح کہا ہے۔ اور انہیں بعد از رکوع والی روایات پرترجیح دی ہے۔ جس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے۔ کہ افضل اور اولیٰ یہی ہے۔ کہ قنوت وتررکوع سے قبل پڑھی جائے۔(واللہ اعلم)2۔دعائے قنوت وتر میں ہاتھ اٹھانے کے بارے میں کوئی مرفوع روایت نہیں ہے۔تاہم مصنف ابن ابی شیبہ میں کچھ آثار ملتے ہیں۔جن میں صرف ہاتھ اٹھانے کا تذکرہ ہے۔دیکھئے۔(مصنف ابن ابی شیبہ 101/2) بعض علماء کے نزدیک ہاتھ اُٹھا کر یا ہاتھ اُٹھائے بغیر دونوں طریقوں سے قنوت وتر پڑھنا صحیح ہے۔تاہم ہاتھ اُٹھا کر دعائے قنوت پڑھنا اس لئے راحج ہے کہ ایک تو قنوت نازلہ میں نبی کریمﷺ سے ہاتھ اُٹھانا ثابت ہے۔تو اس پر قیاس کرتےہوئے قنوت وتر میں بھی ہاتھ اُٹھانے صحیح ہوں گے۔دوسرے بعض صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین سے قنوت وتر میں ہاتھ اُٹھانے کا ثبوت ملتا ہے۔3۔ عام دعا کے اختتام پر ہاتھوں کو منہ پر پھیرنا گو کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔ مگر بعض صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین مثلا حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ عمل ثابت ہے۔دیکھئے۔(الادب المفرد حدیث 609)اس لئے اس کا جواز ہے۔تاہم اگر کوئی شخص دعائے قنوت کے بعد اپنے ہاتھ منہ پر نہیں پھیرتا تو اس کا یہ عمل صحیح ہے۔ کیونکہ اس کا ثبوت صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین سے بھی نہیں ملتا۔
1۔دعائے قنوت وتر کی بابت حضرت ابی کعب سے مروی ہے۔رسول اللہ ﷺ تین وتر پڑھتے اور دعائے قنوت رکوع سے قبل پڑھتے ۔دیکھئے۔(سنن نسائی قیام اللیل۔حدیث 1700 وسنن ابن ماجہ۔اقامۃ الصلاۃحدیث 1182)نیز مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دیگرصحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کا عمل مذکور ہے۔کہ یہ قنوت وتر رکوع سے پہلے پڑھتے تھے۔دیکھئے۔(مصنف ابن ابی شیبہ 97/2) واضح رہے کہ مسنون طریق تو یہی ہے۔کہ وتروں میں دعائے قنوت قبل از رکوع ہوا۔البتہ قنوت نازلہ بالخصوص رکوع کے بعد ہی ثابت ہے۔تاہم بعض علماءدعائے قنوت وتر رکوع کے بعد پڑھنے کے قائل ہیں۔اور وہ بھی جائز ہے۔ لیکن علمائے محققین حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ صاحب مرعاۃ مولانا عبید اللہ رحمانی رحمۃ اللہ علیہ حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ اوردیگر علمائے قنوت وتر قبل از رکوع والی روایات کو زیادہ ترصحیح کہا ہے۔ اور انہیں بعد از رکوع والی روایات پرترجیح دی ہے۔ جس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے۔ کہ افضل اور اولیٰ یہی ہے۔ کہ قنوت وتررکوع سے قبل پڑھی جائے۔(واللہ اعلم)2۔دعائے قنوت وتر میں ہاتھ اٹھانے کے بارے میں کوئی مرفوع روایت نہیں ہے۔تاہم مصنف ابن ابی شیبہ میں کچھ آثار ملتے ہیں۔جن میں صرف ہاتھ اٹھانے کا تذکرہ ہے۔دیکھئے۔(مصنف ابن ابی شیبہ 101/2) بعض علماء کے نزدیک ہاتھ اُٹھا کر یا ہاتھ اُٹھائے بغیر دونوں طریقوں سے قنوت وتر پڑھنا صحیح ہے۔تاہم ہاتھ اُٹھا کر دعائے قنوت پڑھنا اس لئے راحج ہے کہ ایک تو قنوت نازلہ میں نبی کریمﷺ سے ہاتھ اُٹھانا ثابت ہے۔تو اس پر قیاس کرتےہوئے قنوت وتر میں بھی ہاتھ اُٹھانے صحیح ہوں گے۔دوسرے بعض صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین سے قنوت وتر میں ہاتھ اُٹھانے کا ثبوت ملتا ہے۔3۔ عام دعا کے اختتام پر ہاتھوں کو منہ پر پھیرنا گو کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔ مگر بعض صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین مثلا حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ عمل ثابت ہے۔دیکھئے۔(الادب المفرد حدیث 609)اس لئے اس کا جواز ہے۔تاہم اگر کوئی شخص دعائے قنوت کے بعد اپنے ہاتھ منہ پر نہیں پھیرتا تو اس کا یہ عمل صحیح ہے۔ کیونکہ اس کا ثبوت صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین سے بھی نہیں ملتا۔