Book - حدیث 1391

کِتَابُ قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ وَتَحْزِيبِهِ وَتَرْتِيلِهِ بَابُ فِي كَمْ يُقْرَأُ الْقُرْآنُ حسن صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَفْصٍ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْقَطَّانُ خَالُ عِيسَى بْنِ شَاذَانَ أَخْبَرَنَا أَبُو دَاوُدَ أَخْبَرَنَا الْحَرِيشُ بْنُ سُلَيْمٍ عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ عَنْ خَيْثَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اقْرَأْ الْقُرْآنَ فِي شَهْرٍ قَالَ إِنَّ بِي قُوَّةً قَالَ اقْرَأْهُ فِي ثَلَاثٍ قَالَ أَبُو عَلِيٍّ سَمِعْت أَبَا دَاوُد يَقُولُ سَمِعْتُ أَحْمَدَ يَعْنِي ابْنَ حَنْبَلٍ يَقُولُ عِيسَى بْنُ شَاذَانَ كَيِّسٌ

ترجمہ Book - حدیث 1391

کتاب: قرات قرآن اس کے جز مقرر کرنے اور ترتیل سے پڑھنے کے مسائل باب: قرآن کریم کم سے کم کتنے دنوں میں ختم کیا جائے سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا ” قرآن ایک مہینے میں پڑھا کرو ۔ “ انہوں نے کہا : مجھ میں ( اس سے زیادہ کی ) طاقت ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ” اسے تین روز میں مکمل پڑھا کرو ۔ “ ابوعلی لؤلؤی ( راوی سنن ابوداؤد ) کہتے ہیں ، میں نے امام ابوداؤد ؓ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ امام احمد بن حنبل کہا کرتے تھے کہ عیسیٰ بن شاذان دانا آدمی ہے ۔
تشریح : ان احادیث سے معلوم ہوا کہ ایک رات میں قرآن ختم کرنا مکروہ اور غلط ہے۔اور کچھ لوگ جو اپنے آئمہ کی شان میں یہ بیان کرتے ہیں۔کہ وہ رات کے وضو سے فجر کی نماز ادا کرتےتھے۔رات کو ہزار ر کعت پڑھتے اور قرآن مجید ختم کرتے تھے۔تو یہ سب باتیں نادان دوستوں کی خود ساختہ ہیں۔ان میں ان بزرگوں کی طرف غلطی اور مخالفت سنت کی نسبت ہے حالانکہ آئمہ کرام سنت رسولﷺ کے محب اور اسی کے قائل وفائل تھے۔ایسی بے سروپا باتوں سے ان کا مقام ومرتبہ کسی طور بڑھتا نہیں ہے۔(دیکھئے۔میعار الحق۔ ازشیخ الکل سید نزیر حسین محدث دیلوی ؒ) غور کرنے کی بات ہے کہ اوسط درجے کے دنوں کی راتیں بارہ گھنٹے کی ہوتی ہیں۔اس میں سے عشاء اور فجرکے اوقات جو کم وبیش چار گھنٹے ہوتے ہیں۔انہیں مستثنیٰ کردیں۔تو صرف آٹھ گھنٹے یعنی 480 منٹ باقی بچتے ہیں۔اگر اتنی دیر میں ایک ہزار رکعتیں پڑھی جایئں تو ایک رکعت کے لئے بمشکل بیس پچیس سیکنڈ ملیں گے۔اخر اتنے وقت میں جس رفتار سے نماز پڑھی جائے گی۔وہ عبادت ہوگی یا کھیل؟بلکہ مشین بن کر رہ جائے گی۔اس لئے یہ قطعی ہے کہ اس طرح کی باتیں عقیدت مندوں نے گھڑ کر امام کی طرف منسوب کردیں ہیں۔ درآں حالیکہ خود امام نے یہ کام نہیں کیا ہے۔ ان احادیث سے معلوم ہوا کہ ایک رات میں قرآن ختم کرنا مکروہ اور غلط ہے۔اور کچھ لوگ جو اپنے آئمہ کی شان میں یہ بیان کرتے ہیں۔کہ وہ رات کے وضو سے فجر کی نماز ادا کرتےتھے۔رات کو ہزار ر کعت پڑھتے اور قرآن مجید ختم کرتے تھے۔تو یہ سب باتیں نادان دوستوں کی خود ساختہ ہیں۔ان میں ان بزرگوں کی طرف غلطی اور مخالفت سنت کی نسبت ہے حالانکہ آئمہ کرام سنت رسولﷺ کے محب اور اسی کے قائل وفائل تھے۔ایسی بے سروپا باتوں سے ان کا مقام ومرتبہ کسی طور بڑھتا نہیں ہے۔(دیکھئے۔میعار الحق۔ ازشیخ الکل سید نزیر حسین محدث دیلوی ؒ) غور کرنے کی بات ہے کہ اوسط درجے کے دنوں کی راتیں بارہ گھنٹے کی ہوتی ہیں۔اس میں سے عشاء اور فجرکے اوقات جو کم وبیش چار گھنٹے ہوتے ہیں۔انہیں مستثنیٰ کردیں۔تو صرف آٹھ گھنٹے یعنی 480 منٹ باقی بچتے ہیں۔اگر اتنی دیر میں ایک ہزار رکعتیں پڑھی جایئں تو ایک رکعت کے لئے بمشکل بیس پچیس سیکنڈ ملیں گے۔اخر اتنے وقت میں جس رفتار سے نماز پڑھی جائے گی۔وہ عبادت ہوگی یا کھیل؟بلکہ مشین بن کر رہ جائے گی۔اس لئے یہ قطعی ہے کہ اس طرح کی باتیں عقیدت مندوں نے گھڑ کر امام کی طرف منسوب کردیں ہیں۔ درآں حالیکہ خود امام نے یہ کام نہیں کیا ہے۔