كِتَابُ سُجُودِ القُرآنِ بَابُ مَا يَقُولُ إِذَا سَجَدَ صحیح حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ عَنْ رَجُلٍ عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي سُجُودِ الْقُرْآنِ بِاللَّيْلِ يَقُولُ فِي السَّجْدَةِ مِرَارًا سَجَدَ وَجْهِي لِلَّذِي خَلَقَهُ وَشَقَّ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ بِحَوْلِهِ وَقُوَّتِهِ
کتاب: سجدہ تلاوت کے احکام و مسائل
باب: سجدہ تلاوت کی دعا
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رات کو سجدہ قرآن میں یہ دعا تکرار سے پڑھا کرتے تھے « سجد وجهي للذي خلقه وشق سمعه وبصره بحوله وقوته» ” میرا چہرہ اس ذات کے لیے سجدہ ریز ہے جس نے اس کو پیدا کیا اور اپنی طاقت اور قوت سے اس کے کان اور آنکھ بنائے ۔ “
تشریح :
یہ روایت سندا ضعیف ہے۔تاہم شیخ البانی ؒ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔لیکن ہمارے محقق ؒ فرماتے ہیں۔کہ اس میں ایک راوی مجہول ہے۔ جسے امام ابو دائود نے عن رجل کہا ہے۔اس لئے یہ روایت ضعیف ہے۔جبکہ یہی دعا صحیح مسلم میں بھی ہے۔لیکن وہاں اسے سجدہ نماز میں پڑھنے کا زکر ہے۔نہ کہ سجدہ قرآن میں (دیکھئے صحیح مسلم صلاۃ المسافرین حدیث 771)نیز اامام نسائی ؒ بھی اس دعا کو اپنی سنن میں لائے ہیں۔لیکن انہوں نے بھی اسے سجدے کی دُعائوں میں مختلف الفاظ سے زکر کیا ہے۔(دیکھئے سنن نسائی۔الدعا فی السجود)البتہ امام دائود ؒ امام ترمذیؒ امام ابن خزیمہ ؒ اور امام ابن ماجہ ؒ نے اسے سجدہ تلاوت کے باب میں زکر کیا ہے۔ابودائود کی روایت کی سند ضعیف ہے۔ کیونکہ اس میں ایک راوی ہے۔جسے امام ابو دائود ؒ نے عن رجل کہا ہے۔اسی علت کی بنا پر امام ابن خزیمہ ؒ نے بھی اسے ضعیف کہا ہے۔(دیکھئے صحیح ابن خزیمہ ۔284۔283/1) سنن ترمذی کی روایت بھی ضعیف ہے۔کیونکہ خالد الحذاء کا ابو العالیہ سے سماع ثابت نہیں۔(دیکھئے سنن ترمذی الصلاۃ حدیث 580) اور سنن ابن ماجہ ؒ کی روایت صحیح تو ہے۔لیکن وہ بھی مطلق سجدے کی دعا ہے۔حدیث میں صراحت نہیں ہے۔ کہ اسے سجدہ تلاوت میں پڑھا جائے۔لیکن امام ابن ماجہ ؒ نے اسے سجدہ تلاوت کی دعا کے باب میں درج کیا ہے۔علاوہ ازیں یہ روایت بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ اور صحیح مسلم کی روایت مطلق سجدے والی بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی مطلق سجدے کے بارے میں مروی ہے۔(دیکھئے صحیح مسلم۔صلاۃ المسافرین حدیث 771 اور سنن ابن ماجہ اقامۃ الصلوات حدیث 1054) سجدہ تلاوت کی صحیح دعا جو ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔اسے امام ترمذی ؒ امام نووی ؒ اور حافظ ابن حجر ؒ نے حسن کہا ہے۔(فتوحات ربانیہ 276/2)امام ابن خزیمہ ؒ ابن حبان ؒ حاکمؒ ذہبی ؒ اور شیخ احمدشاکرؒ نے صحیح قرار دیا ہے۔اورشیخ البانی ؒ نے بھی حسن کہا ہے۔یہ دعا ابتداء میں سجدہ تلاوت کے احکام ومسائل میں درج ہے۔ان دلائل کی روشنی میں دوسری دعا پڑھنا ہی بہتر ہے۔ھذا ما عندہ واللہ اعلم بالصواب۔
یہ روایت سندا ضعیف ہے۔تاہم شیخ البانی ؒ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔لیکن ہمارے محقق ؒ فرماتے ہیں۔کہ اس میں ایک راوی مجہول ہے۔ جسے امام ابو دائود نے عن رجل کہا ہے۔اس لئے یہ روایت ضعیف ہے۔جبکہ یہی دعا صحیح مسلم میں بھی ہے۔لیکن وہاں اسے سجدہ نماز میں پڑھنے کا زکر ہے۔نہ کہ سجدہ قرآن میں (دیکھئے صحیح مسلم صلاۃ المسافرین حدیث 771)نیز اامام نسائی ؒ بھی اس دعا کو اپنی سنن میں لائے ہیں۔لیکن انہوں نے بھی اسے سجدے کی دُعائوں میں مختلف الفاظ سے زکر کیا ہے۔(دیکھئے سنن نسائی۔الدعا فی السجود)البتہ امام دائود ؒ امام ترمذیؒ امام ابن خزیمہ ؒ اور امام ابن ماجہ ؒ نے اسے سجدہ تلاوت کے باب میں زکر کیا ہے۔ابودائود کی روایت کی سند ضعیف ہے۔ کیونکہ اس میں ایک راوی ہے۔جسے امام ابو دائود ؒ نے عن رجل کہا ہے۔اسی علت کی بنا پر امام ابن خزیمہ ؒ نے بھی اسے ضعیف کہا ہے۔(دیکھئے صحیح ابن خزیمہ ۔284۔283/1) سنن ترمذی کی روایت بھی ضعیف ہے۔کیونکہ خالد الحذاء کا ابو العالیہ سے سماع ثابت نہیں۔(دیکھئے سنن ترمذی الصلاۃ حدیث 580) اور سنن ابن ماجہ ؒ کی روایت صحیح تو ہے۔لیکن وہ بھی مطلق سجدے کی دعا ہے۔حدیث میں صراحت نہیں ہے۔ کہ اسے سجدہ تلاوت میں پڑھا جائے۔لیکن امام ابن ماجہ ؒ نے اسے سجدہ تلاوت کی دعا کے باب میں درج کیا ہے۔علاوہ ازیں یہ روایت بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ اور صحیح مسلم کی روایت مطلق سجدے والی بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی مطلق سجدے کے بارے میں مروی ہے۔(دیکھئے صحیح مسلم۔صلاۃ المسافرین حدیث 771 اور سنن ابن ماجہ اقامۃ الصلوات حدیث 1054) سجدہ تلاوت کی صحیح دعا جو ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔اسے امام ترمذی ؒ امام نووی ؒ اور حافظ ابن حجر ؒ نے حسن کہا ہے۔(فتوحات ربانیہ 276/2)امام ابن خزیمہ ؒ ابن حبان ؒ حاکمؒ ذہبی ؒ اور شیخ احمدشاکرؒ نے صحیح قرار دیا ہے۔اورشیخ البانی ؒ نے بھی حسن کہا ہے۔یہ دعا ابتداء میں سجدہ تلاوت کے احکام ومسائل میں درج ہے۔ان دلائل کی روشنی میں دوسری دعا پڑھنا ہی بہتر ہے۔ھذا ما عندہ واللہ اعلم بالصواب۔