Book - حدیث 135

كِتَابُ الطَّهَارَةِ بَابُ الْوُضُوءِ ثَلَاثًا ثَلَاثًا حسن حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عَائِشَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ الطُّهُورُ فَدَعَا بِمَاءٍ فِي إِنَاءٍ فَغَسَلَ كَفَّيْهِ ثَلَاثًا ثُمَّ غَسَلَ وَجْهَهُ ثَلَاثًا ثُمَّ غَسَلَ ذِرَاعَيْهِ ثَلَاثًا ثُمَّ مَسَحَ بِرَأْسِهِ فَأَدْخَلَ إِصْبَعَيْهِ السَّبَّاحَتَيْنِ فِي أُذُنَيْهِ وَمَسَحَ بِإِبْهَامَيْهِ عَلَى ظَاهِرِ أُذُنَيْهِ وَبِالسَّبَّاحَتَيْنِ بَاطِنَ أُذُنَيْهِ ثُمَّ غَسَلَ رِجْلَيْهِ ثَلَاثًا ثَلَاثًا ثُمَّ قَالَ هَكَذَا الْوُضُوءُ فَمَنْ زَادَ عَلَى هَذَا أَوْ نَقَصَ فَقَدْ أَسَاءَ وَظَلَمَ أَوْ ظَلَمَ وَأَسَاءَ

ترجمہ Book - حدیث 135

کتاب: طہارت کے مسائل باب: اعضا کو تین تین بار دھونے کا بیان جناب عمرو بن شعیب اپنے والد ( شعیب ) سے ، وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا : اے اللہ کے رسول ! وضو کیسے کیا جاتا ہے ؟ تو آپ ﷺ نے برتن میں پانی منگوایا ، پھر اپنے ہاتھ دھوئے تین بار ، پھر چہرہ تین بار ، پھر دونوں کلائیاں دھوئیں تین بار ، پھر سر کا مسح کیا اور اپنے شہادت کی انگلیاں اپنے کانوں میں ڈالیں اور انگوٹھوں سے کانوں کے اوپر کا مسح کیا اور شہادت کی انگلیوں سے ان کے اندر کا ، پھر اپنے پاؤں دھوئے تین تین بار ، پھر فرمایا ” وضو ایسے ہوتا ہے اور جو کوئی اس سے زیادہ کرے یا کم کرے تو اس نے برا کیا اور ظلم کیا ۔ “ یا یوں فرمایا ” ظلم کیا اور برا کیا ۔ “
تشریح : فائدہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے انداز تعلیم و تربیت کا ایک پہلو عملی مظاہرہ بھی ہوتا تھا اور اس طرح طالب علم کو جس قدر فائدہ ہوتا ہے، محض زبانی تلقین سے نہیں ہوتا۔ یہ حدیث صحیح ہے۔صرف ایک جملہ (أونقص) ’’جس نے کم کیا‘‘ شاذ ہے۔ (شیخ البانی رحمہ اللہ) یعنی ایک راوی کا وہم ہے، کیونکہ اعضائے وضو کو ایک ایک ، دودو مرتبہ بھی دھونا جائز ہے۔ تاہم یہاں اگر نقص کا مفہوم یہ لے لیا جائے کہ جو شخص اعضائے وضو کو دھونے میں پورا نہ دھوئے یا ویسے ہی چھوڑ دے تو اس نے ظلم کیا۔ تو اس طرح اس کا مفہوم دوسری روایات کے مطابق ہی رہتا ہے۔(عون المعبود) فائدہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے انداز تعلیم و تربیت کا ایک پہلو عملی مظاہرہ بھی ہوتا تھا اور اس طرح طالب علم کو جس قدر فائدہ ہوتا ہے، محض زبانی تلقین سے نہیں ہوتا۔ یہ حدیث صحیح ہے۔صرف ایک جملہ (أونقص) ’’جس نے کم کیا‘‘ شاذ ہے۔ (شیخ البانی رحمہ اللہ) یعنی ایک راوی کا وہم ہے، کیونکہ اعضائے وضو کو ایک ایک ، دودو مرتبہ بھی دھونا جائز ہے۔ تاہم یہاں اگر نقص کا مفہوم یہ لے لیا جائے کہ جو شخص اعضائے وضو کو دھونے میں پورا نہ دھوئے یا ویسے ہی چھوڑ دے تو اس نے ظلم کیا۔ تو اس طرح اس کا مفہوم دوسری روایات کے مطابق ہی رہتا ہے۔(عون المعبود)